محمد طفیل نقوش
جب میری پہلی کتاب صاحب چھپی، تو حباب حامد علی خاں صاحب نے لاہور ریڈیو سے تبصرہ کیا۔ بڑے ہی حوصلہ افزا کلمات میں سراہا۔ نوید یہ بھی سنائی کہ کتاب اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس کا مصنف مستقبل میں مزید اپنے جوہر دکھائے گا، وغیرہ وغیرہ! جب حامد علی خاں صاحب تبصرہ کر کے باہر آئے، تو مڈ بھیڑ شوکت تھانوی صاحب سے ہوئی، حامد علی خاں صاحب نے شوکت صاحب سے پوچھا: ’’جو تبصرہ میں نے آپ کے دوست کی کتاب پر کیا ہے۔ کیا وہ آپ نے سنا؟‘‘ گویا تاثریہ دیا کہ کتاب تو میری لکھی ہے۔ افسوس کے ساتھ اس واقعہ کا ذکر حامد علی خاں صاحب نے شیخ محمد اسماعیل پانی پتی سے کیا۔ شیخ صاحب نے اس واقعہ کا ذکر مجھے سے کیا۔ میں تو کھول گیا۔ ایک دن اتفاق سے شیخ صاحب میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ شوکت تھانوی بھی آن دھمکے۔ میرے خون میں مزید حدت پیدا ہو گئی۔ میں نے شوکت صاحب کو مخاطب کر کے پوچھا: کیا آپ نے حامد علی خاں صاحب سے کہا ہے کہ یہ کتاب (صاحب) میں نے لکھی ہے؟ ’’بالکل نہیں!‘‘ مجھے یقین تھا کہ نہ تو حامد علی خاں صاحب جھوٹ بول سکتے ہیں اور نہ ہی شیخ محمد اسمعیل پانی پتی، شرارت کے طور پر یہ قصہ شوکت صاحب نے ہی چلایا ہوگا۔ اسی لیے میں نے بھی کہا ’’اگرآپ نے ایسا ہی تاثر دیا ہو، تو پھر مجھے خوش بھی ہونا چاہیے ، اس لیے کہ آپ کو لکھتے ہوئے تیس برس ہو گئے اور یہ کتاب میری پہلی کتا ب ہے۔ گویا میں ایک دم آپ کے معیار تک پہنچ گیا‘‘۔ اس پر شوکت صاحب بھی بھنائے۔ انہوں نے فرمایا۔ وہ نطفہ نا تحقیق ہو، جس نے یہ بات کہی ہو۔‘‘ پارہ میرا بھی گرم تھا میںنے بھی کہہ دیا ’’اگر مجھے علم ہوتا کہ وہ کتاب، آپ کے معیار کے مطابق ہوگی، تو میں مسودہ کو آگ دکھا دیتا، مگر کتاب نہ چھاپتا۔‘‘ (نقوش نمبر سے ماخوذ) ٭…٭…٭