حسن البناء مودودی نہیں بن سکتے



خرم مراد
مولانا مودودی کے گھلنے ملنے کی کمی کو ہم جمعیت والے محسوس کرتے تھے کیونکہ ہم نے حسن البناء شہید کی اپنائیت اور یگانگت کا جو تذکرہ’ اخوان‘ سے سنا تھا، اس سے مولانا کا موازنہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ البتہ چودھری غلام محمد صاحب میں بڑی اپنائیت تھی۔ ایک دفعہ ظفر اسحاق نے پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے مولانا مودودی کو خط لکھ کر اس احساس کا ذکر بھی کیا تھا۔ حسن البناء کی مثال دے کر کہا تھا کہ اس میں سے کچھ آپ اختیار کریں، تا ہم مولانا نے کچھ اس طرح جواب دیا کہ ’’حسن البناء مودودی نہیں بن سکتے اور میں حسن البناء نہیں بن سکتا‘‘۔ میں یہ بات ان پر تنقید کے نقطۂ نظر سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کا مزاج علمی تھا اور علمی مزاج کی مخصوص فضا سے نکل کر انھوں نے تحریک چلائی، اس کو سنبھالا، اس کو ترقی دی، اتنا بڑھایا کہ وہ اب تک چل رہی ہے۔ اپنی جگہ یہ ان کا بڑا عظیم الشان کارنامہ ہے۔ اس کے ساتھ ان کا ایک یہ بھی عظیم کارنامہ ہے کہ انھوں نے حکمت، بالغ نظری، ایثار اور اعتدال کے ساتھ اتنے لوگوں کو جوڑے رکھا۔ بلاشبہ کچھ لوگ الگ بھی ہوئے جوبڑے قابلِ قدر افراد تھے، مگر اس سے مجموعی طور پر ان کی عظمت اور محنت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ جس زمانے میں ہم اجتماعات میں شرکت کے لیے لاہور جاتے تھے۔ اس دوران غالباً53ء کی بات ہے ، ان کے ہاں ان کا سب سے چھوٹا بیٹا خالد فاروق پیدا ہوا تھا۔ ہم لوگ ان کے سر ہو گئے کہ ’’ہم کراچی والے آپ کے ہاں بیٹے کی خوشی میں کھانا کھائیں گے‘‘۔ ایسا نہیں ہوا کہ انھوں نے بہت آگے بڑھ کر خیر مقدم کیا ہو۔ بہر حال انھوں نے ہماری دعوت کر دی۔ میں اور خورشید، ظفر اسحاق اور کراچی کے چار پانچ لوگ تھے۔ ہم نے ان کے گھر ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھایا۔ ان سے دلچسپ بات چیت ہوتی رہی۔ ہم جیسے لوگوں کے لیے ایسی نجی قسم کی محفل، نشہ ٔ محبت والفت تیز تر کرنے کے لیے بہت کافی ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب میں ڈھاکہ جماعت کا امیر تھا، تو مولانا مودودی اس دوران کئی مرتبہ ڈھاکہ آئے تھے۔ وہ ڈھاکہ میں جماعت کے کام کو بے انتہا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ خورشید بھائی نے مجھے ان کی روایت سنائی کہ ’’بھائی، جماعت کا کام تو ڈھا کہ شہر میں ہو رہا ہے ‘‘(شہر کو انھوں نے ذرا بنگالی لہجے میں ’’شوہر‘‘ کہا) ڈھاکہ میں جماعت کا کام اپنی رفتار اور گہرائی کے لحاظ سے اچھا تھا۔ لیکن انھوں نے کبھی خود مجھ سے براہِ راست نہیں کہا کہ ’’کام اچھا ہو رہا ہے‘‘۔ میں سوچتا ہوں کہ اس عمر میں مولانا محترم کی جانب سے تعریف کے دو کلمات بھی میری ہمت افزائی کے لیے بہت بڑی چیز ہوتے۔ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ویسے جو لوگ ان سے قریب رہے ،وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ میں ان سے بہت دور رہا ہوں، اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ دوسروں کی بھی یہی رائے ہو۔ ( خود نوشت ’’ لمحات‘‘ سے مقتبس