Mamin Mirza (01-01-2016),Rana Taimoor Ali (01-01-2016)
پاکستان کی شخصیات جو سال بھر خبروں میں رہیں
یاست کی نگری میں سال 2015 تو خاص طور پر کچھ سیاست دانوں کیلئے اچھا نہ رہا۔ سب سے زیادہ چرچا این اے 122 ، تبدیلی اور پھر بھابی کا رہا لیکن بازی خواجہ صاحب لے گئے۔
وفاقی وزیر خواجہ آصف کیلئے 2015 خاص طور پر بہت ہی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ خواجہ صاحب منجھے ہوئے سیاست دان تو ضرور ہیں لیکن 2015 میں انہیں اس وقت پذایرئی ملی جب اسمبلی اجلاس میں وہ تحریک انصاف پر چڑھ دوڑے اور خواجہ صاحب کا بولا ہوا جُملہ انہیں سیاست کی تاریخ میں امر ضرور کرے گا ۔خواجہ صاحب کا بولا گیا جُملہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے ایسا مشہور ہوا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس جملے کو خاص مقام حاصل ہوا۔ اس جملے کے بعد بالی ووڈ کی مشہور فلم شعلے کے ڈائریکٹر رامیشں سپپی بھی سوچ میں پڑ گئے کہ اگر انہوں نے یہ جُملہ گبر سنگ سے کہلوایا ہوتا تو ان کی فلم کو مزید چار چاند لگ سکتے ۔پاکستان کے فلمی حلقوں میں بھی خواجہ صاحب کے جملے کے بارے میں چہ مگوئیاں ضرور رہیں ہوں گی کیونکہ پاکستان کی فلم انڈسڑی جو دوبارہ اپنے مقام کو حاصل کرنے میں کوشاں ہے۔ انہیں خواجہ صاحب جیسے ڈائیلاگ بولنے والوں کی ضرورت ہے کا اشتہار دینے کا بھی سوچا ہو گا۔
پاکستان کی سیاست میں کرکٹ کی زبان کو متعارف کروانے والے شخص کپتان ہیں جنہوں نے سیاست میں کئی باؤنسر پھینکے ورنہ اس سے پہلے پاکستان کی سیاست میں بابائے قائد سے لیکر ابتک ڈائریکٹ ہٹ کو فوقیت حاصل تھی اور جمہوری پیچ پر کپتان امپائر کی انگلی کے سایہ سے آگاہ کرتے رہے۔ خان صاحب کا 2014 تو بہت ہی اچھا گزارا کیونکہ قسمت کی دیوی ان کے گھر کی باندی بن چکی تھی اور اس لئے تو 126 دنوں کا ٹیسٹ میچ کھیلتے رہے اور آخر کار میچ کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا لیکن ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی وارد ہوئی۔اس تبدیلی کا چرچا کچھ عرصہ رہا لیکن خان صاحب کی مشکلات میں اضافہ 2015 میں اس وقت ہوا جب ان کی ریحام خان سے علیحدگی ہوئی۔ ریحام سے علیحدگی پر بھی ان کو مذہبی، سیاسی اور میڈیا کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کا اثر یقینی طور پر ان کی سیاسی زندگی پر بھی پڑا۔بلدیاتی انتخابات سے ایک دن پہلے ریحام سے علیحدگی کی خبر نے میڈیا کی ساری توجہ عمران ریحام طلاق کی جانب مبذول کر دی اور یقیناً اس خبر نے عمران کو سیاسی طور پر بھی ایک جھٹکا دیا اور وہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ہی مکمل طور پر ناکام ہو گئے ۔
سال دو ہزار پندرہ میں ایاز صادق اور این اے 122 کا خوب چرچا رہا۔ ایاز صادق نے 2013 کے عام انتخابات کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی کی نشت سنبھالی تب سے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوتی نظر نہیں آئی ۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی سیٹ پر براجمان ہوتے ہی ایاز صادق کا عہدہ بھی دھاندلی کے الزامات کی زد میں آیا جس کیلئے تحریک انصاف نے خوب ڈھول بجایا اور آخر کار ڈھول کی تھاپ تقریبا چار ماہ تک ایوان بالا کے در و دیوار سے ٹکراتی رہی اور جس کا اثر این اے 122 کی سیٹ پڑا اور ایاز صادق پویلین جا بیھٹے۔ 11 اکتوبر 2015 کو ایاز صادق اور ان کی جماعت کمر بستہ ہوئی اور ایک بار پھر تحریک انصاف کو شکست دی اور ایاز صادق دوبارہ قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے کا حلف لیا۔ تاہم تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان نے نتائج کو الیکشن کمیشن میں چلینج کر دیا۔تحریک انصاف پچھلی بار کی طرح اب بھی پُرامید ہے کہ وہ دوبارہ ایاز صادق کو پویلین کی راہ دکھائے گی لیکن ایاز صادق 2016 کے بارے میں کافی پرجوش نظر آتے اور خاصے مطمئن بھی نظر آتے ہیں کہ 2016 ان کیلئے بد شُگون نہیں رہے گا۔ ایاز صادق کیونکہ سادہ لوح طبیعت کے مالک نظر آتے ہیں لیکن کپتان کے باؤنسر کا خطرہ رہنے کے باوجود وہ اسمبلی میں ان سے اوپر والی سیٹ پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔اسمبلی اجلاسوں کے دوران نیند پوری کرنے کی بات ہو یا چلتے پھرتے لڑکھڑانے کے واقعات ہمارے ذہنوں میں فوراً وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا نام آتا ہے۔ سندھ کے سائیں نے بھی یادوں کی کتاب 2015 میں اپنا خوب حصہ ڈالا اور روایتی طور پر 2015 میں بھی سائیں کی زبان ان سے بے وفائی کرتی رہی اور اس بے وفائی میں کچھ کردار ان کی ٹانگوں کا بھی رہا جو لڑکھڑانے کا باعث بنیں۔سائیں قائم علی شاہ معصوم وزیر اعلی کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں کیونکہ وہ جب بولتے ہیں دل سے بولتے ہیں اس لئے ان کی زبان ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ 2015 میں ہونیوالی بارشوں میں سائیں کی زبان بھی ایس بھیگی کہ انہوں نے بارش کے پیمانے کو ملی میٹر کی بجائے میٹر کہہ ڈالا اور پیش گوئی کہ سو دو سو میٹر بارش ہو گئی تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔قائم علی شاہ کی زبان تو بے وفائی کرتی رہتی ہے لیکن وہ اپنے لیڈر سابق صدر آصف زرداری کو یوم دفاع کی تقریب پر آصف زرداری کو ملک کا وزیراعظم کہہ کر اپنے موجودگی کا احساس دلایا۔سائیں نے جب بھی وفاقی حکومت کو لکارا تو ان کی زبان ضرور پھسلی۔ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر وفاقی حکومت کو للکارنے کے بعد شرکاء سے اجازت لیتے ہوئے کہا کہ اللہ آپ کا حاضر و ناصر ہو ۔نواب شاہ میں یونیورسٹی کے کانووکیشن کا دن قائم علی شاہ نے یادگارہ بنا دیا۔ سائیں لڑکھڑاتے ہوئے اسٹیج پر پہنچے تو طلباء و طالبات سے خطاب کے دوران سائیں کی ٹوپی نے انہیں تنگ کیے رکھا۔
چُٹکلوں کے بے تاج بادشاہ سابق وزیر اعلی بلوچستان اسلم رئیسانی جو ہمیشہ اپنے دور اقتدار میں جب بھی میڈیا کے سامنے آتے تو میڈیا کو دن بھر کیلئے نیا چُٹکلہ ضرور دے جاتے تھے۔ جمہور بھی 2015 میں اسی تجسس میں رہا کہ اسلم رئیسانی نے کہیں کُوہ کاف کو تو اپنا آشیانہ نہیں بنا لیا جو اب کسی سکرین پر جلوہ گر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کا کوئی چُٹکلہ مارکیٹ میں سُننے کو میں ملتا ہے۔اسلم رئیسانی کے بارے میں جمہور کا یہ تجسس خاصی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ان کے سُنائے گئے چُٹکلوں سے عوام کا 2013، 2014 اچھا گزرا تھا ورنہ دن بھر کی سنسنی خیز خبروں سے بے زار ہو جاتے تھے۔ اب جمہور کے کان 2016 میں رئیسانی کے چُٹکلے سننے کی امید رکھتے ہیں۔رئیسانی صاحب کے مشہور زمانہ چُٹکلے
ڈگری ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی
پہلے مسئلہ کشمیر کو حل کر دو پھر بلوچستان کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا
بال تو بال ہوتے ہیں چاہے انسان کے ہوں یا حیوان کے
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ۔ محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں
پاکستان کی سیاست سے نسوار فروشی بہتر ہے
ڈگری ڈگری ہوتی ہے ، چاہے تھرمامیٹر کی ہو
سردی سردی ہوتی ہے ، ونٹر ہو یا گرمی
الیکشن ٹرک یونین کا ہو یا اسمبلی کا الیکشن الیکشن ہوتا ہے
دھرنا مت دیں ، سموسے کھائیں
فارمولہ فارمولہ ہوتا ہے ، ریاضی کا ہو یا کیمسٹری کا
تحریر: عرفان احمدڈیزائنر: احسن زاہد
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Mamin Mirza (01-01-2016),Rana Taimoor Ali (01-01-2016)
bohat khoob zabardast info hai 2015 ki
hmmmmmmmmmmm
sahi
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
Nice Sharing
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks