عہد یہی اب اِنسانوں نے ٹھہرانا ہے
کس نے کس کو کتنا نیچا دِکھلانا ہےچڑیوں نے ہے اپنی جان چھپائے پھرناشہبازوں نے اپنی دھونس پہ اِترانا ہےدھوپ کے ہاتھوں اِن سے اوس کی نم چھننے پرگرد نے پھولوں کو سہلانے آ جانا ہے
سورج کے ہوتے، جب تک محتاجِ ضیا ہےچاند نے گھٹنا بڑھنا ہے اور گہنانا ہےجانبِ تشنہ لباں پھر بڑھنے لگا مشکیزہجبر نے جِس پر تیر نیا پھر برسانا ہےعاجز ہم اور قادر اور کوئی ہے ماجدجیون بھر بس درس یہی اِک دہرانا ہے٭٭٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks