Nice Sharing
Thanks for Sharing
سرسید احمد خان کی صحافت
کاشف حسین
سر سید احمد خان انیسویں صدی کے عظیم مسلم رہنما تھے۔وہ دہلی میں ۷۱ اکتوبر ۷۱۸۱ء کو پیدا ہوئے۔ وہ مسلمانوں کے معلم کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے دور میں مسلمان سیاسی ، معاشی، ثقافتی اور تعلیمی لحاظ سے بہت کمزور تھے۔وہ جب تھوڑے سے بڑے ہوئے تو انہیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔بڑے ہو کر انہوں نے مسلمانوں کی باگ ڈور سنبھالی ۔ برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔جس کا منہ بولتا ثبوت ’’ دو قومی نظریہ‘‘ہے۔ جسے علامہ محمد اقبال اور قائدِ اعظم جیسے لیڈروں نے پایہ ء تکمیل تک پہنچایا۔ محنت اور جفا کشی کی قابلیت بھی سر سید کے خاص اوصاف میں سے تھی۔قطع نظر اس کے کہ ابتدا سے ان کو کام کرنے کی عادت رہی۔ ان کے قویٰ میں فطرتاََ مشکلات کو برداشت کرنے اور ہر کام سے ہمت نہ ہارنے کی طاقت اور استعداد رکھی گئی تھی۔اور ظاہر ان کی غیر معمولی ذہانت بھی ان کے دائمی غوروفکر اور دماغی محنت کا نتیجہ تھی۔کیونکہ بچپن میں جیسا کہ خودسرسید احمد خان سے معلوم ہوا کہ وہ با اعتبار ذہانت و جودت کے اپنے ہم چشموں میں کچھ زیادہ امتیاز نہ رکھتے تھے مگر چونکہ انہوں نے اپنے تما م قویٰ سے جو خدا تعالیٰ نے ان کوودیعت کئے تھے ، پورا پورا کام لیا تھا۔ اور اس لئے ان کے ذہن و حافظہ اور عقل سب کو جلا مل گئی تھی۔ سر سید نے میدانِ صحافت میں بھی ایسے رجحان ساز کارنامے سرانجام دیئے جن کی یاد صدیوں تک باقی رہے گی۔سر سید کی صحافت پر اربابِ علم و دانش نے کوئی زیادہ توجہ نہ دی۔سر سید نے صحافت کو قومی اصلاح کا وسیلہ جانا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اس عہد میں جب مسلمان مغلوب و محکوم تھے۔انہوں نے اپنے رسائل میں ایسے مضامین چھاپے جن کا منشا و مقصد بر صغیر کے مسلمانوںکی رہنمائی تھی۔ان کے صحافتی مضامین جہاں عہد جدید کے تقاضوں سے پورے طور پر ہم آہنگ تھے۔وہاں ان کی ایک ایک سطر برصغیر کے مسلمانوں کو ترقی کی راہ پرگامزن ہونے کی ترغیب دلاتی تھی۔ان کی صحافتی تحریروں نے زوال پذیر اور محکوم مسلم قوم کو خواب خرگوش سے بھی بیدار کیا۔ انہیں نئے ماحول میں وقار اور عزت سے جینے کا قرینہ بھی سکھا یا۔حقیقت یہ ہے کہ سر سید احمد خان کے صحافتی مضامین کا پہلا اور آخری مقصد برصغیر کے مسلمانوں میں انتشار اور بد نظمی کی کیفیت کو ختم کرنا تھا۔ سر سید دنیا کی ان عظیم شخصیتوں میں سے ہیں جو اپنے زمانے کو اپنی بے پناہ قوتِ ارادی و عمل سے متاثر کر سکتی ہے۔سر سید نے انیسویں صدی کے ہندوستانیوں خصوصاََ مسلمانوں کی تقدیر بدلنے اور بنانے میں جو کام کیا ہے وہ تاریخ کے صفحات پر مستند حروف میں ثبت ہے۔وہ قدرت کے ان شاہکاروں اور دنیا کے ان مشاہیر میں سے تھے جو اپنے اندر مختلف نوع کی طاقتیں اور صلاحیتیں رکھنے کی بنا پر کسی قوم کے ایک پہلو کو نہیں بلکہ کئی پہلوؤں پر نظر رکھتے تھے اور ان میں انقلاب برپا کرتے تھے۔ سر سید کے اصل میدان دو تھے۔مذہب اور سیاست ۔ ان کے باقی میدان انہی دو میدانوں کے میدان ہیں۔صحافت ان کا الگ میدان نہیں بلکہ مذکورہ میدانوں پر احاطہ کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ سر سیدنے اخباری دنیا سے وابستہ ہو کراپنے مقاصد کی تکمیل چاہی تھی۔ انہوں نے علی گڑھ انسٹیٹیوٹ گزٹ ، تہذیب الاخلاق،جیسے رسائل یا اخبارات کو منزل کے حصول کا ذریعہ بنایا۔سر سید کا دور اگرچہ ہندوستانی اخبارات خصوصاََ اردو اخبارات کا ابتدائی دور تھااور یہ اخبارات ایسے دورمیں منصہء شہود پر آئے ،جوجدوجہد کا دورتھا۔ جب انگریز حکمران کا دبدبہ ہندوستانیوں پر عموماََ اور مسلمانوں پر خصوصاََبہت زیادہ تھا۔ اس پر آشوب دور میں سر سید نے بے خوفی اور صداقت کو ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا۔ ایسے حالات میں جب خطرہ سر پر منڈلا رہا ہواور معاشرہ بھی ترقی یافتہ نہ ہو ، صحافت کی سچائی اور صداقت کی بنیادوں پر قائم رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔سر سید نے اردو صحافت کی روایات کو ابتدائی دور ہی میں اس ستونوں پر ستوار کردیا جو آج کے ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتے ہیں۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Nice Sharing
Thanks for Sharing
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks