شاہد احمد دہلوی
شاہد احمد دہلوی داستان گوئی کا فن اب ہمارے ہاں بالکل ختم ہو چکا ہے۔ دلّی کے آخری داستان گو میر با قر علی تھے جن کے انتقال کو اب 20 برس سے اوپر ہوئے۔ دبلے پتلے سے آدمی تھے، سفید چھوٹی سی داڑھی، سر پر دو پلی، پائوں میں دیسی جوتی، انگر کھا اور چست پاجامہ پہنتے تھے۔ عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان، کھلتا ہوارنگ، ستوا سی ناک، میانہ قد، باتیں کرتے تو منہ سے پھول جھڑتے۔ داستان سنانے دور دور جاتے تھے۔ رجواڑوں اور نوابوں کی تقریبات میں بلائے جاتے۔ ایک زمانے میں ریاست پٹیالہ میں داستان سنانے کے لیے ملازم بھی رہے۔ رئیس مر گیا تو دلی واپس آ گئے۔ املی کی پہاڑی پر گھر تھا۔ آخری وقت میں افلاس نے گھیر لیا تھا۔ سینما ایسا چلا کہ میر صاحب کی پرسش ختم ہو گئی۔ دلی کے ہندو رئیس چھنا مل کے ہاں کسی وقت میں چالیس پچاس روپے ماہوار پر ملازم تھے۔ چھنامل والوں کا بیان ہے کہ ہم میر صاحب سے بچپن سے داستان سن رہے ہیں۔ بیس پچیس سال ہو گئے، ایک داستان ہی ختم ہونے میں نہیں آتی۔ میرے بچپن میں میر صاحب فراش خانہ میں داستان سنایا کرتے تھے۔ ہفتے میں ان کا ایک دن مقرر تھا۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ داستان کہتے۔ برسوں یہ سلسلہ جاری رہا۔ داستان کا ایک حصہ سنانے پائے تھے کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ میر صاحب ہمیشہ داستان امیر حمزہ ہی سنایا کرتے تھے۔ ایک نے ان سے پوچھا کہ میر صاحب! یہ داستان کبھی آپ نے ختم بھی کی ہے؟ بولے ’’عمر بھر میں ایک دفعہ‘‘۔ میر صاحب کے آبائو اجداد شاہی داستان گو تھے۔ غالباً انہی میں سے کسی کے متعلق یہ روایت مشہور تھی کہ بادشاہ کو روزانہ داستان سنایا کرتے تھے۔ ایک موقع ایسا آیا کہ عاشق و معشوق کے درمیان صرف ایک پردہ حائل تھا۔ پردہ اٹھ جائے تو وصال ہو جائے۔ مگر داستان گونے احساسات، خیالات اور کیفیات کے بیان میں بارہ سال گزار دیے اور پردہ نہ اٹھا۔ آخر بادشاہ کا اشتیاق بے قابو ہو گیا اور اس نے تنگ آکر کہا ’’آج پردہ اٹھ جانا چاہیے‘‘ تب کہیں وہ پردہ اٹھا۔ میر صاحب کا بھی اسی سے کچھ ملتا جلتا حال تھا۔ بیگم کے بنائو سنگھار میں ایک نشست ختم کر دیتے تھے۔ آراستہ ہونے کی تفصیل، زیورات کی قسمیں، لباس کی قسمیں۔ زیورات کی تفصیل شروع ہوتی تو میر صاحب سیکڑوں نام گنا جاتے۔ پھر یہ بھی بتاتے کہ شاہی بیگمات کے زیور کیا ہوتے تھے۔ درمیانہ طبقے کی خواتین کون کون سے زیور پہنتی تھی۔ بھٹیاریاں، سقنیاں اور مہترانیاں کیا کیا پہنتی تھیں۔ میر صاحب بزم اور رزم کو اس انداز سے بیان کرتے کہ آنکھوں کے سامنے پورا نقشہ کھنچ جاتا۔ داستان کہتے جاتے اور موقع بہ موقع ایکٹنگ کرتے جاتے۔ آواز کے زیروبم اور لب و لہجہ سے بھی اثر بڑھاتے۔امیر حمزہ اور عیاروں کا جب بیان کرتے تو ہنساتے ہنساتے لٹا دیتے۔ ہتھیاروں کے نام گنانے شروع کرتے تو سو ڈیڑھ سونام ایک سانس میں لے جاتے۔ پھر کمال یہ کہ نام صرف طوطے کی طرح رٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ آپ جب چاہیں، ٹوک کر کسی ہتھیار کی شکل اور اس کا استعمال دریافت کر سکتے تھے۔ میر صاحب پوچھنے سے چڑتے نہ تھے، بلکہ خوش ہوتے اور تفصیل سے بتاتے۔ مثلاً منجنیق کو بیان کرنے ہی میں پندرہ منٹ صرف کر دیے۔ عورت کا حسن بیان کرنے پر آئیں تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیں۔ اور کچھ نہیں تو چال کی ہی سیکڑوں قسمیں بتاتے۔ بیگم بن سنور کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں آ رہی ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا، بیگم دہلیز نہیں پھلانگتیں۔ پھر کیا مجال کہ آپ میر صاحب کے بیان سے اپرانے یا اکتانے لگیں۔ انھوں نے یہ وسیع معلومات بڑی محنت سے حاصل کی تھیں۔ ہر علم کا انھوں نے باقاعدہ مطالعہ کیا تھا۔ استادوں سے باقاعدہ سیکھا تھا۔ اور تو اور جب دلی میں طبیہ کالج کھلا تو میر صاحب نے ساٹھ سال کی عمر میں اس میں داخلہ لیا اور لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے لگے اور وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کی سند بھی حاصل کی۔ میر صاحب کی داستان جہاں ہوتی وہاں اجلی اجلی چاندنیوں کے فرش بچھ جاتے۔ میر صاحب کے لیے ایک چھوٹا ساتخت بچھا دیا جاتا۔ اس پر قالین اور گائو تکیہ ہوتا۔ سامعین گائو تکیوں سے لگ کر بیٹھ جاتے۔ پان اور حقے کا دور چلتا رہتا۔ گرمیوں میں شربت اور جاڑوں میں چائے سے تواضع کی جاتی۔ میر صاحب تخت پر براجمان ہوتے۔ کٹورے یا گلاس میں پانی منگواتے۔ جیب میں سے چاندنی کی ڈبیا اور چاندی کی چھوٹی سی پیالی نکالتے۔ ڈبیا میں سے افیون کی گولی نکالتے۔ اسے روئی میں لپیٹتے، پیالی میں تھوڑا سا پانی ڈال کر انٹے کو اس میں گھولتے رہتے اور دوستوں سے باتیں کرتے رہتے۔ جب ساری افیون دھل کر پانی میں آجاتی تو روئی اگال دان میں پھینک دیتے اور گھولوے کی چسکی لگا لیتے۔ اس کے بعد چائے کا ایک گھونٹ پیتے۔ فرماتے ’’چائے کی خوبی یہ ہے کہ لب بند، لب ریز اور لب سوز ہو۔‘‘ پھر داستان شروع کر دیتے۔