SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 1 of 2 12 LastLast
    Results 1 to 10 of 11

    Thread: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائزہ


      پاکستان کے جنوب مشرق میں جونا گڑھ و کاٹھیاواڑ کا مشہور علاقہ ہے جو برصغیر کے مغربی ساحل پر واقع ہے ۔یہ ایک جزیرہ نماں ہے جس کو تاریخِ اسلام میں بھی اہمیت حاصل رہی ہے۔’’پرانی تاریخوں میں اس علاقے کو آنرت لکھاگیاہے‘‘ (۱)اس جزیرہ نماں کو سورٹھ، سور ا شٹر، اور کاٹھی واڑ بھی کہا جاتا رہا ہے۔یہاں پر کاشت کاری بڑے پیمانے پر کی جاتی تھی ۔ اس علا قے کی زبان میں کاشتکار کو کاٹھی اور واڑ علاقے کوکہا جاتاہے ۔جس کی وجہ سے اس علاقے کانام ٹھیاواڑ پڑ گیا۔’’یہ کراچی سے۳۰۰ میل (۵۰۰کلو میٹر)کے فاصلے پر ساحلِ سمندر پر واقع ہے۔ جس کا رقبہ ۳۳۳۷مربع میل(قریباً۵۵۶۲کلو میٹر )ہے‘‘(۲)قائد اعظم محمد علی جناح کے دادا کاٹھیاواڑ کے ’’گونڈل ‘‘شہرکے ایک گاؤں ’’پنیلی ‘‘میں رہائش پذیر تھے۔’’قائد اعظم کے دادا پونجا بھائی کی چار اولادیں تھیں:سب سے بڑی اور اکلوتی بیٹی مان بی ،بڑے بیٹے والجی،منجھلے بیٹے ناتھو بھائی اور چھوٹے بیٹے قائد اعظم کے والد بزرگوار جن کا نام جناح پونجا ‘‘(۳)تھا۔اس وقت’’پنیلی کی آبادی ایک ہزار سے کم تھی‘‘ (۴)پونجا بھائی کے سب سے چھوٹے بیٹے ’’جن کی پیدائش ۱۸۵۷ کے ہنگامی دور میں ہوئی ‘‘(۵) جوصحت کے نکتہ نظر سے بہت ہی کمزور تھے۔’’جناح (بھائی) پیدائش کے وقت بہت دبلے اور کمزور تھے اسلئے دیکھنے والوں نے انہیں جھینا کہنا شروع کر دیا ۔جھینا کے معنی کمزور کے ہیں اردو زبان میں جھینا تقریباً انہی معنوں میں بولا جاتا ہے ‘‘(۶)جناح بھائی نے گھر پر ہی معمولی تعلیم حاصل کی تھی (۸) ۔
      پنیلی کے چھوٹا گاؤں ہونے کی وجہ سے وہاں پر کاروباری مواقع زیادہ نہ تھے۔جبکہ جناح بھائی کا کاروبار بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا تھا۔کاروبار کی وسعت کی وجہ سے جناح بھائی آبائی گاؤں سے نکل کر گونڈل شہر میں آگئے۔جہاں انہوں نے اپنے کاروبار پر بھر پور توجہ دی جس کے نتیجے میںجناح بھائی کو کافی منافع ہونے لگا۔اس کامیابی پر ان کے والد بے حد خوش تھے۔مگر پونجا بھائی ان کی کمزور صحت کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔بیٹی اور دونوں بڑے بیٹوں کی شادیاں وہ پہلے ہی کر چکے تھے۔اب انہیں اپنے چھو ٹے اور ہونہار بیٹے کی شادی کے لئے اچھے رشتے کی تلاش تھی۔انہیں ایک پتلی دبلی اور خوش مزاج لڑکی گونڈل شہر سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤ ں ’’ڈھرفامیں ایک با عز ت خاندان کی اسمٰعیلی خوجہ لڑکی مل گئی‘‘(۸)یہ خوبصورت لڑکی ہنس مکھ اور خوش مزاج ہونے کی وجہ سے میٹھی بائی کے نام سے پکاری جاتی تھی۔ان کے والدکانام موسیٰ جمعہ تھا۔(۹) جبکہ میٹھی بائی کا نام’’شیریںبی بی ‘‘(۱۰)تھا۔فاطمہ جناح فرماتی ہیں کہ’’ میر ے والد جناح پونجا اور میری والدہ میٹھی بائی کی شادی ڈھرفا میں ۱۸۷۴، میں ہوئی تھی‘‘ (۱۱)۔
      کاروبار میں مزید جیسے جیسے وسعت ہونے لگی جناح بھائی کو گونڈل شہر بھی چھوٹا محسوس ہونے لگالہٰذا ’’جناح بھائی نے اپنے والد کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ کراچی میں بھی کاروبار کریں ‘‘(۱۲)آخر کار انہوں نے گونڈل سے کراچی جاکر کاروبار کرنے کا ارادہ کر لیا۔ ’’اس وقت کراچی ایک چھوٹا ساقصبہ تھاجس کی آبادی پچاس ہزار (۵۰۰۰۰۰)نفوس پر مشتمل تھی‘‘(۱۳)جہاں پہنچ کر ’’کھارادر کے مقام پر نیونہم روڈپر دو کمروں کا ایک فلیٹ کرائے پر حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے‘‘(۱۴)جہاں وہ اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوگئے ۔ کچھ عرصہ کراچی کے کاروباری ماحول کو سمجھنے کے بعد بولٹن مارکیٹ کے قریب ’’والجی انڈ کمپنی ‘‘(۱۵)کے نام سے جناح بھائی نے اپنے کاروبار کی شروعات کر دی۔’’ان کا کاروبار چمڑے،گوند اور (خشک) مچھلیوںکا تھا۔مگر ان کی توجہ زیادہ تر بیرونی تجارت پر مرکوز ہوگئی اور وہ بہت جلد بڑ ے برآمدی تاجر بن گئے۔انہوں نے برطانوی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار شروع کیا۔وہ ان کو فش ماؤز(مچھلی کی آنت)فراہم کرتے تھے۔جس کی برطانیہ اور چین میں طلب بہت زیادہ تھی۔انکا یہ لاکھوں روپے کا کاروبار تھا‘‘(۱۶) اس زمانے میں کچھ انگریزی فرمیں بھی کرا چی میں کاروبار کر رہی تھیں۔جو کراچی کی بندر گاہ کے ذریعے بر صغیر کی اشیاء یورپ کے دور دراز علاقوں میں لیجا کر فروخت کرتی تھیں اور بھاری سرمایہ کماتی تھیں۔
      محمد علی جناح کے اجداد اور ان کی پیدائش:-
      اسمٰعیلی خیالات کی سب سے پہلی جماعت جس کا پاک و ہند کی تاریخ میں ذکر ملتا ہے قرامطہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔جس کے داعی نویں صدی عیسوی میں قاہر، عراق، حضرِ موت اور یمن سے بر صغیرہند وپاکستان کے خطے میں آکر آبا ہونا شروع ہوے۔آہستہ آہستہ انہوں نے سندھ اور پنجاب کے مغرب میں اقتدار حاصل کر لیا۔مذہب کے حوالے سے ان میں بڑا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ملتان پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے شہر کمے قدیمی مندر کو جسے محمد بن قاسم نے برقرار رہنے دیا تھا کو گراکر مسجد میں تبدیل کر دیا (۱۷)۔

      ن لوگوں کی تبلیغی کوششو ں میں بڑا جوش پایا جاتا تھا جو نہایت منظم ہوا کرتی تھیں۔لیکن اہلِ سنت سے ان کے شدید اختلافات تھے۔در اصل ہندوستان پر محمود غزنوی کے حملوں کا
      مقصد سندھ سے قرامطہ فرقے کا خاتمہ کرنا بھی تھا۔غزنوی کے حملوں کے وقت سندھ دو خود مختار ریاستوں منصورہ اور ملتان میں بٹ چکا تھا۔ ریاست ملتان پراسمٰعیلی یا قرامطہ فر قے کے لوگ قابض تھے۔ جو مصر کی فاطمی خلافت کو تسلیم کرتے تھے۔جبکہ محمود خلافتِ بغداد کا وفادار تھا۔اور اسمٰعیلیوں کو مرتد سمجھتا تھا۔یوں ملک گیری اور مذہب کے مخلوط جذبات کے ساتھ غزنوی نے ۶۔۱۰۰۵ء میں ملتان کی طرف پیشقدمی کی۔ راستے میں انندپال کو شکست دیتا ہوا ملتان پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا۔ملتان کے حاکم ابوالفتح داؤد نے محمود سے صلح کی در خواست کی اور اپنے عقائد سے تائب ہونے کا وعدہ کیا(۱۸)منصور میں محمود نے یہاں کے اسمٰعیلی گورنر کو شکست دے کر ایک سنی مسلمان کو حکومت دیدی محمود غزنوی کے چلے جانے کے بعد علاقے پر اسمٰعیلیوں نے پھر غلبہ پالیا۔۱۱۷۵ء میں شہاب الدین محمد غوری نے دوسری مر تبہ ملتان کو ان کے قبضے سے چھڑایا۔’’سندھ اور ملتان میں اسلامی حکومت کے استحکام اور سنی خیالات کی اشاعت کے بعد قرامطہ کا زور( ان علاقوں سے) ختم ہوتا چلا گیا‘‘ (۱۹) اب جو لوگ اسمٰعیلی خیالات کے تھے انہوں نے یا تو اپنے خیالات کے اظہار میں اخفاسے کام لیا یا حکو مت کے مرکز سے دور گجرات ،کاٹھیا واڑ اور کچھ کے طرف چلے گئے۔اس وقت ان کے مذہبی عقائد اور سیاسی عزائم میں کچھ تبدیلی پیدا ہوگئی تھی۔ ’’تیر ہویں صدی کے وسط کے بعد قرامطہ کا ذکر ہندوستانی تواریخ میں نہیں ملتالیکن ان کے جانشین خوجے اور بوہرے کی شکل میں موجود ہیں‘‘ (۲۰ ) جن خوجوں نے اپنے خیالات و تصورات جن میں ان کے عقائد بھی شامل ہیں کو مخفی رکھا تھا وہ سندھ اور پنجاب بعض علاقوں میں خاموشی کی زندگی بسر کرنے لگے تھے۔’’سولہویں صدی کے وسط میں پنجاب کے خوجوں کا سنیت کی طرف میلان پیدا ہوگیا تھا یہی وجہ تھی کہ ہندوستان میں انہیں ایک نائب امام کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس طرح سندھ کے ایک طاقتور خوجہ خاندان کے چشم و چراغ داؤد یا دادوکو پیر بنا دیا گیا ۔جو کہ خوجہ تھا۔سومروں کی مخالفت نے دادو کو جام نگر کی طرف دھکیل دیا۔جہاں ان کا عزت و وقار کے ساتھ استقبال ہوا۔ اس کے اثرات کی وجہ سے کاٹھیاواڑ کے بہت سے لوگ اسمٰعیلی فرقے میں داخل ہو گئے‘‘(۲۱)۔
      جناح پونجااور ان کے خاندان کے افراد کا تعلق بھی خوجہ نسل کے آغا خانی خاندان سے تھا۔کہا جاتا ہے کہ ان ’’خوجوں کا سلسلہ مشہور اسمٰعیلی داعی حسن بن صبا سے ملتا ہے‘‘ (۲۲)جب محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین محمد غوری کے ادورا میں ملتان سے بڑے پیمانے پر ہجرت کی توسندھ اور پنجاب کے زیریں علاقوں میں خوجوں کی تعداد بہت ہی کم ہوگئی تھی۔سومروں کے دور میں جن خوجوں نے یہاں سے ہجرت کی تھی ان میں جناح پونجا کے اجداد بھی شامل تھے جنہوں نے ملتان سے کاٹھیاواڑہجرت کرنے کے بعد اسی کو اپنا مستقل مسکن بنالیا تھا۔ اسطرح کاٹھیاواڑ میں خوجے بتدریج آباد ہوگئے۔
      قائد اعظم کے شجرہ نسب پر جب نظر جاتی ہے تو ان کے پردادا کا نام ہیر جی بتایا جاتا ہے (۲۳)’’ان کے بیٹے میگھ جی اور میگھ جی کے بیٹے کانام پونجا بھائی تھا‘‘(۲۴)پونجا بھائی یا جناح پونجا میگھ جی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔پونجا بھائی (قائد اعظم) محمد علی جناح کے والد تھے۔جناح پونجا کے ہاں سات بچوں کی ولادت ہوئی جن کے ’’نام محمد علی، رحمت علی،مریم، احمد علی،شیریں،فاطمہ اور بندے علی ‘‘تھے( ۲۵) اس بات کی تصدیق جی الانا نے بھی کی ہے(۲۶)اس کے برعکس رضوان احمد نے جناح پونجا کے بچوں کی تعداد آٹھ بتائی ہے ۔(۲۷)یہ بات محترمہ فاطمہ جناح کے قول کے سامنے درست تسلیم نہیں کیجا سکتی ہے۔ جنہوں نے اپنے بہن بھائیوںکی تعداد سات ہی بتائی ہے۔
      جناح پونجا جس وقت کراچی آئے تو اُس وقت کراچی آج جیسا بڑا شہر نہ تھا۔بلکہ یہ مختصر آبادی کا ایک قصبہ تھا۔جس میں دور دور فاصلوں پر کچے پکے مکانات تھے۔اس وقت کراچی شہر کے کچھ مخصوص اور مشہور محلے تھے۔کھڈہ کا علاقہ جو آج بھی اسی نام سے موجود ہے۔ جو کشتی رانی اور مچھلی کے کاروبار کے لئے مشہور تھا۔جہاں روزانہ بڑی مقدار میں مچھلی پکڑ کر لائی جاتی تھی۔اور کھلے میدانوں میں خشک کر کے گوداموں میں اکٹھی کر لی جاتی تھی(۲۸)اس کے ساتھ ہی کھارا در کا علاقہ (جو آج بھی اسی نام سے مشہور ہے) تھا جہا ں لکڑی کے مکانا ت بنے ہوے تھے۔یہ جگہ کھارا در اس وجہ سے کہلاتی تھی کہ یہاں پر کبھی کبھی سمندر کا پانی آجاتا تھا۔اس کے ذرا آگے میٹھا در کا مقام ہے ۔اس جگہ کا نام میٹھا در اس وجہ سے پڑا کہ ملیر ندی اس علاقے کے ساتھ ہی بہتی تھی۔جہاں دو تین فٹ زمین کھودنے پر میٹھا پانی نکل آتا تھا۔ان کے علاوہ اُس زمانے کی اور بہت سی مشہور جگہیں ہیں۔ جن میں ’’صدر‘‘کی اہمیت آج بھی وہ ہی ہے جو اُس زمانے میں ہوا کرتی تھی۔کراچی میںانگریز کی آمد سے پہلے اس قصبے کے چاروں طرف مٹی کی اونچی فصیلیں تھیں اور قدیم دستو ر کے مطابق پوری آبادی فصیل کے اندر تھی‘‘(۲۹)مگر اب کراچی کے گرد کہیں بھی فصیل کے نشانات نہیں ملتے ہیںجس سے درج بالا بیان کی تصدیق ہوتی ہو۔
      محترمہ فاطمہ جناح جو قائد اعظم کی چھوٹی بہن اور ان کی قریبی ساتھی تھیں لکھتی ہیں کہ ’’میرے والدین نے دو کمروں کا ایک پر وقار گھر نیو نہم روڈ پر کرائے پر لیاتھا‘‘(۳۰) نیو نہم روڈ کی پتلی گلیوں میں آج بھی وہ گھر موجود ہے۔جسمیں بالکونیاں بنی ہوئی ہیں جہاں محمد علی جناح پیدا ہوے(۳۱)انکی پیدائش نیو نہم روڈ کھارا در کے مکان کی بالائی منزل پر ہوئی تھی۔جو وزیر میشن کے نام سے موسوم ہے(۳۲)یہ دو کمروں پر مشتمل ایک مختصر سا فلیٹ تھا۔ جس کو جناح پونجا نے کرائے پر حاصل کیا تھا(۳۳)اس مکان میں محمد علی جناح سے متعلق بہت ساری چیزیں آج بھی محفوظ ہیں۔جہاں حکومت پاکستان نے ایک لائبریری بھی قائم کر دی ہے۔اس مکان کی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے۔
      اس کے بر عکس مکان کے حوالے سے رضوان احمد لکھتے ہیں کہ ’’جناح پونجا نے جو مکان کرائے پر لیا تھا وہ چھاگلہ اسٹریٹ کے کنارے واقع تھا‘‘( ۳۴) فاطمہ جناح نے جو بات مکان کے وقوعہ سے متعلق کی ہے وہ ہی بات خواجہ رضی حیدرنے بھی اپنی تحریر قائد اعظم کے ۷۲ سال میں لکھی ہے۔اس کے علاوہ بعض کتابوں میں خاص طور پر نصابی کتب میں ایک عرصہ تک ایک اور قول لکھا جاتا رہا کہ’’جھرک میں پونجا پٹ کے نام سے ایک میدان ہے۔جس کے قریب قائد اعظم کا کراچی میں پہلا آبائی مکان بتایا جاتا ہے‘‘(۳۵)یہ حقیقت ہے جھرک کا مقام پہلے ضلع کراچی میں آتا تھا۔لیکن حقیقت میں محمد علی جناح کی جائے پیدائش وزیر منشن نیو نہم روڈ کراچی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
      محمد علی جناح کی تاریخِ پیدائش
      قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کے ضمن میں ہمیں مختلف کتابوں میں مختلف تاریخیں ملتی ہیں۔مطلوب الحسن سید جوقائد اعظم کے پراؤیٹ سکریٹری بھی رہے اپنی کتاب ’’جناح: اے پولیٹکل اسٹڈیز ‘‘میں تحریر کرتے ہیں کہ قائد اعظم ’’کرسمس کے دن ۱۸۷۶ء کو اتوار کے روز پیدا ہوے‘‘(۳۶)مگر محمد علی جناح کے اسکول کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق نہیںہوتی ہے ۔ بعض بیانات اور تحریروں میںمحمد علی جناح کی پیدائش ۱۸۷۰ء، ۱۸۷۳ء اور ۱۸۷۴ء بھی ملتی ہیں۔مگر محققین کی اکثریت کااتفاق محمدعلی جناح کی پیدائش کے سلسلے میں ۲۵،دسمبر ۱۸۷۶ ،پر ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے بچے محمد علی جناح،جسکو مسلمان قوم نے قائداعظم کے عظیم خطاب سے نواز کی پیدائش صبح اذان کے وقت ہوئی گھر کی بالائی منزل پر ہوئی ۔ اس وقت کراچی میں مشکل ہی سے کہیں زچہ خانہ ہوتا ہوگا۔ گھر پر ہی ایک ماہر دایا کا انتظام کردیامگریہ ’’ بچہ بہت کمزور اور دبلا پیدا ہوا جس کے پتلے پتلے لمبے ہاتھ تھے،سر لمبوتراتھا،والدین اس کی صحت کی وجہ سے بہت پریشان تھے‘‘(۳۷)جنا ح پونجا کے پہلے فرزند کے پیدا ہونے پر سارے گھر میں خوشیاںمنائی گئیں۔ سماجی قاعدے کے مطابق بچے کے والدین کو مبارک باد دینے اور بچے کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ پہلوٹھی کے اس بچے کا نام خاندانی روایات کے مطابق،بچے کے ماموں قاسم موسیٰ نے محمد علی رکھا(۳۸) جناح پونجا اور ان کی بیگم نے اپنے پہلے بیٹے کے نام’’ محمد علی جناح کو نیک فال تصور کیا‘‘(۳۹) ۔
      چھٹی کی رسم
      معاشرے کا عام رواج ہے کہ ’’بچے کی پیدائش خصوصاًجب بچہ پہلوٹھی کا ہو تو بڑی دھوم دھام سے تقریبیں منعقد کی جاتی ہیں،گانے بجانے اور اظہار مسرت کے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں۔او رجہاں ہندو مسلمان سب اکھٹے رہتے ہوں تو قدرتی طور پر ایک دوسرے ی کے رسم و رواج کا اثر بھی آہی جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے ہندو گھرانے دائرہ اسلام میںداخل ہوے توبنیادی اسلامی تعلیمات کے باوجو دان کے ہاں بعض ہندوانہ رسمیں باقی رہ گئیں تھیں۔ان ہی میں کا ایک رواج یہ تھا کہ بچے کی پیدائش کے چھٹے دن ایک خاص تقریب انجام دی جاتی جسے عام طور پر چھٹی کی رسم کہا جاتا ہے۔ ’’یہ رسم ہندووں میں بھی ہوتی تھی اور مسلمانوں میں بھی ،دونوں کے ہاں مذہبی نکتہ نظر سے فرق ہے‘‘(۴۰)۔
      چھٹی کی رسم کے بارے میں ہندووں کا یہ عقیدہ ہے کہ چھٹی ماتا نام کی ایک دیوی ہے جو بچے کی پیدائش کے ٹھیک چھ دن بعد آتی ہے اور بچے کی اچھی یا بری تقدیر لکھ کر چلی جاتی ہے۔یہی ان کے نزدیک کاتب تقدیر ہے۔لہٰذا اس عقیدے کی بنیاد پر بچے کی پیدائش کے چھٹے دن اس قسم کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ بچے کے قریب ایک خوبصورت اور رنگین قلم کے ساتھ زعفرانی یا عنبر اور گلال کی بنی ہوئی روشنا ئی اور ایک رجسٹر رکھ دیا جاتا ہے۔تاکی بچے کے نصیب میں بہت سی اچھائیاں اور خوش نصیبیاں لکھ دی جائیں(۴۱) اس قسم کے رسم و رواج برعظیم کے بیشتر علاقوں میں آج بھی رائج ہیں مگر شہروں میں ان کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے ۔مگر دیہاتوں میں آج بھی شدو مد کے ساتھ جاری ہیں۔
      رسمِ عقیقہ
      میٹھی بائی اپنے زمانے کی خوش عقیدہ خواتین میں سے تھیں۔اس لئے محمد علی جناح کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنے شوہرسے’’اصرار کیا کہ بچے کو حسن پیر کے مزار پر لیجا کروہاں عقیقہ کیا جائے۔کیونکہ ان کی والدہ نے حسن پیر سے متعلق بہت سی کراماتی کہانیاں سن رکھی تھیں‘‘(۴۲)’’بزرگ حسن پیر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان مسلمان صوفیاء کے نقشِ قدم پر چلتے تھے۔جنہوں نے اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے لئے وقف کیا ہوا تھا‘‘(۴۳)۔
      جناح پونجا کا بڑھتا ہوا کاروبار اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھاکہ وہ کراچی چھوڑ کر کہیں جائیں۔جس کی وجہ سے انہوں نے کوشش کی کہ میٹی بائی سے معذرت کر لیں کیونکہ ’’ان کے لئے کراچی سے ایک ماہ کے لئے جاناقابل برداشت ہوگا‘‘(۴۴)اس وقت جناح پونجا کا کاروبار بڑی تیزی سے عروج کی طرف جا رہا تھا۔بیگم کے مسلسل اصرار پر جناح پونجا کو کاٹھیا واڑ جانے کے لئے رضامند ہونا پڑا۔ضروری تیاریوں کے بعد یہ چھوٹا ساقافلہ کراچی کے ساحل سے کاٹھیاواڑ کی بندر گاہ جس کا نام ’’ویرو وال‘‘ تھا کیلئے بحری باد بانی جہاز پر سوار ہو کر اپنی منزل کے طرف روانہ ہوگیاچند دنوں کے سفر کے بعد یہ خاندان ویرووال کی بندر گاہ پر اتر گیا۔جہاں سے یہ لوگ بیل گاڑیوں پر بیٹھ کر حسن پیر کے مزار پر پہنچے ’’جہاں پر انہوں نے چھوٹے بچے محمد علی کے سر کے بال منڈوائے ،حسن پیر کی درگاہ پر نذرانے دیئے‘‘(۴۵)جہاں پر انہوں نے بچے کے مراتب کی بلندی اوردرازیِ عمر کے لئے دعایئں مانگیں ان رسوم سے فارغ ہوکر جناح پونجا کا خاندان بیل گاڑیوں کے ذریعے اپنے آبائی گاؤں ’’پنیلی‘‘ کے لئے روانہ ہو گیا۔جہاں جناح پونجا کے والدین اور بہن بھائیو ں نے مسرتوں کیساتھ ان کا استقبال کیا۔ پنیلی میں چند دن قیام اور رشتے داروں سے میل ملاقاتوں کے بعد جنا ح پونجا اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی واپس آگئے۔
      محمد علی جناح کی شادی اور تعلیم
