SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 1 of 1

    Thread: فیض احمد فیض کی تقریر

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      فیض احمد فیض کی تقریر

      فیض احمد فیض کی تقریر









      محترم اراکین ِ مجلس ِ صدارت ، خواتین و حضرات! الفاظ کی تخلیق وترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے،لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں، جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے۔آج عجزبیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے۔ایسے کوئی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آرہے ، جن میں اپنی عزت افزائی کے لئے لینن پرائز کمیٹی،سوویت یونین کے مختلف اداروں ،دوستوں اور سب خواتین وحضرات کا شکریہ خاطر خواہ طور سے ادا کرسکوں۔لینن امن انعام کی عظمت تو اسی ایک بات سے واضح ہے کہ اس سے لینن کا محترم نام وابستہ ہے۔ لینن جو دور حاضر میں انسانی حریت کا سب سے بزرگ علم بردار ہے اور امن جو انسانی زندگی اور اس زندگی کے حسن وخوبی کی شرطِ اوّل ہے۔مجھے اپنی تحریر وعمل میں ایسا کوئی کام نظر نہیں آتا، جو اس عظیم اعزاز کے شایان شان ہو،لیکن اس عزت بخشی کی ایک وجہ ضرور ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس تمنا اور آدرش کے ساتھ مجھے اور میرے ساتھیوں کو وابستگی رہی ہے، یعنی امن اور آزادی کی تمنا، وہ بجائے خود اتنی عظیم ہے کہ اس واسطے سے ان کے حقیر اور ادنیٰ کارکن بھی عزت اوراکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ یوں تو ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے اور سبھی تصور کرسکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت،دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ،شاعر کا قلم ہے اور مصور کاموئے قلم اورآزادی ان سب صفات کی ضامن اورغلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے، جو انسان اورحیوان میں تمیز کرتی ہے،یعنی شعور اورذہانت،انصاف اور صداقت، وقار اورشجاعت، نیکی اور رواداری ۔ اس لئے بظاہر امن اورآزادی اور اس کے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوشمند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہیے،لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں کہ انسانیت کی ابتدا سے اب تک ہر عہداور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرعمل اور برسرپیکار رہی ہیں۔یہ قوتیں ہیں ،تخریب وتعمیر،ترقی اور زوال،روشنی اور تیرگی،انصا ف دوستی کی قوتیں۔یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے،لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گذشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے بھی فرق ہے۔دورحاضر میں جنگ سے دوقبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ۔نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے۔آج کل جنگ اور امن کے معنی ہیں امن آدم کی بقااور فنا۔بقااورفنا ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے۔انہیں پرانسانوں کی سرزمین کی آبادی اوربربادی کا انحصار ہے۔یہ پہلا فرق ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیداوار کے ذرائع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اوربرادری کی ضرورتیں پوری طرح تسکین پاسکتیں۔اس لئے آپس میں چھین جھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز بھی موجود ہے،لیکن اب یہ صورت حال نہیں ۔ انسانی عقل ، سائنس اورصنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھرسکتی ہیں،بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کے، بے اندازہ خرمن،بعض اجارہ داروں اورمخصوص طبقوں کی تسکین ہوس کے لئے نہیںبلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئے کام میں لائے جائیںاورعقل اورسائنس اورصنعت کی کل ایجادیں اورصلاحتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں،لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اورانسانی معاشرے کے ڈھانچے کی بنائیں ہوس ،استحصال اوراجارہ داری کی بجائے انصاف برابری،آزادی اوراجتماعی خوش حالی میں اٹھائیں جائیں۔اب یہ ذہنی اورخیالی بات نہیں،عملی کام ہے۔اس عمل میں امن کی جدوجہد اورآزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔اس لئے کہ امن کے دوست اوردشمن اورآزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ،ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ایک طرف وہ سامراجی قوتیںہیں جن کے مفاد،جن کے اجارے ،جبر اورحسد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اورجنہیں ان اجاروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے۔دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں، جنہیں بینکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔جنہیں دوسروں پر حکم چلانے کی بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اورساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔ سیاست واخلاق،ادب اورفن،روزمرہ زندگی،غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اورتخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے۔آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے ہر محاز اورہرصورت پر توجہ دینا ضروری ہے۔مثال کے طور پر سامراجی اورغیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کے علاوہ بدقسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی شدید اختلاف موجود ہیں،جنہیں حال ہی میں آزادی ملی۔ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریبی ہمسایہ ہندوستان میں موجود ہیں۔بعض عرب ہمساہہ ممالک میں اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں۔ظاہر ہے کہ ان کے اختلافات سے وہی طاقتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں، جو امن عالم اورانسانی برادری کی دوستی اور یگانگت کو پسند نہیں کرتیں۔اس لیے صلح پسنداورامن دوست صفوں میں ان اختلافات کے منصفانہ حل پر غوروفکر اوراس حل میں امداددینا بھی لازم ہے۔ اب سے کچھ دن پہلے جب سوویت فضاؤں کا تازہ کارنامہ ہر طرف دنیا میں گونج رہا تھاتومجھے باربارخیال آتا رہا کہ آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کرسکتے ہیںتوچھوٹی چھوٹی کمینگیاں،خود غرضیاں ،یہ زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کو کوششیں اورانسانوں کی چند ٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش کیسی بعیدازعقل باتیں ہیں۔اب جبکہ ساری کائنات کے راستے ہم پرکشادہ ہوگئے ہیں۔ساری دنیاکے خزینے انسانی بس میں آسکتے ہیں،توکیاانسانوں میں ذی شعور،منصف مزاج اوردیانت دارلوگوں کی اتنی تعداد موجود نہیں جو سب کو منواسکے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو۔یہ بم اورراکٹ ،توپیں بندوقیں سمندر میں غرق کردو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیر کائنات کو چلو۔جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ،جہاں کس کو کسی سے الجھنے کی ضرورت نہیں،جہاں لا محدود فضائیں ہیں اوران گنت دنیائیں۔مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اورمشکلوں کے باوجود ہم اپنی انسانی برادری سے یہ بات منواکررہیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی، اب بھی فتح یاب ہوکررہے گی اورآخرکار جنگ ونفرت اورظلم کدورت کی بجائے ہمارے باہمی زندگی کی بناوہی ٹھہرے گی ،جس کی تلقین اب سے بہت پہلے فارسی شاعر حافظ ؔنے کی تھی: خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است (ادبی دنیاڈاٹ کام سے مقتبس)

      - @Mamin Mirza


      فیض احمد فیض کی تقریر





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Mamin Mirza (01-07-2016)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •