آصف لقمان قاضی
یہ خالقِ کائنات کا قانون ہے کہ اس کائنات میں صرف اسی کو بقا ہے،باقی سب مخلوقات کو ایک معین مدت تک اپنی ذمہ داری ادا کرنی اور پھر اپنے خالق کی جانب لوٹ جانا ہے،قرآن میں ہے: ترجمہ: ’’ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔‘‘ آغا جان (ہم گھر میں قاضی حسین احمد صاحب کو اس نام سے پکارتے تھے) کی رحلت ہم سب کے لیے بہت اچانک تھی۔ وہ اللہ سے دُعا کیا کرتے تھے کہ مجھے اس حال میں نہ لے جانا جہاں مجھے دوسروں کا سہارا لینا پڑے۔ شاید دوسروں کا محتاج بن جانا اُن کے خوددار مزاج پر بوجھ بن جاتا۔ اللہ نے انسانی فطرت کو محبت، چاہت، اُنسیت اور تعلق کے جذبوں سے نوازا ہے اور زمین میں پائے جانے والے تمام جذبوں اور رشتوں میں ماں باپ اور اولاد کے مابین پائے جانے والے جذبے اور تعلق کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ جب بھی ماں باپ اور اولاد کے تعلق کی بات آئے گی، تو اس کی وضاحت کے لیے مثالوں کا سہارا نہیں لینا پڑے گا بلکہ یہ رشتہ خود ہی سب سے بڑی مثال ہے۔ اُن کا بیٹا ہونے کے ناتے مجھے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے شاید الفاظ کی ضرورت نہیں۔ میرے دل کی ہر دھڑکن میں والد گرامی کا پیار اور شفقت موجود ہے اور جب تک سانس کی آمدورفت ہے، یہ تعلق بھی زندہ رہے گا۔ آغا جان نے ہمیں دُکھ اور غم کو وقار اور صبر کے ساتھ برداشت کرنے کی تربیت دی تھی۔ اُن کی وفات کے دکھ میں ہم اکیلے نہیں تھے۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے،اُن کے لاکھوں روحانی بیٹے ہمارے ساتھ شریک تھے۔ مجھے یاد ہے اُن کی وفات کے چند گھنٹوں بعد مجھے صومالیہ سے اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے فارغ التحصیل ایک صومالی نوجوان کی تعزیتی ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی۔ وہ مجھے کہہ رہا تھا کہ قاضی صاحبؒ ہم سب کے والد تھے۔ میں سوچ رہا تھا نجانے یہ کیسا رشتہ ہے ،جو ہزاروں میل دور دو مختلف براعظموں میں رہنے والوں، مختلف نسلوں کے لوگوں کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ حرمِ پاک سمیت شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو، جہاں آغا جان کی غائبانہ نمازِ جنازہ یا تعزیت کی کوئی تقریب منعقد نہ ہوئی ہو۔ اخوان المسلمون، مصر کے سابق مرشد ِعام نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ قاضی صاحبؒ زندہ تھے تو تب بھی ہم سب کو اکٹھا کرتے تھے اور آج وہ وفات پاگئے ہیں تو اب بھی ہمیں اکٹھا کررہے ہیں۔ یہ اُمت ِمسلمہ کے اس اتحاد کا ایک اظہار تھا، جو قاضی صاحبؒ کے دل ودماغ پر ایک نوجوان کے عشق کی طرح نقش تھا۔ شیخ مہدی عاکف نے عربی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ قاضی حسین احمدؒ ’’رمزاً من رموز الامۃ‘‘ یعنی اُمت ِمسلمہ کی علامتوں میں سے ایک علامت تھے۔ ایک ایسا شخص جو اُمت کے اتحاد کا ایک نشان بن جاتا ہے۔ آغا جان ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ ایک کالم نگار نے اُن کے بارے میں بالکل درست لکھا تھا کہ اُن سے مل کر ایسا لگتا ہے، جیسے قرونِ وسطیٰ کا کوئی تاریخی شخص ہمارے زمانے میں آگیا ہو۔ اُن کا پاکیزہ مزاج، اُن کی وجاہت، اُن کا جلال اور ذوقِ جمال، قرآن سے تعلق، عشقِ رسولؐ، ادب اور مطالعہ کا شوق، جرأت اور ثابت قدمی، تحمل اور صبر، نرم خوئی اور ہمدردی، شفقت اور محبت، تحرک، جہد مسلسل اور داعیانہ تڑپ، بے ساختہ حس مزاح اور بے تکلفی، ہر انسان کے ساتھ دوستی کا انداز، وسیع المشربی اور ہر گھڑی اللہ کی بندگی کا احساس اور اس طرح کی اَن گنت خوبیوں کا اُن کی شخصیت کے اندر جمع ہوجانا اللہ تعالیٰ کا ایک خاص احسان تھا۔ وہ غلطیوں سے مبرا نہ تھے او رکوئی انسان معصوم عن الخطا ہو بھی کیسے سکتا ہے، الا یہ کہ وہ اللہ کا نبی اور پیغمبر ہو، لیکن وہ یقینا ایک ایسے شخص تھے، جنہیں دیکھ کر یا جن کی صحبت میں رہ کر انسان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے اور انسان اپنے رب سے قریب تر ہوجاتا ہے۔ سراج الحق صاحب نے اُن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر علامہ اقبالؒ اُن کو دیکھ لیتے تو وہ کہہ اُٹھتے کہ جس مردِ مومن کا تصور میں پیش کیا کرتا تھا، یقینا یہ وہی شخص ہے۔ ہمارے لیے آغا جان ایک مکتب بھی تھے اور فیضانِ نظر کی ایک خانقاہ بھی۔آغا جان کے ساتھ وابستہ یادوں میں ایک مستقل اور دل ودماغ پر گہرے نقوش چھوڑ دینے والی یاد نمازِ فجر اور اس کے متصل وہ ساعتیں ہیں ،جو اُن کی قربت میں گزریں۔ بچپن ہی سے نمازِ فجر کے لیے جگانے کا اُن کا ایک دلنشین انداز تھا۔ عموماً فجر کے وقت قرآنی آیات کی تلاوت کرتے یا اقبالؒ کے اشعار گنگنارہے ہوتے۔ یہ شعر اکثر کہتے: ’’اٹھو کہ ہو بھی چکا ہے فراق و ظلمت ونور‘‘ یا پھر اقبالؒ کے وہ اشعار ’’از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز۔‘‘ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پیا رکرتے اور پھر میرے بالوں کو اُلٹی سمت میں پھیرتے۔ میںاپنے ماتھے پر اُن کے مضبوط، مگر شفقت بھرے ہاتھوں کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ قاضی صاحبؒ نے نوجوانی میں ہی اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرلیا تھا۔ وہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے تھے او رزندگی کا ہر لمحہ آخری سانس تک اسی نصب العین کے حصول کے لیے ہر ممکن طورپر استعمال کیا۔ اُن کے وقت میں اللہ نے برکت دی تھی او روہ اپنا وقت کبھی ضائع نہیں کرتے تھے بلکہ فرصت کے چند لمحے بھی میسر ہوتے تو اسے کسی مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مصروف زندگی کے باوجود اپنے تمام احباب اور رشتہ داروں کے لیے بھی وقت نکالتے اور اپنے کاروبار کی طرف بھی توجہ کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو ایک متوازن انداز میں ترتیب دیا تھا۔ اُن کو اپنی ترجیحات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تھا اور اولین ترجیح دعوتِ دین کی جدوجہد تھی۔ وہ ایک مطمئن نفس کے مالک تھے اور ساری زندگی کوئی ترغیب، لالچ یا خوف انہیں اپنے نصب العین سے ہٹانہ سکی۔ میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی میں اسی لیے مسلماں، میں اسی لیے نمازی وہ خود اپنے مضمون ’’اقبالؒ کا پیغام، اُمت مسلمہ کے نام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اگر ایک انسان اپنے آپ کو، اپنے رب کو اور اپنے مقام کو پہچان لے، تو اس کے بعد اللہ کی طاقت، نصرت اس کے شامل حال ہوجاتی ہے۔ خودی اور موت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اقبال ؒکہتے ہیں: خودی ہے زندہ تو ہے موت اِک مقامِ حیات کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات موت بھی زندگی کا ایک مقام ہے۔ دنیا کی موت آخری منزل نہیں ، حیات اس کے بعد بھی جاری ہے۔ دنیا کا اُفق اس کو ختم نہیں کرتا۔ حیات کا تسلسل موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور ہر مؤمن اس پر یقین رکھتا ہے۔ تمام احباب سے اُن کے حق میں دُعا کی درخواست ہے۔ ؎آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ٭…٭…٭