      محمد علی جناح کی پہلی درس گاہ ان کا گھر تھا۔جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم کے مدارج طے کئے۔ان کی تعلیم و تربیت چھ سال کی عمر میں شروع کر دی گئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ’’میرے والدین نے گھر ہی پر ایک استادکو گجراتی پڑھانے کے لئے مقرر کر دیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ وہ اسکول جانے کی عمر سے بہت چھوٹے تھے اور قریب ترین اسکول بھی ہمارے گھر سے بہت دور تھا‘‘(۴۶)جب محمد علی جناح کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوے تو ان کے والدین نے انہیں اسکول میں داخل کرا دیا۔’’محمد علی نجاح کی تعلیم کا آغاز کراچی کے مدرسۃ الاطفال ( انفینٹ ورنا کولر اسکول )سے ہوا۔جہاں انہوں نے گجراتی کی چوتھی جماعت تک تعلیم پائی‘‘(۴۷)اس بیان کے بر عکس مطلوب الحسن سید تحریر کرتے ہیں کہ ’’جناح کو ابتدائی عمر میں ہی اپنے والدین سے جدا کر کے’’ گوکل داس تیج پال اسکول‘‘ میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے لئے داخل کرادیا گیا تھا‘‘(۴۸)ان دونوں بیانوں میں کسی قسم کی کوئی شہادت یا ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے ۔بہر حال اس بات کا تو ثبوت موجود ہے کہ محمد علی جناح نے گجراتی کی چار جماعتیں پڑھنے کے بعدسندھ مدرسۃ الاسلام کے اسٹینڈرڈ فرسٹ میں (انگریزی کی پہلی جماعت) میں داخلہ لیا تھا۔بہر حال گجراتی کی چار جماعتیں محمد علی جناح نے غالب خیال یہ ہی ہے کہ گھر پر پڑھی ہونگی کیونکہ چھوٹی عمر محمد علی جناح کے لئے گھر سے دور کسی اسکول میں جانا دشوار تھا۔اور ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ وہ اپنے والدین کے اس وقت سب سے بڑے بیٹے تھے ان کے والدین ان سے محبت بھی بہت زیادہ کرتے تھے۔
      جس وقت پہلی مرتبہ محمد علی جناح سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایاگیا تو(۴۹)سندھ مدرسۃالاسلام میں محمد علی جناح کا جنرل رجسٹر نمبر ۱۱۴، ہے نام محمد علی جناح جائے پیدائش کراچی،تاریخِ پیدائش کا کالم خالی ہے۔سر پرست کے دستخط کا خانہ بھی خالی ہے،ذات میں خوجہ درج ہے،سابقہ تعلیم کے خانے میں گجراتی کی چار جماعتیں درج ہے،فیس کے خانے میں (aying)فیس ادا کرنے والا لکھا ہے ،تاریخ داخلہ ۴،جولائی ۱۸۸۷ء درج ہے۔ان کا داخلہ انگریزی کی پہلی جماعت میں کیا گیاتھا(۵۰)ان اندراجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شائدقائد اعظم کا داخلہ خود ان کے والد جناح پونجا نے نہیں کرایا تھا۔ بلکہ کاروباری مصروفیات کے پیشِ نظر انہوں نے محمد علی جناح کو کسی قریب رشتے دار یا دوست کے ذریعے اسکول میں داخل کرایا ہوگا۔جسکا ثبوت یہ ہے کہ تاریخِ داخلہ کا خانہ اور سر پرست کے دستخط دونو کے ہی خانے خالی ہیںجس سے اشارہ ملتا ہے کہ محمد علی کا داخلہ کسی اور شخص نے کرایا تھا۔
      فاطمہ جناح تحریر کرتی ہیں کہ ’’ان ایام میں ہماری پھوپی مان بائی بمبئی سے کراچی آئی ہوئی تھیں ….انہوں نے والدہ پر زور دیا کہ محمد علی جنا ح کو تعلیم کے حصول کی غرض سے ان کے ساتھ بمبئی بھیج دیں‘‘(۵۱)اس وقت محمد علی جناح کا رجحان تعلیم سے زیادہ کھیل کی طرف تھا۔جس وقت وہ گھر میں ہی پڑھ رہے تھے تب بھی ان کا زیادہ تر وقت کھیل میں ہی گذرتا تھا۔لہٰذا جناح پونجا نے کوشش کی کہ محمد علی جناح کو ایسے اسکول میں داخلہ دلایا جائے ’’جہاں کے طالبعلم اسکول سے زیادہ تر غیر حاضرنہ ہوتے ہوں اور گولییوں لٹووں ، گلی ڈنڈا اور کرکٹ کو کتابوں پر ترجیح نہ دیتے ہ‘‘(۵۲)اس وقت محمدعلی جناح کے ماحول کی تبدیلی ہی ان کو کھیل کود سے دور رکھنے کا علاج ہوسکتا تھا۔اس لئے محمد علی کو پھوپی مان بائی کی تجویز پر ان کے ساتھ بمبئی بھیج دیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بمبئی کے ’’انجمن اسلام سکول بمبئی میں داخل کرا دیئے گئے(۵۳) یہی با ت ان کے متعلق سندھ مدرسہ کے جنرل رجسٹر میں بھی درج ہے۔ بمبئی پہنچے کے بعد جناح نے تعلیم کی طرف ذرا سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینا شروع کر دی تھی۔دوسری جانب کراچی میں محمد علی جناح کی والدہ اپنے اکلوتے اورپہلے بیٹے کی جدائی سے پریشان تھیں۔ان حالات سے مجبور ہونے کے بعد جناح پونجا نے محمد علی جناح کو واپس کراچی بلوالیا۔’’محمدعلی جناح کے دوبارہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ ۱۸۸۷ء/ /۱۲ ۲۳ کو ہوا‘‘(۵۴)۔
      کرا چی آمد کے بعد اسکول سے فارغ اوقات میں’’ محمد علی جناح کا مشغلہ گھڑ سواری تھا‘‘(۵۵)اس وقت جناح پونجا کے پاس کئی گھوڑا گاڑیاں اور ان کے اصطبل میں کئی اچھے گھوڑے موجود تھے۔انہوں نے اُن میں سے ایک گھوڑ امنتخب کیااور گھڑ سواری کا شوق پورا کرنے لگے۔اس شوق میں ان کے اسکول کا ایک دوست کھارا در کے تاجر کریم قاسم کا بیٹا بھی شامل تھا‘‘(۵۶)دونوں مل کر اپنا شوق گھڑ سواری کے ذریعے پورا کرتے۔دونوں ہر روز گھڑ سواری کرتے کیونکہ محمد علی جناح کو گھڑ سواری بہت پسند تھی۔وہ سوچتے تھے کہ ’’گھوڑ اپنا سر کس طرح بلند رکھتا ہے۔سر کو اونچارکھنا قوت اور طاقت کی نشانی ہے‘‘(۵۷)اسی طرح محمدعلی جناح کو گنبد اور مینار بہت پسند تھے۔یہی سر بلندی اور اعتماد آئندہ زندگی میں ان کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔یہی وجہ تھی کہ وہ ساری زندگی ہر کام قوت اور اعتماد کے ساتھ کرتے تھے۔ان کے ہر کام میں ایک وقار کا پہلو ہمیشہ پوشیدہ رہتا تھا۔
      ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ مدرسہ میں اس مرتبہ انکا جنرل رجسٹر نمبر ۱۷۸،تھا اس مرتبہ محمد علی جناح کی تاریخ پیدائش ۲۰، اکتوبر،۱۸۷۵،درج کرائی گئی۔بقیہ خانوں میں سابقہ اندراجات ہی کئے گئے۔اس مرتبہ محمد علی جناح نے اسٹینڈرڈ فورتھ(چوتھی جماعت ) تک اس اسکول میں تعلیم حاصل کی جب وہ چوتھی جماعت میں تھے تو شائد بیماری کی وجہ اسکول سے طویل عرصہ غیر حاضر رہے۔جس کی بناء پر ۵، جنوری ۱۸۹۱ء کو طویل غیر حاضری کی بناپر ان کانام اسکول کے رجسٹر سے خار ج کر دیا گیا۔(۵۸)پھر فروری ۱۸۹۱ء کو محمد علی جناح کا دوبارہ داخلہ ہوااس مرتبہ ان کا جنرل رجسٹر نمبر ۴۳۰تھا۔نام کے کالم میں محمد علی کے ساتھ ’’جناح بھائی‘‘ کا اضافہ ہوااورتاریخ پیدائش ۲۰، اکتوبر ہی درج کی گئی(۵۹)محمد علی جنا ح نے پانچویں جماعت میں ہی اسکول سے تبادلے کا سرٹیفکیٹ ۳۰،جنوری ۱۸۹۳ء شادی کی غرض سے کچھ جانے کے لئے نکلوالیا۔
      درانِ تعلیم ہی محمد علی جناح کے والدجناح پونجا نے فیصلہ کر لیا کہ محمد علی جناح کو (Busines admistration) کاروباری نظم ونسق کی تربیت کیلئے تین سال کی مدت کے لئے انگلستا ن بھیج دیا جائے۔محمدعلی جناح کے انگلینڈ بھیجنے کا سن کر جناح کو والدہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ ’’برطانیہ ایک خطر ناک ملک ہے میرے غیر شادی شدہ اور خوبصورت نو جوان بیٹے کووہاں بھیجنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔اگر انہوں نے وہاں پر کسی انگریز عورت (میم)سے شادی کرلی تو یہ جناح خاندان کے لئے المیہ ہوگا‘‘(۶۰)لہٰذا پہلے محمد علی جناح کی شادی کر دی جائے پھر انگلستان بھیجنے کا سوچا جائے۔
      جناح پونجا نے اپنی بیگم کے مشورے سے اتفاق کیا۔اب محمد علی جناح کے لئے ایک خوبصورت دلہن کی تلاش شروع کی گئی۔ان کی والدہ پنیلی کے ایک خوجہ خاندان سے وا قف تھیں۔ ’’انہوں نے سوچا کہ یقیناً اس خاندان کی لڑکی ایمی بائی جو بمبئی کے بڑے تاجر لیرا کھیم جی کی بیٹی تھیں‘‘(۶۱)محمد علی کے لئے ایک اچھی دلہن ثابت ہوگی۔جناح کے والد ین نے اس معاملے میں بیٹے سے مشورہ کیا جو والدین کی رضا میں راضی ہو گئے۔محمد علی جناح نے زندگی میں صرف یہ ہی ایک اہم فصلہ خود نہیں کیا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جناح کو والدین کی فہم و فراست پر مکمل اعتماد تھا۔کسی ذریعے سے جنا ح پونجا نے بیٹے کے رشتے کی بات پکی کرنے کے بعدوہ بیٹے کی شادی کی غرض سے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے آبائی گاؤںپنیلی پہنچے فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ ’’گاؤں کے لوگوں کو علم تھا کہ میر ے والد نے بہت سرمایہ کمالیا ہے اور وہ لکھ پتی ہیں‘‘(۶۲)یہی وجہ تھی کہ وہ اتنے لمبے فاصلے سے بارات لے کر پہنچے دلہن کے والدین نے دور دراز کا فاصلہ طے کر کے آنے والی بارات کا پنیلی گاؤں پہچنے کو اپنی عزت افزائی تصور کیا۔جناح پونجا بھی لوگوں کے اندرونی جذبات سے واقف تھے۔انہوں نے پنیلی میں اپنی شہرت کوبر قرار رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔وہ رشتے داروں دوستوں اور گاؤں کے ہر گھرانے کے سربراہ کو دینے کے لئے کراچی سے بے شمار تحائف لیکر آئے تھے۔ جب یہ تحائف تقسیم کئے گئے تو یہ کم پڑ گئے ۔ ’’اُنہوں نے اپنے رشتے کے ایک بھائی کو مزید تحائف خریدنے کے لئے شہرگونڈل بھیجا‘‘(۶۳)۔
      اِس زمانے میں عموماًبینڈ باجے کا رواج نہ تھا۔لہٰذا گونڈل شہر سے نقارچی بلوائے گئے اُنہوں نے پوری قوت کے ساتھ نقارہ بجاناشروع کردیا۔نقارے کی گونج دار آوا ز پورے علاقے میں سُنی گئی۔اِس طرح محمد علی جناح کی شادی کی دُھوم دھام کی خبر کافی دور تک پھیل گئی اور لوگوں کو پتہ ہوگیاکہ کراچی سے بارات پنیلی آئی ہے۔ کئی دنوں سے خواتین کپڑے،تحائف،گہنے اور مٹھائیاںدلہن کے گھر لے جانے میں مصروف تھیں۔جب یہ خواتین دلہن کے گھر جاتیں تو خوب گانے بجانے کا اہتمام کر تیںاور راستے میں رواج کے مطابق چاول بکھیرتی جاتیں۔پنیلی کا ہر فرد ایک ہفتے تک شادی کی دعوتوں میں مصروف رہا۔جناح پونجا کو اخراجات کی کوئی پروہ نہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنیلی میں شاہ خرچیو ں کا مظاہرہ کیا۔اس چہل پہل اور راگ رنگ میں محمدعلی جناح کو رواج کے مطابق بہترین لباس پہنائے گئے۔عطر کی خوشبووں سے دولہا کو معطر کیا گیا ۔محمد علی جناح لباس کے معا ملے میں شروع سے ہی نفاست پسند اور خوش لباس رہے ہیں۔ان کی شخصیت ان کے لباس سے عیاں تھی۔
      شادی کے دن محمد علی جناح کو سر سے پاؤں تلک پھولوں کے لمبے سہرے سے سجایا گیاتھا(۶۴)ان کی پھوپی نے ان کے سر پر سہرا باندھا تھا۔محمدعلی جناھ دولہا بننے کے بعد اپنے دادا کے گھر سے بارات لے کر سسرال روانہ ہوے۔جہا ں پہنچنے کے بعد انہیں ایک اونچے تخت پر بٹھایا گیا۔گاؤں کے قاضی نے نکاح کی رسم ادا کی اور کچھ قرآن پاک کی آیات تلاوت کیں۔اس طرح محمدعلی جناح ایمی بائی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔(۶۵)اور ایمی بائی جناح خاندان کا ایک فرد بن گئیں۔
      محمد علی جناح کی شادی کی تقریبات کی وجہ سے جناح پویجا قریباً چار ہفتے اپنے کارو بار سے الگ رہے۔شادی کی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ کراچی واپس جاناچاہتے تھے۔لیکن دلہن والے اپنی رسوم کی بجا آوری کی وجہ سے فو راًرخصتی سے معذرت کر رہے تھے۔ مگر گاؤںکے بزرگوں کے سمجھانے پر دلہن کے گھر والے اپنی لاڈلی بیٹی کی رخصتی کرنے پر آمادہ ہوگئے۔اس طرح ایمی بائی قیمتی اور خوبصورت لباس اورخوبصورت زیورات پہن کر اپنے سسرال کے لئے پنیلی سے رونہ ہوگئیں۔
      شادی کے بعد محمد علی جناح نے اپنے وقت کو ضائع نہ کیا۔بلکہ و ہ اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے تعلیمی مشاغل میں دوبارہ مصروف ہو گئے۔کراچی واپس آنے کے بعد محمدعلی جناح نے چرچ مشن اسکول میں ۸ مئی ۱۸۹۲کو چھٹی جماعت میں داخلہ لے لیا۔پانچویں جماعت کی کتابیں تو وہ پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔اگر وہ سندھ مدرسہ میں بھی داخلہ لیتے تو وہ چھٹی جماعت میں ہی لئے جاتے(۶۶)چرچ مشن اسکول میں ان کا جنرل رجسٹر نمبر ۴۸۳تھا۔نام میں صرف محمد علی جناح درج ہوا۔تاریخ پیدائش یہاں بھی ۲۰، اکتوبر ۱۸۷۵ء درج کی گئی۔دستخط کے کالم میں محمد علی جناح بھائی درج تھاہے ذات کے کالم میں پہلی مرتبہ محمڈن لکھا گیا۔(۶۷)ان تمام تحریری شہادتوں کے باوجود بہت سے ایسے شواہد جن کا محمد علی جناح کی ذات سے تعلق ہے ملتے ہیں۔ جن میں محمدعلی جناح کی تاریخ پیدائش ۲۰،اکتوبر ۱۸۷۵ء کو رد کیا گیا ہے۔ خود قائد اعظم محمد علی جناح کے پاسپورٹ میں ان کی جائے پیدائش اور تاریخِ پیدائش کے صحیح اندراجات موجود ہیں۔پاسپورٹ نمبر ۴۰۰۸۷۸، مجریہ ۴جولائی ۱۹۳۶ء جس میں سابقہ اندراجات کے برعکس تحریرموجود ہے کہ جائے پیدائش کراچی،تاریخِ پیدائش ۲۵،دسمبر ۱۸۷۶ء،،(۶۸) ۔
      دہلی کے ہفت روزہ اخبار’’انجام‘‘ نے ۲۵،اپریل ۱۹۴۲ء کوقائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا کہ جب سے مسلم لیگ نے فنڈ جمع کرنا شروع کیا ہے اُس وقت سے انجام کے خریدار وں نے بہت زیادہ چندے دیئے ہیں۔ اب خریداروں کا اصرار ہے کہ آپ سے آپ کی پیدائش کا وقت، تاریخ اور مقام معلوم کیا جائے۔تاکہ آپ کے اور مطالبہ پاکستان کے زائچے تیار کر اکے شائع کرائے جائیں۔اس کے جواب میںمورخہ ۳۰،اپریل ۱۹۴۶ کو قائد اعظم نے تحریر کیا کہ
      جاری ہے




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (02-15-2016)

    3. #2
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائزہ۔۲

      ’ آپ کی مطلوبہ معلومات حسبِ ذیل ہیں۔

      وقت : علی الصبح
      تاریخ : ۲۵،دسمبر ۱۸۷۶ء
      مقام : کراچی‘‘ (۶۹)۔
      قائد اعظم محمد علی جناح سے جب کبھی بھی سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنی تاریخ پیدائش ۲۵، دسمبر ۱۸۷۶ء ہی بتائی محمد علی جناح نے اپنی جتنی بھی سال گرہیں منائیں وہ تمام ۲۵ دسمبر کو ہی منائیں۔پہلی مرتبہ ۱۹۳۹ء میں قائد اعظم کی سال گراہ ۲۵ دسمبر منائی گئی تو پیغامِ تہنیت کا جواب دیتے ہوے قائد اعظم نے فرمایا کہ میری سالگراہ کے موقعے پر ہندوستان کے مسلمانوں نے میری ذات کے لئے جن جذبات کا اظہارکیا ہے حقیقتاً میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ’’قائد اعظم کی آخری سالگراہ ۱۹۴۷ء میں منائی گئی‘‘(۷۰) فروری ۱۹۱۸ء میں مسز سروجنی نائڈو نے بھی درج بالا تاریخ کی تصدیق اپنی کتاب محمد علی جناح سفیر اتحاد ۔ (Muhammad Ali Jinnah: an Ambassidor of Unity) کے مقدمہ میں سب سے پہلے کی تھی، مسز نائڈو قائد اعظم کی قریبی دوست اور سیاسی ساتھی تھیں ان کی اطلاع کا ماخذ یقیناً قائد اعظم ہونگے۔ (۷۱)۔
      محمد علی جناح کی انگلستان روانگی
      جناح پونجا اس وقت کراچی کے مشہور تاجروں میں شمار کئے جاتے تھے۔ان کا کاروبار دن رات وسعت پذیر تھا۔وہ مختلف قسم کی تجارتی اشیاکی تجارت میں مشغول تھے۔ دنیا کے کئی ممالک کے تاجر ان کے پاس آتے تھے۔فاطمہ جناح تحریر کرتی ہیں کہ’’ان دنوں کاروبار کے سلسلے میںبہت سے افغان کندھار سے بھی میرے والد کے پاس آتے تھے‘‘ (۷۲)کاروباری مصروفیات کے باوجوجناح پونجا اپنے بیٹے کے مستقبل سے فکر مند تھے۔کیونکہ ان کو اپنے ہونہار بیٹے کا مستقبل بہت عزیزتھا۔جناح پونجا چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی ان کے کاروبا میں ہاتھ بٹائے۔کیونکہ وہ اپنے کاروبارکو بہت وسیع دیکھنا چاہتے تھے۔اس وقت ان کے تعلقات ایک بین الاقومی تجارتی کمپنی ،گراہم شپنگ کمپنی کے ساتھ بہت اچھے تھے۔وہ اس کمپنی سے باقاعدہ تجارتی لین دین رکھتے تھے۔بیٹے کے مسقبل کے ضمن میں جناح پونجا نے ایک روز گراہم شپنگ کمپنی کے جنرل مینیجرسے بیٹے کی تربیت و ترقی کے سلسلے میں بات کی۔فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ گراہم شپنگ کمپنی کا جنرل ’’منیجر ایک انگریز تھاجو میرے والد کا بہت اچھا دوست بن گیا تھا،اُس نے پیشکش کی کہ محمد علی جناح کو ہمار ے لندن آفس میں تین سال کیلئے Business Adminitrator کی تربیت کے لئے لندن بھیج دیں،جہاں پر وہ کاروباری طریقوں سے واقفیت حاصل کر لیں گے‘‘ (۷۳) مطلوبالحسن سید نے اس کے برعکس تحریر کیا ہے کہ’’ان کے والد کے ایک دوست نے تر غیب دی کہ جناح کو بیرسٹری کی تعلیم کے لئے لندن بھیج دیں‘‘(۷۴)مگر اس قول کی تائد میں دلائل نہیںملتے جبکہ فاظمہ جناح ،قائد اعظم کی قریبی ساتھی اور چھوٹی بہن تھیں ان کے قول کی تائد میں شریف المجاہد لکھتے ہیں کہ’’ابھی جناح سولہ سال کے ہی تھے کہ وہ گراہم اینڈ شپنگ کمپنی میں بزنس ایڈ منسٹریشن کی تربیت حاصل کرنے کے لئے لندن روانہ ہو گئے‘‘(۷۵)۔
      محمد علی جناح کی لندن روانگی کی تاریخ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔’’اکثر کتابوں میں جناح کی لندن رونگی کا سال ۱۸۹۲ء درج ہے‘‘(۷۶)سب سے پہلے سروجنی نائڈو کی کتاب (Muhammad Ali Jinnah: an Ambassidor of Unity)محمد علی جناح سفیر اتحاد میں درج ہوا،پھر اس مسئلے کو اے اے رؤف نے اپنی کتا ب (Meet Mr.Jinnah) جناح سے ملیئے میںدرج کیا ہے(۷۷)یہی بات مطلوب الحسن سید نے بھی تحریر کی ہے(۷۸)قیامِ پاکستان کے بعد بھی بہت سے محمد علی جناح کے سوانح نگاراس ڈگر پر ہی چلتے رہے۔ہیکٹر بو لائتھو جس کو قائد اعظم کی سوانح لکھنے کے لئے مغرب سے بلایا گیا تھانے اس بات کو اپنی کتاب جناح معمار پاکستان میں درج کیا ہے ۔اس کے بعد غلام علی الانا نے اپنی کتاب (Quaid-i-Azam jinnah: story of a nation) قاقئد اعظم جناح ایک قوم کی کہانی لکھی تو انہوں نے بھی یہ ہی سن تحریر کیا’’حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناح دسمبر ۱۸۹۲ء تک کراچی میں موجود تھے‘‘(۷۹) لہٰذا یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ محمد علی جناح نے لندن کا سفر جنوری ۱۸۹۳ء میں کیا تھا۔ وہ ’’ ۱۸۹۳ء کا نیال سال شروع ہوتے ہی جنوری کے مہنے میں اپنے والدین کی دعاؤں اور مستقبل کی آرزووں کے ساتھ لندن رو۲انہ ہو گئے‘‘(۸۰)۔
      جب محمد علی جناح لندن پہنچے تو وہاں کا موسم کراچی سے بالکل مختلف تھا۔Hempton (ہیمپٹن) کی بندر گاہ پر اترنے کے بعد محمد علی جناح ’’ریل کے ذریعے لندن پہنچے‘‘ (۸۱)جہاں پر انہوں نے ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیکررہائش اختیار کر لی۔گراہم کی تجارتی جہاز راں کمپنی کا دفتر تیسری نیڈل اسٹریٹ ’’(Third niddle street) کے قر یب تھا ۔ جہاں انہوں نے (Young Apprentice)نوجوان متعلم کی حیثیت سے اپنے اختیارات سنبھال لئے‘(۸۲) لندن کے ہوٹل میں مستقل قیام کرنا نہ تو سستاہی تھا اور نہ ہی آسان تھا۔ لہٰذا محمد علی جناح روزانہ اخبارات میں اشتہارات کا حصہ بڑی توجہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔تاکہ کوئی ایسا خاندان میسرآجائے جسے پیسے دے کر اس کے گھر میں ادائیگی کرنے والے مہمان (Paying guest) کے طور پر رہا جاسکے۔اس سلسلے میں انہوں نے کئی گھروں کا معائنہ بھی کیا،ان کی جستجو اُس وقت ختم ہوئی جب انہوں ایک خاندن کو اس قابل محسوس کیا کہ اُن کے ساتھ ان کا گذر بسر ٹھیک طریقے پر ہو سکتا ہے۔اور وہ خاندان بھی انہیں ادائگی والے مہمان کے طور پر قبول کرنے کو تیار تھا۔یہ گھر مسز ایف ای پیڈر ک کا تھا۔جو35 Rossel road kinsington ،پر واقع تھاجہاں محمد علی جناح نے رہائش اختیار کی(۸۳)’’آج بھی لندن کا علاقہ روسیل روڈ کنسنگٹن معقول رہائشی علاقہ تصورکیا جاتا ہے‘‘(۸۴)’’ محمد علی جناح گراہم شپنگ کمپنی کی تربیت مکمل کر کے کسی درسگاہ میں داخلہ لینے کے خواہشمند تھے۔جناح کی خوش قسمتی تھی کہ اس بار داخلہ ٹیسٹ جوLittle go کہلاتے تھے، آخری بار ہورہے تھے۔آئندہ سال یا پھر یہ ٹیسٹ نہیں ہونے تھے۔یہی وجہ تھی کہ محمد علی جناح نے گراہم کمپنی کی متعلم شپ چھوڑ کر لٹل گو کے لئے سخت محنت کرناشروع کر دی۔اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آئندہ سال نئے قانوں کے مطابق داخلے کے لئے جناح کی عمر کم تھی۔جس کی بنا پر اگر وہ ٹیسٹ میں شریک نہ ہوتے تو انہیں مزید دوسال داخلے کیلئے انتظارکرنا پڑتا(۸۵) جب ان کے والدکو جناح اس کے فیصلے کی اطلاع ملی تو انہوں نے جناح کے فیصلے سے اتفاق نہ کیا(۸۶) ایک روز لنکن اِن کے سامنے سے گذرتے ہو ے محمدعلی جناح کی نظر اس ان ناموں پر پڑی جنہوں دنیا کو بہترین قوانین دیئے تھے۔ان میں سب سے پہلا نام حضرت محمد کا تھا۔Hudson HV لکھتا ہے کہ محمد علی جناح نے اس ادارے میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا کہ جس کے دوازے پر دنیا کے اہم قانون دانوں کے نام کے ساتھ حضرت محمد مصطفٰے کانام بھی شامل تھا۔(۸۷)۔
      امتحان پاس کر لینے کے بعد محمد علی جناح اس قابل ہو گئے کہ وہ انگلستان میں تعلیم حاصل کر سکیں۔محمد علی جناح نے لنکن اِن میں داخلہ لینے کا فیصلہ لندن پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد کاروباری تربیت کو چھوڑ کر اپنی وکیل بننے کی دیرینہ خواہش کی تکمیل کا فیصلہ کر لیااور ’’۵ جون کو لنکن اِن‘ میں داخل ہوگئے۔رجسٹر میں ان کا نام محمد علی جناح بھا ئی لکھا گیاوطنیت کے خانے میںکراچی سندھ ‘ کا اندراج ہوا اور عمر ۱۹ سال لکھی گئی۔اس زمانے میں تاریخ پیدائش لکھنے کا رواج نہ تھا‘‘(۸۸)محمد علی جناح نے لنکن اِن میں داخلہ لینے کے بعد دن رات محنت کرنا شروع کر دی۔لنکن اِن میں داخلے کے تین سال بعد انہوں نے یہاں سے سند حاصل کی اس طرح وہ سب سے کم عمر ہندوستانی بیرسٹر بن گئے(۸۹)۔
      دوران تعلیم محمد علی جناح کو کئی صدمات کا سامنا کرنا پڑا۔محمد علی جناح کے انگلستان پہنچنے کے چند ماہ بعد ہی یہ اطلاع دی گئی کہ ان کی بیوی ایمی بائی کا انتقال ہو گیا ہے۔(۹۰) ’’ایمی بائی محمدعلی جناح کے لندن روانگی کے بعد بمبئی میں ہیضے کی وبا کے دوران ہلاک ہوگئیں تھیں ‘‘(۹۱)جس کے بعد جناح کی والدہ بھی داغ مفارقت دے گئیں۔جناح کی والدہ کا انتقال بچے کی پیدائش کے دوران ہوا۔ جس کے بعد یقینی طور پر جناح کے دل و دماغ پربہت بوجھ پڑا ہوگا۔اس وقت وہ لنکن ان میں زیر تعلم تھے جب انہیں انکی والدہ کے انتقال کی خبر ملی(۹۲) محمد علی جناح اپنی تعلیم سے فراغت کے بعد واپس کراچی تشریف لے آئے۔محمد علی جناح کی لندن سے کراچی واپسی کے سن پر تمام سوانح نگار اور محققین متفق ہیں۔کہ ’’ محمد علی جناح اپنے پیشے کی تکمیل و تربیت کے بعد ۱۸۹۶ء میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے‘‘(۹۳)۔
      محمد علی جناح بحیثیت وکیل
      جس وقت محمد علی جناح اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انگلستان سے کراچی پہنچے تو جناح پونجا کا ’’کاروبا شدید خسارے کا شکار تھا‘‘(۹۴)کراچی آمد کے بعد محمد علی جناح نے خاندان کو سہارا دینے کی غرض سے کراچی کی عدالتوں کا جائزہ لیا۔مئی کے مہینے میں انہوں نے کراچی میں پریکٹس شروع کر دی‘‘(۹۵) جناح پونجا کا خیال تھا کہ بیٹاوکالت کر کے خوب پیسہ کمائے گا اور میرا اقتصادی بوجھ ہلکا کرے گا۔لہٰذا انہوں نے محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ وہ کراچی میں وکالت شروع کر دیںاور اس طرح ایک معقول آمدنی کو یقینی بنانے کے لیئے وکیلوں کی کسی فرم کے ساتھ منسلک ہو جائیں۔انہوں نے وکالت کی دو فرموں ہری چند رائے وشن داس اینڈ کو، اورلال چند اینڈ کمپنی کے سربراہوں سے اس بات کا تذکرہ کیا یہ دونوں کمپنیاں کاروباری سلسلوں میں جناح پونجا کی قانونی مشیر تھیں۔ان کے سربراہوں کے ساتھ جناح پونجا کے اچھے مراسم تھے۔لہٰذا دونوں کمپنیوں نے محمد علی جناح کو اپنے ہاں جگہ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا(۹۶)اس کے علاوہ کراچی کے ایک مشہور وکیل وال چند نے تو ’’ پیشکش کی کہ آپ میرے ساتھ نائب کی حیثیت سے کام شروع کردیں‘‘(۹۷) محمد علی جناح آزادی پسند انسان تھے وہ کسی کی ملازمت میں رہنے کے ہر گز خوہش مند نہ تھے۔بلکہ وہ آزاد ماحول میں آزادی کے ساتھ پریکٹس شروع کرنے کے خواہشمند تھے۔لہٰذا انہوں نے وال چند جیسے معروف وکیل کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔’’اس وقت صوبہ سندھ میں چند ہی مسلمان بیرسٹر تھے۔اور یقیناً مسلمان نوجونوں میں محمد علی ایک سرمایہ تھے‘‘ (۹۹)کراچی کے حالات کودیکھتے ہوے وہ ذہنی طور پر اس بات پر آمادہ تھے کہ کراچی کی بجائے کسی اور جگہ پر پریکٹس کی جائے۔
      اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کراچی میں جناح کو اپنے پیشے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ فاطمہ جناح کا بیان ہے کہ میرے والد کی خوہش تھی کہ ان کا بیٹا کراچی میں ہی پریکٹس کرے جہاں ان کے خاندان کے بہی خواہ اور احباب پہلے ہی بہت بڑی تعداد میں مقیم ہیں‘‘(۱۰۰)کراچی میں پیشہ ورانہ امور میں نا کامی کی وجہ سے محمد علی جناح کو مجبوراً بمبئی کا رخ کرنا پڑا۔ذرائع معاش کی تلاش میں محمد علی جناح نے اپنے والد کے گھر اور کاروبار کو چھوڑ کر ’’۱۸۹۷ء میں بمبئی چلے گئے۔جہاں انہوں نے اپنا نام ایک وکیل کی حیثیت سے درج کرایا‘‘(۱۰۱)بمبئی بار میں اس وقت وہ واحد مسلمان بیرسٹر تھے‘‘(۱۰۲)بمبئی پہنچنے کے بعد محمد علی جناح نے ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لیا۔ا’’پالو ہوٹل‘‘ کے کمرہ نمبر۶ میں ان کا قیام ہوا اور فورٹ ایری میںایک چھوٹے سے کمرے میں ان کا دفتر بنا(۱۰۳)ابتدائی ایامٔمیں محمدعلی جناح کو یہاں پر بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ان نا مساعد حالات کے باوجود محمد علی جناح نے لوگوں سے اپنے تعلقات کا سلسلہ جاری رکھا۔یہ سماجی تعلقات ان کے لئے باعثِ رحمت ثابت ہوے۔جن کی وجہ سے ان کے راستوں کی رکاوٹوں کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ان کے بمبئی کے ایک دوست جو انکی اعلیٰ صلاحیتوں کے بھی شناسا تھے انہوں ان انکا تعارف بمبئی کے ایک نامور وکیل میکفر سن سے کرایا۔جو کہ اس وقت عارضی ایڈوکیٹ جنرل بمبئی کے عہدے پر فائز تھے۔ وہ جوان سال محمد علی جناح کی صلاھیتوں سے بہت متاثر ہوے۔میکفر سن نے جناح کو اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت بھی دی ۔انہوں نے ان کو اپنے چیمبر میں اپنی ذاتی لائبریری استعمال کرنے کی اجازت بھی دیدی تھی۔محمد علی جناح کبھی بھی میکفرسن کی اس اعلیٰ ظرفی کو فراموش نہ کر سکے ۔ اس وقت یہ بھی ایک اہم بات تھی کہ کوئی انگریز کسی ہندوستانی سے اس طرح کا مہر بانی کا سلوک رو رکھے(۱۰۴)۔
      بمبئی میں محمد علی جناح کے ابتدائی تین سال بڑی مشکلات اور پریشانیوں میں گذرے تھے۔مگر ان پریشانیوں کے باوجود وہ پابندی سے روزانہ اپنے دفتر میں جا کر بیٹھتے تھے۔وکالت کے پیشے میں دراصل نام سے کام چلتا ہے۔ جو خاصی مشقت کے بعد حاصل ہوتا ہے اور جس کے لئے برسوں مشقت کرنا پڑتی ہے۔ان نا مشکل حالات میں وہ روز ا نہ عدالت سے پیدل چل کر اپنے کمرے تک آتے اور جاتے تھے۔ جو عدالت سے خاصہ فاصلے پر تھا۔جناح وکالت میں بھر پور کامیابی کے خواہشمند تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان کے صبر و استقلال میں فرق نہ آیا۔رفتہ رفتہ انہیں چھوٹے موٹے مقدمات ملنے لگے۔’’تین برس کے بعدچھٹیوں سے پیدا ہونے والی عارضی آسامی پر اُن کا تقرر عارضی پریزیڈینسی مجسٹر یٹ کی حیثیت سے ہوگیا‘‘(۱۰۵)جب ان کا تقررمجسٹریٹ کی حیثیت سے ہوا تو اس وقت قائد اعظم ۲۴ سال کے ہوچکے تھے(۱۰۶)پریزیڈینسی مجسٹریت کی حیثیت سے ’’ محمد علی جناح کا تقرر ۱۹۰۰میں ہوا ‘‘(۱۰۷)جناح کا تقرر’’مسٹر پی ہوشنگ وستور کی جگہ پرتین ماہ کے لئے ہوا۔‘‘(۱۰۸)تھا۔جس پر مسٹر جناح نے بڑی محنت کے ساتھ کام کیا تھا۔ سراولیونٹ چارلس نے مزید تین ماہ کے لئے ان کا تقرر کر دیا(۱۰۹)۔
      جناح کے تمام جوہر چھ ماہ کی مدت میں کھل کر سامنے آگئے۔اس دوران ان کا معاوضہ ۱۵۰۰ ،روپے ماہانہ تھا۔جب ان کے مزید تین ماہ بھی مکمل ہو گئے تو ملازمت چھوڑتے ہی اسی معاوضے پر محمد علی جناح کو ایک پیشکش کی گئی مگر انہوں یہ بات واضح کردی کہ وہ ایک دن میں ۱۵۰۰ روپے کمانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں جلد ہی اس قابل ہو جاؤں گاکہ ایک دن میں اس زیادہ پیسے کماسکوں۔‘‘(۱۱۰)پھر واقعی ان کی آمدنی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیااور وہ روزانہ ۱۵۰۰ روپے سے زیادہ کمانے لگے۔’’حقیقت یہ کہ و ہ نہایت
      کمزور مقدمات بھی جیت لیتے تھے‘‘(۱۱۱)جب ان کی معقول آمدنی ہو گئی تو اپنے خاندان کو جو کاروباری خسارے کی وجہ سے مفلوک الحال ہوگیا تھا۔کراچی سے بمبئی بلا لیا۔بمبئی میں ان کے’’بہن بھائی خوجہ محلے میں رہنے لگے تھے۔جہاں وہ ہر اتوار کو جایا کرتے تھے‘‘(۱۱۲)۔
      محمد علی جناح کا سیاسی سفر
      ایک اچھے بیرسٹر کی حیثیت سے محمد علی جناح کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ہندوستان کے سیاسی حالات کے پیشِ نظر جناح کو ہندوستان کی سیاست سے بھی بڑا شغف ہوگیا تھا۔اب جناح کسی اہم سیاسی جماعت سے منسلک ہونا چاہتے تھے۔ کانگرس سے جناح کی پہلی رسمی وابستگی ستمبر ۱۹۰۵ء میں ہوئی جب بمبئی پریذیڈینسی ایسو سی ایشن نے انہیں انگلستان جانے والے وفد میں مہتہ کی جگہ کانگریسی وفد کا ایک رکن نامزد کر دیا گیا تھا۔یہ وفد گوکھلے کی سر کردگی میں انگلستان اس لئے بھیجا جا رہا تھا کہ وہاں حکومت خود اختیاری سے متعلق ہندوستا نی عوام کی خوہشات کو نہایت موثر انداز اور معقولیت کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔سیاست میں جناح کا یہ پہلا قدم تھا۔ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں ان کی نامزد گی ایک سیاسی ترجمان کی حیثیت میں کی گئی تھی(۳ ۱۱) ’’کہاجاتا ہے کہ محمد علی جناح گوکھلے کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔کیونکہ گوکھلے میں بے شمار خوبیاں ہندوستانیو کی خدما ت کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہیںجس کی وجہ سے محمد علی جناح ان کی طرف راغب ہوے ’’اُن کی خواہش تھی کہ وہ بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے گوکھلے بن جائیں‘‘(۱۱۴)اس وقت ہندو ستان اپنی تاریخ کے خطر ناک حالات سے دو چار تھا۔انہی حالات نے جناح کو سیاست کی طرف را غب کیا تھا۔جب انہوں نے سیاست میںحصہ لینا شرع کردیا تو وہ دن رات ہندوستان کی آزادی کی جدو جہد میں مصروف ہوگئے۔’’۱۹۰۶ء میں کانگرس کے کلکتہ اجلاس کے دوران محمد علی جناح جودادا بھائی نوروجی کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے‘‘ (۱۱۵) سیاست کے ضمن میں محمد علی جناح کا کہنا ہے کہ میں نے سیاست کا پہلا قدم چلنا سریندر ناتھ بنرجی سے سیکھا تھا۔اس وقت جناح کے سیاسی نظریات کی تشکیل میںگوکھلے، دادا بھائی نوروجی ،سریندر ناتھ بنر جی اور آر سی داس کی شخصیتیں اور ان کے نظریات نے اہم کردار ادا کیاتھا(۱۱۶)۔
      ۱۹۱۰ء سے محمد علی جناح مسلم لیگ کے مختلف اجلاسوں میں مسلسل شریک ہوتے رہے تھے۔سید وزیر حسن اور محمد علی جوہر کی کوششوں کے نتیجے میں’’۱۰، اکتوبر ۱۹۱۳ء کو محمد علی جناح کو مسلم لیگ کے رکن کی حیثیت سے رجسٹرڈ کر لیا گیا‘‘(۱۱۷)اسی دوران وہ وائسرائے کی کونسل کے دوبارہ رکن بنا لئے گئے ان کو’’پہلی مرتبہ ۴ جون ۱۹۱۰ء میں تین سال کے لئے وائسرائے کی کونسل کا رکن چنا گیا‘‘(۱۱۸) تھا۔
      ایک پالیمنٹرین کی حیثیت سے جناح کی اولین کامیابیوں میں سے ایک کامیابی ’’وقف الالاولاد ‘‘سے متعلق ان کا پیش کیا گیا بل پاس کیا جانا اور اس کی منظوری تھی۔جو خود محمدعلی جناح نے مجلس قانون ساز(اسمبلی) میں پیش کیا تھا۔ جو’’۵ مارچ ۱۹۱۳ کو پاس ‘‘کر لیا گیاتھا(۱۱۹)اس وقت تک محمد علی جناح کانگریس میں ایک اہم مقام حاصل کر چکے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ا ب وہ جہاں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان پل تھے وہیں ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کر کے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی پوز یشن میں آگئے تھے۔اس وقت سیاست کی میدان میں جناح کے ہم پلہ چند ایک افراد ہی تھے۔وہ ایک جانب ہندو مسلم اتحاد کے بہت برے علمبرداتھے تو دوسری جانب حکومت کی ہمیشہ تعمیری انداز میں بھر پور مخالفت بھی کرتے رہے۔’’مئی ۱۹۱۴ء میں قائد اعظم(محمد علی جناح) نے ایک وفد کے ساتھ انگلستان کا دورہ کیا‘‘(۱۲۰)محمد علی جناح کانگریس کے وفد کے قائد کی حیثیت سے انگلستان پہنچے ‘‘(۱۲۱)جہاں انہوں نے حکومتِ خود اختیار کے سلسلے میں گفت و شنید کی۔بد قسمتی سے اس وفد کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔لہٰذا وفد ناکام ہندوستان لوٹا۔اسی دوران جنگ عظیم اول کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔
      ۱۲، نومبر ۱۹۱۵ء کو جناح نے ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ آزادی کی جنگ میں ہندووں کے شانہ بشانہ شریک رہیں۔تاکہ ہندوستان کے بننے والے دستور پر صرف اکثریت کا اثر نہ ہو پائے،بلکہ مسلمان بھی اس دستور سازی میں برابر کے شریک رہیں۔محمدعلی جناح کی کوششوں کے نتیجے میں مسلم لیگ اور کانگریس نزدیک تر ہونا شروع ہوگئیں ۔انہوں نے مسلم لیگ کو اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ آئندہ اپنا اجلاس اس مقام پر اور اُس وقت منعقد کرے جب اور جہاں کانگریس کا اجلاس ہو رہا ہو(۱۲۳)جناح کی اس جدوجہد کے نتیجے میں کانگریس اور مسلم لیگ کا اجلاس ’’۱۹۱۵ء میں بمبئی کے مقام پر منعقد ہوا۔اس اجتماع میں انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ کی متفقہ( آئینی) اسکیم تیار کر نے کی تجویز پیش کی۔مجوزہ اسکیم کی تیاری کے لئے جناح نے زبر دست دوڑ دھوپ اور جدوجہد کی۔یہ دوڑ دھوپ اورجدوجہد میثاقِ لکھنؤ پر منتج ہوئی‘‘(۱۲۳)جو لکھنؤ کے مقام پر ’’کانگر یس اور مسلم لیگ کے درمیان ۱۹۱۶ء میں ہوا‘‘(۱۲۴)۔
      ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ میثاق لکھنؤاس معاہدے کے تحت کانگریس نے مسلمانوں کے جداگانہ حقِ انتخابانتخاب کو تسلیم کر لیا جس کے تحت مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آخر کار کانگریس کی تسلیم کرنا ہی پڑا۔اس معاہدے کے کچھ عرصہ بعد ہی ہندو مسلم اختلافات پھر عود کر سامنے آنے لگے۔اسی دوران ہندوستان میں ہوم رول لیگ کی تحریک نے زور پکڑاجس کی بانی اینی بسنت تھیں۔جناح نے ہوم لیگ میں بھی شمولیت اختیار کر لی تھی۔’’ قائد اعظم ہوم رول لیگ بمبئی کے صدر بھی رہے‘‘(۱۲۵) اسی دوران میں محمد علی جناح کو مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑ گئی۔یہ ’’شادی ایک پارسی لڑکی کے ساتھ ۱۹، اپریل ۱۹۱۸ء کو سر ڈنشا پٹیٹ کی بیٹی ‘‘ رتن بائی سے ہوئی (۱۲۶) محمد علی جناح کے سر ڈنشا پٹیٹ سے بہت اچھے تعلقات تھے اور اکثر ان کے گھر پر جناح کا آنا جانا رہتا تھا۔سر ڈنشا پٹیٹ کی صاحب زادی رتن بائی محمد علی جناح کی شخصیت سے بہت متاثر تھیں۔انہوں نے خود ہی جناح سے شادی کی فرمائش کی جناح نے پہلے رتن بائی کو مسلمان کیا اور اٹھارہ سال کی عمر پوری ہونے پر ان سے اسلامی طریقے پر نکاح کرلیا۔جناح اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے گھر پر زیادہ توجہ نہ دے سکے جس کی بناء پر ان کے درمیان جلد علیحدگی ہوگئی۔ رتن بائی سے محمد علی جناح کے ہاں ایک بیٹی ’’دینا‘ ‘پیدا ہوئی ۔جس نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کر لی تھی ۔جس کی وجہ سے اس شادی کے بعدمحمد علی جناح اپنی بیٹی دینا سے زندگی بھر کبھی نہیں ملے۔
      ۱۹۲۰ء میں جب گاندھی نے ہوم رول لیگ کا صدر منتخب ہونے کے بعد ا س کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تو جناح نے ہوم رول لیگ سے یہ کہہ کر استعفےٰ دیدیا کہ ’’ آپ کے انتہا پسندانہ پروگرام نے وقتی طور پر زیادہ تر نہ تجربہ کار نوجوانوں نا سمجھوں اور اَن پڑھ لوگوں کو اپنے زیرِ اثر کر لیا ہے۔ اس کا حاصل صرف بد نظمی اور انتشار ہوگا‘‘(۱۲۷)’’دسمبر ۱۹۲۰ء کے آخری عشرے میں کانگریس اور مسلم لیگ کے بیک وقت اجلاس ہوے ۔جہاں گاندھی نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیاجس کے نتیجے میں محمد علی جناح نے کانگریس سے (بھی) استعفیٰ دیدیا‘‘ (۱۲۸)
      ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۲ء کے دوران چلنے والی تحریکِ خلافت سے محمد علی جناح نے اپنے آپ کو دور رکھاحالانکہ یہ پہلی تحریک تھی جس نے ہندوستان کی سیاست میں ہلچل پیدا کر کے رکھ دی تھی۔گاندھی نے کمال ہوشیاری سے اس کی قیادت اپنے ہاتھ میں لے لی عجیب بات یہ ہے کہ جس وقت یہ تحریک عروج پر تھی تو گاندھی نے ایک واقعے کو بہانہ بنا کر اس تحر یک کے خاتمے کا اعلان کر دیا اور مسلمانوں کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا(۱۲۹) ۔
      اس وقت تک مسلم لیگ ہندوستان میں کوئی واضح طاقت حاصل کرنے میں نا کام رہی تھی۔مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے لئے ۱۹۲۴ء میں لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس بلایا گیاجہاں محمد علی جناح کو ’’تین سال کے لئے مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا‘‘(۱۳۰) اس دوران جناح کوشش کرتے رہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ مل کر بھر پور طریقے پر ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کریںاور آپس کے اتحاد کو بحال کریںایک جانب وہ آئینی اصلاحات کے لئے کوششیں کر رہے تھے تو دوسری جانب ان کی اب بھی کوشش یہ ہی تھی کہ ہندو مسلم اتحاد کے لئے مذاکرات جاری رہیں۔مگر ہندووں کی جانب سے جداگانہ انتخابات کے بجائے مسلسل مخلوط انتخابات کا مطالبہ ہی ہوتا رہا۔جس کے جواب میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس دہلی، دسمبر ۱۹۲۶ء میں واضح کیا کہ ’’صرف مخلوط انتخابات سے قومیت پیدا نہیں ہوسکتی ہے‘‘(۱۳۰)۔
      محمد علی جناح ایک مدبر سیاست دان کی طرح ہندوستان کی آزادی اور ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے رہے۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک غیر رسمی اجلاس طلب کیاجو ان کی صدارت میں دہلی میں ’’۲۰مارچ ۱۹۲۷ء کو ہوا جس میں ہندوستان کے تیس سربر آوردہ اور مختلف الخیال رہنماؤں کو دہلی کے ویسٹرن ہوٹل میں مدعو کیا گیا‘‘(۱۳۱) تھا ۔اسکانفرنس میں تمام مسائل پر غور و فکر ہوا۔اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے نئی تجاویز مرتب گئیں۔دیکھا جائے تو دہلی اجلاس کی تمام تجاویز مسلمانوں کے متفقہ مطالبات کی مظہر اور میثاق لکھنؤ کے متبادل تھیں۔جن میں مرکز ،پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کی متنا سب نمائندگی ،صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات اور سندھ کی بمبئی سے علیحد گی کی سفارش کی گئی تھی۔مسلمانو ں کے کم سے کم مطالبات کومنوانے کے لئے محمد علی جناح نے کلکتہ کے آل پارٹیز کنونشن ۱۹۲۸ء میں بھر پور کوشش کی کہ یہ کنونشن نہرو رپورٹ پر غور کرے۔نہرو رپورٹ مسلمانوں کے حقوق کے خلاف ایک کھلا معاملہ تھا۔مگر ہندووں اور کانگرسی ذہن کے لوگوں نے اس کی تمام تجاویز کو رد کر دیا۔اس طرح یہ کنونشن نا کام ہوگیا۔’’ اس کنونشن میں ۱۲۰۰ مندوبین شر یک ہوے جن کا تعلق ۷۳ مختلف جماعتوں سے تھا‘‘(۱۳۲)مارچ ۱۹۲۹ء میں محمد علی جناح نے اپنے مشہور ۱۴، نکات پیش کر دیئے ۔یہ نکات اس کنونشن میںہندووں کے رویئے کی وجہ سے پیش کئے گئے ۔اس وقت جناح کے یہ چودہ نکات مسلمانوں کی امنگوں اور احساسات کے مظہر تھے۔
      ۳۲۔۱۹۳۰ء کے دوران انگلستان میں گول میزکانفرنسیں منعقد ہوئیںجو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئیںہندووں کی ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کی شکایتوںکی وجہ سے ’’۱۹۳۲ء میں محمد علی جناح نے ہندوستان کی سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا‘‘(۱۳۴)۳۴۔۱۹۳۳ء میں کئی سرکردہ مسلمان رہنماؤں نے محمد علی جناح سے درخوست کی کہ وہ انگلینڈ سے واپس ہندوستان آکر مسلمانوں کے لئے کام کریں۔ ۱۹۳۴ء میں جناح کی غیر موجودگی میں بمبئی کی مسلم نشست پر ان کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کر دیئے گئے۔ ’’ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں ، اس وقت جبکہ جناح ابھی انگلستان میں ہی تھے بمبئی کے مسلمانوں نے مرکزی اسمبلی کے لئے انہیں بلا مقابلہ منتخب کر لیا‘‘(۱۳۶)اس دوران لیاقت علی خان اور اور دیگر مسلمان رہنماؤ ں کے زور دینے پر محمد علی جناح انگلستان سے واپس ہندوستان آگئے۔ ہندوستان واپسی پر انہوں نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھا لی۔تو ہندوستان کے مسلمانوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔جنوری ۱۹۳۵ء میں جب نئی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو انہیں انڈپینڈینٹ پارٹی کا قائد منتخب کرلیا گیا۔(۱۳۷)مسلم لیگ کی تنظیم نو کے دوران بھی جناح ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کرنا چاہتے تھے۔دوسری جانب وہ مسلم لیگ کے بے جان جسم میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔لیگ کے احیا کے لئے انہو ں نے دن رات محنت و جدوجہد کی۔ ۱۹۳۷ ء میں ہندوستان میں انتخابات ہونے والے تھے۔یہ ہندوستان میں’’پہلے عام انتخابات گورنمنٹ ایکٹ۱۹۳۵ء کے تحت فروری ۱۹۳۷ء میں لڑے گئے‘‘(۱۳۸) ان انتخابا ت میں مسلم لیگ کو خاطر خواہ کامیاب نہ ہوئی۔ جس کی بناء پر ہندوستان کے اکثر صو بوں میں کانگریسی حکومتوں کی تشکیل عمل میں آئی کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ نہایت ہی ظالمانہ رویہ روا رکھا۔
      کانگریس نے اپنی حکومتی طاقت مسلمانوں کے خلاف اور انہیں ذلیل کرنے کے لئے استعمال کی (۱۳۹)دوسری جانب عام ہندووں کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیزی ہوتی رہی جس کے نتیجے میں’’صرف ایک برس میں ۵۷ سنگین فسادات ہوے ‘‘(۱۴۰)۳۰ ستمبر ۱۹۳۹ء کو حکومت بر طانیہ نے جنگ عظیم دوم کا اعلان کیا ‘‘(۱۴۱)توکانگریس کی صوبا ئی وزارتوں نے اس اعلان کے بعد احتجاج کرتے ہوے اپنے استعفے پش کر دیئے‘‘(۱۴۲)کانگریسی حکومتوں کے خاتمے کے پر مسلمانوں نے نے خوشی اور اطمنان کا اظہار کیا۔ ’’۲،دسمبر ۱۹۳۹ء کو محمد علی جناح نے بر صغیر کے مسلمانوں سے ایک عام اپیل کی جس میں کہا گیا تھا کہ ۲۲ دسمبر ۱۹۳۹ء کو کانگریسی حکومتوں کے خاتمے کی خوشی میں یومِ نجات منائیں‘‘ (۱۴۳)۱۹۴۰ کا سال مسلم لیگ اور بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے بہت ہی اہم ثابت ہوا۔اب ہندوستان کے مسلمانوں کی جدوجہد کی سمت واضح ہو چکی تھی۔۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں مسلم لی کا ستائیسواں سالانہ تا ریخی اجلاس قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ہوا۔جس میںتقسیم ہندوستان کے سلسلے میں ایک قرار داد ، جس کو قرار داد پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے پیش کی گئی۔جس کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔قرار داد لاہور کی منظوری کے ۲۰، ماہ بعد ہندوستان میں حکومت بر طانیہ کی طرف سے کرپس مشن ہندوستان آیا۔ تاکہ ہندوستانیوں سے ہندوستان کی آزادی کے ضمن میں بات چیت کی جائے۔مگر یہ مشن ناکام واپس انگلستان لوٹا۔۱۹۴۲ء میں کانگریس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک چلائی جس کے تحت کانگریس نے سول نافرمانی کا بھی آغاز کر دیا۔محمد علی جناح نے کانگریس کے نعرے ہندوستان چھوڑ دو کے جواب میں نعرہ لگایا کہ ’’تقسیم کر اور جاؤ‘‘
      اگست ۱۹۴۵ء میں انگلستان میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے بعد حکومت نے سال کے آخر میں ہندوستان میں عام انتخابات کرانے کااعلان کر دیا۔ان انتخابات نے دو قومی نظریہ کو ثابت کر دیا۔جس کی کانگریس ہمیشہ نفی کرتی رہی تھی۔انتخابات میں کامیابی کے بعد ۳۰،دسمبر ۱۹۴۵ء کو قائد اعظم نے ایک بیان میں مسلمانان بر صغیر سے اپیل کی کہ وہ انتخابا ت کی کامیابی پر گیارہ جنوری ۱۲۹۴۶ کو یومِ فتح منائیں(۱۴۴)حقیقتاً انگریز اور کانگریس دونوں ہندوستان کو متحد رکھنا چاہتے تھے۔’’بر طانہ کے وزیر اعظم اٹیلی نے وائسرائے کو لکھا کہ ہماری حکومت کا خاص مقصد یہ ہے کہ بر طانوی ہند اور ریاستوں کے درمیان متحدہ حکومت قائم کریں(۱۴۵)ان حالات کو سامنے رکھتے ہوے حکومت برطانیہ نے کابینہ مشن ہندوستان کے سیاسی مسئلے کو حل کرنے کی غر سے بھیجا۔ ’’۱۶،مئی ۱۹۴۶ء کو اس نے اپنا منصوبہ پیش کر دیا‘‘(۱۴۶)دونوں جماعتوں میں سے کسی پر یہ دباؤ نہ تھا کہ وہ اس منصوبے کو تسلیم کریں یا رد کردیں۔
      محمد علی جناح ایک مدبر سیاست دان تھے۔وہ یہ موقع ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے تھے۔اس لئے انہوں نے اس سے پورا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔کانگریس نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا جب کانگریس نے اس منصوبے سے بچنا چاہا تو مسلم لیگ نے بھی اس منصوبے سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔محمد علی ’’جناح جیسے آئین پسند شخص نے ۱۹۴۶ء کے اس زبردست سنگین بحرانی دور میں راست اقدام جیسی کاروائی کی دھمکی دیدی‘‘(۱۴۷)اس دوران کانگریس اور وائسرائے ہندکے درمیان مذاکرات ہوتے۔’’ہی مسلم لیگ کابینہ منصوبے سے دستبردار ہوئی کانگریس نے ۲۴، اگست ۱۹۴۶ء کو اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ عبوری حکومت میں حصہ لے گی‘‘(۱۴۸)۲، ستمبر کو پنڈت نہرو کی زیر قیادت ایک عبوری حکومت قائم ہوگئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس گٹھ جوڑ کے خلاف ملک میں سیاہ پرچم لہرائے۔جس کے بعد پورا ہندوستان فرقہ واریت کی لپیٹ میں آگیا۔قائد اعظم اس صورتِ حال کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔اس ضمن میں محمد علی جناح نے وائسرائے سے گفت و شنید کی جس کے بعد مسلم لیگ بھی۲۵، دسمبر ۱۹۴۶ء کو عبوری حکومت میں شامل ہو گئی مسلم لیگ کی طرف سے شامل ہونے والے وزرا کی فہرست کچھ اس طرح تھی۔’’لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر،عبدالرب نشتر،غضنفر علی خان اور جوگیندر ناتھ منڈل‘‘(۱۴۹)
      ۲۴،مارچ ۱۹۴۷ء کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے بن کر ہندوستان آئے۔انہوں نے یہا آنے کے بعد’’۳،جون ۱۹۴۷ء کو ایک منصوبہ پیش کیایہ قائد اعظم کی مہارت تھی کہ انہوں نے وئسرائے اور کانگریس کے لیڈروں کو ۳،جون پلان میں قیام پاکستان کا مطالبہ ماننے کے لئے مجبور کر دیا‘‘(۱۵۰)اس منصوبے کے تحت ۱۴، اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم بنایا گیا۔
      ۳،جون کے اعلان آزادی کے بعد ۱۱، اگست ۱۹۴۷ء کو قائد اعظم کوپاکستان کی پہلی اسمبلی کا صدر چنا گیا۔ اس وقت قائد اعظم کی صحت کچھ قابلِ رشک نہ تھی۔مگر اس کے با و جو وقومی امور اورقومی خدمات سے غافل نہ تھے۔وہ دن رات مسلسل قومی خدمات اپنی بگڑتی ہوئی صحت کے باوجود انجام دیتے رہے۔اس وقت پاکستان کو بہت ہی خطر ناک مسائل کا سامنا تھا۔
      ۱۵،اگست ۱۹۴۷ء کو کراچی میں قائد اعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا۔حلف برداری کے بعد بانیِ پاکستان کو پاک بحریہ اور بلوچ رجمنٹ نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔اسی روز قائد اعظم محمد علی جناح نے ریڈیو پاکستان پر قوم سے اپنا پہلا خطاب کیا۔۱۵،اگست کو ریڈیو پاکستان کا افتتاح کرتے ہوے قائد نے اپنی قوم کو تلقین کرتے ہوے فرمایا کہ ’’متحد رہو اور پاکستان کو مضبوط بناؤ‘‘(۱۵۱)پھر ۱۹، مارچ ۱۹۴۸ کو قائد اعظم محمد علی جناح نے مشرقی پاکستان کا دورہ کیا۔۲۴،مارچ کو ڈھاکہ یونیور سٹی میں خطاب کرتے ہوے واضح کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اردو ہوگی۔اپریل کے مہینے میں انہوں نے صوبہ سرحد کا دورہ کیا۔جہاں انہوں نے کئی جرگوں اور عوامی جلسوں سے بھی خطاب کیا۔کراچی واپسی پر قائد اعظم کو بہت زیاد تھکن کی وجہ سے ان کی صحت نہایت خراب ہو چکی تھی۔کچھ دن کراچی میں قیام کے بعد قائد کوئٹہ چلے گئے۔مگر یہاں بھی ان کی سرکاری مصروفیات میں کمی نہ آئی۔کوئٹہ اور زیارت میں قیام کے دوران انکی صحت ذرا سنبھل گئی تھی۔جس کے بعد اسٹیٹ بینک کی رسم افتتاح ادا کرنے کے لئے یکم جولائی ۱۹۴۸ء کراچی آنا پڑا۔(۱۵۲)اسی روز انہوں نے اپنے مشرقی پاکستان کے دورے کی فلم بھی دیکھی۔اس کے بعد ۷،جولائی کو قائد اعظم واپس کوئٹہ چلے گئے۔’’آتے ہی کھانسی اور بخار کی وجہ سے صاحبِ فراش ہوگئے‘‘(۱۵۳)بانیِ پاکستان کی صحت اب دن بدن خراب تر ہوتی جا رہی تھی۔چند ہی دنوں میں جناح کی صحت اور بھی سنگین ہوگئی جس کی وجہ سے انکو ان کے معالج کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر فوری طور پر زیارت منتقل کر دیا گیا۔قائد اعظم کی تیماری داری میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے دن رات ایک کر دیاتھا۔قیام پاکستان کی پہلی سالگرہ ہندوستان کے مسلمانوں کے رہنما اور ’’بانیِ پاکستان نے بسترِ علالت پر منائی۔ہر آنے والا لمحہ قائد اعظم کی مزید صحت کی خرابی کا اعلان کر رہا تھا۔جناح کی حالت سنبھلنے کے کوئی آثار نہ تھے۔۵،ستمبر کی رات کو قائد اعظم پر شدید نمونیہ کا حملہ ہوا۔تین دن تک ان کو شدید بخار رہا۔تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ان کو بے چینی کے دورے پڑنے لگے۔ کرنل الٰہی بخش نے قائد اعظم کا معائنہ کیااور محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ قائد اعظم کے چند دن سے زیادہ زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘(۱۵۴)۔
      لہٰذا اگلے دن قائد اعظم محمد علی جناح کو دوپہر دو بجے کوئٹہ ائر پورٹ سے ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی بھیج دیا گیا۔قریباً ساڑھے چار بجے قائد اعظم محمد علی جناح کا طیارہ مار
      یپو ر کے فوجی ہوائی اڈے پر اتر گیا۔یہاں سے انہیں اسٹریچر پر ڈال کر ایک ایمبولنس کے ذریعے کراچی کے گورنر ہاؤس لایا جا رہا تھا کہ راستے میں ان کی ایمبولنس خراب ہوگئی اور کسی پاکستانی کو یہ خبر ہی نہ ہوئی کہ ان کا عظیم قائداور ہر دل عزیز رہنما کس کسم و پرسی کی کیفیت سے دوچار ہے!! ائر پورٹ سے گورنر ہاؤس کا فاصلہ تقریباً۱۵، کلو میٹر تھا۔دوسری ایمبولینس کے تاخیر سے پہنچنے میں ائر پورٹ سے گونر ہاؤس تک کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔(۱۵۵)اس دوران محمد علی جناح پر مسلسل بے ہوشی طاری تھی۔جب ان کا معائنہ گورنر ہاؤس میں کیا گیا تو ان کی سانس رُک رُک کر چل رہی تھی۔اس طرح رات ۱۰۔بجکر بیس منٹ پر جب کرنل الٰہی بخش نے ان کی ’’نبض پر ہاتھ رکھاتووہ نہ ملی‘‘(۱۵۶)یوں مسلمانان ہند کا محسن ہندوستان کی آزادی اور تقسیمِ ہند کا نہ بکنے والا علمبردار اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر اپنے معبودِ حقیقی سے جا ملا ۔ان للہ وانا الیہ راجعون!برصغیر کی ملت اسلامیہ کا نجات دہندہ خود اس دنیائے فانی سے نجات حاصل کر کے ہمیشہ کے لئے ابدی نیند سوگیا۔اور تاقیامت کراچی کے قائد آباد میں مقیم ہوا۔اللہ مغفرت فرمائے اس عظمت کے مینارکی

