لُٹتے کہاں کہ صاحبِ جاگیر ہم نہ تھے
نورِ جہاں نہ تھی وہ،جہانگیر ہم نہ تھے
اپنی دعا سے ماند نہ پڑتا کسی کا حسن
اتنے بڑے تو صاحبِ تاثیر ہم نہ تھے
ملتا رہا وہ خواب میں کتنے خلوص سے
آنکھیں کھلیں تو خواب کی تعبیر ہم نہ تھے
ہم کو نہ دے پیامِ رہائی ہوائے صبح
وجہ خروشِ خانہ زنجیر ہم نہ تھے
یا شامِ قتل ہم نے بجھایا نہ تھا چراغ
یا وارثانِ جذبہ شبیر ہم نہ تھے
ہر دورِبے صدا میں ہراک ظلم کے خلاف
ہم کو ہی بولنا تھا کہ تصویر ہم نہ تھے
سب اہلِ شہر پھر درِدشمن پہ جھک گئے
محسن کھلا کہ شہر کی تقدیر ہم نہ تھے
محسن نقوی
عذابِ دید
Bookmarks