دل کا کہنا مان لیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں

تنہائی کا زہر پیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
ہم نے جب کچھ کہنا چاہا تم نے بھی آوارہ جانا
تنگ آ کر ہونٹوں کو سِیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
یہ دنیا گورکھ دھندہ ہے لوگ یہاں کیا کچھ نہیں کرتے
ہم نے بس اِک پیار کیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
جب تک میرے ساتھ رہے تم مجھ پر بھی الزام رہا یہ
پھر جب تم نے چھوڑ دیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
جس میخانے سے پیتا تھا سارا شہر صفیؔ جب اُس سے
ہم نے بھی اِک جام لیا تو لوگوں نے سو سو باتیں کیں
٭٭٭