      @Nimra Rashid



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    4. The Following 3 Users Say Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Dr Danish (10-03-2017),KhUsHi (07-11-2016),Moona (02-15-2016)

    5. #3
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      158

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      Nice Sharing


    6. The Following User Says Thank You to UmerAmer For This Useful Post:

      Moona (02-15-2016)

    7. #4
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      @intelligent086 Thanks for Informative Sharing


    8. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      intelligent086 (02-16-2016)

    9. #5
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      Quote Originally Posted by Moona View Post
      @intelligent086 Thanks for Informative Sharing




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    10. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (02-16-2016)

    11. #6
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      ...


    12. The Following User Says Thank You to Moona For This Useful Post:

      intelligent086 (02-17-2016)

    13. #7
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز





      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    14. #8
      Respectable www.urdutehzeb.com/public_html KhUsHi's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Posts
      6,467
      Threads
      1838
      Thanks
      273
      Thanked 587 Times in 428 Posts
      Mentioned
      233 Post(s)
      Tagged
      4861 Thread(s)
      Rep Power
      198

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      Buhat he zabardast






      اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
      پڑھنے میں سیکنڈ
      سوچنے میں منٹ
      سمجھنے میں دِن
      مگر

      ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے





    15. #9
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      پسند اور رائے کا بہت بہت شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    16. #10
      Star Member www.urdutehzeb.com/public_html Dr Danish's Avatar
      Join Date
      Aug 2015
      Posts
      3,237
      Threads
      0
      Thanks
      211
      Thanked 657 Times in 407 Posts
      Mentioned
      28 Post(s)
      Tagged
      1020 Thread(s)
      Rep Power
      510

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      Thanks for informative and useful sharing



    17. The Following User Says Thank You to Dr Danish For This Useful Post:

      intelligent086 (10-04-2017)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 1 of 2 12 LastLast

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •