SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 2 of 2 FirstFirst 12
    Results 11 to 11 of 11

    Thread: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائزہ


      پاکستان کے جنوب مشرق میں جونا گڑھ و کاٹھیاواڑ کا مشہور علاقہ ہے جو برصغیر کے مغربی ساحل پر واقع ہے ۔یہ ایک جزیرہ نماں ہے جس کو تاریخِ اسلام میں بھی اہمیت حاصل رہی ہے۔’’پرانی تاریخوں میں اس علاقے کو آنرت لکھاگیاہے‘‘ (۱)اس جزیرہ نماں کو سورٹھ، سور ا شٹر، اور کاٹھی واڑ بھی کہا جاتا رہا ہے۔یہاں پر کاشت کاری بڑے پیمانے پر کی جاتی تھی ۔ اس علا قے کی زبان میں کاشتکار کو کاٹھی اور واڑ علاقے کوکہا جاتاہے ۔جس کی وجہ سے اس علاقے کانام ٹھیاواڑ پڑ گیا۔’’یہ کراچی سے۳۰۰ میل (۵۰۰کلو میٹر)کے فاصلے پر ساحلِ سمندر پر واقع ہے۔ جس کا رقبہ ۳۳۳۷مربع میل(قریباً۵۵۶۲کلو میٹر )ہے‘‘(۲)قائد اعظم محمد علی جناح کے دادا کاٹھیاواڑ کے ’’گونڈل ‘‘شہرکے ایک گاؤں ’’پنیلی ‘‘میں رہائش پذیر تھے۔’’قائد اعظم کے دادا پونجا بھائی کی چار اولادیں تھیں:سب سے بڑی اور اکلوتی بیٹی مان بی ،بڑے بیٹے والجی،منجھلے بیٹے ناتھو بھائی اور چھوٹے بیٹے قائد اعظم کے والد بزرگوار جن کا نام جناح پونجا ‘‘(۳)تھا۔اس وقت’’پنیلی کی آبادی ایک ہزار سے کم تھی‘‘ (۴)پونجا بھائی کے سب سے چھوٹے بیٹے ’’جن کی پیدائش ۱۸۵۷ کے ہنگامی دور میں ہوئی ‘‘(۵) جوصحت کے نکتہ نظر سے بہت ہی کمزور تھے۔’’جناح (بھائی) پیدائش کے وقت بہت دبلے اور کمزور تھے اسلئے دیکھنے والوں نے انہیں جھینا کہنا شروع کر دیا ۔جھینا کے معنی کمزور کے ہیں اردو زبان میں جھینا تقریباً انہی معنوں میں بولا جاتا ہے ‘‘(۶)جناح بھائی نے گھر پر ہی معمولی تعلیم حاصل کی تھی (۸) ۔
      پنیلی کے چھوٹا گاؤں ہونے کی وجہ سے وہاں پر کاروباری مواقع زیادہ نہ تھے۔جبکہ جناح بھائی کا کاروبار بڑی تیزی کے ساتھ پھیلتا جا رہا تھا۔کاروبار کی وسعت کی وجہ سے جناح بھائی آبائی گاؤں سے نکل کر گونڈل شہر میں آگئے۔جہاں انہوں نے اپنے کاروبار پر بھر پور توجہ دی جس کے نتیجے میںجناح بھائی کو کافی منافع ہونے لگا۔اس کامیابی پر ان کے والد بے حد خوش تھے۔مگر پونجا بھائی ان کی کمزور صحت کی وجہ سے خاصے پریشان تھے۔بیٹی اور دونوں بڑے بیٹوں کی شادیاں وہ پہلے ہی کر چکے تھے۔اب انہیں اپنے چھو ٹے اور ہونہار بیٹے کی شادی کے لئے اچھے رشتے کی تلاش تھی۔انہیں ایک پتلی دبلی اور خوش مزاج لڑکی گونڈل شہر سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک گاؤ ں ’’ڈھرفامیں ایک با عز ت خاندان کی اسمٰعیلی خوجہ لڑکی مل گئی‘‘(۸)یہ خوبصورت لڑکی ہنس مکھ اور خوش مزاج ہونے کی وجہ سے میٹھی بائی کے نام سے پکاری جاتی تھی۔ان کے والدکانام موسیٰ جمعہ تھا۔(۹) جبکہ میٹھی بائی کا نام’’شیریںبی بی ‘‘(۱۰)تھا۔فاطمہ جناح فرماتی ہیں کہ’’ میر ے والد جناح پونجا اور میری والدہ میٹھی بائی کی شادی ڈھرفا میں ۱۸۷۴، میں ہوئی تھی‘‘ (۱۱)۔
      کاروبار میں مزید جیسے جیسے وسعت ہونے لگی جناح بھائی کو گونڈل شہر بھی چھوٹا محسوس ہونے لگالہٰذا ’’جناح بھائی نے اپنے والد کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ کراچی میں بھی کاروبار کریں ‘‘(۱۲)آخر کار انہوں نے گونڈل سے کراچی جاکر کاروبار کرنے کا ارادہ کر لیا۔ ’’اس وقت کراچی ایک چھوٹا ساقصبہ تھاجس کی آبادی پچاس ہزار (۵۰۰۰۰۰)نفوس پر مشتمل تھی‘‘(۱۳)جہاں پہنچ کر ’’کھارادر کے مقام پر نیونہم روڈپر دو کمروں کا ایک فلیٹ کرائے پر حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے‘‘(۱۴)جہاں وہ اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہوگئے ۔ کچھ عرصہ کراچی کے کاروباری ماحول کو سمجھنے کے بعد بولٹن مارکیٹ کے قریب ’’والجی انڈ کمپنی ‘‘(۱۵)کے نام سے جناح بھائی نے اپنے کاروبار کی شروعات کر دی۔’’ان کا کاروبار چمڑے،گوند اور (خشک) مچھلیوںکا تھا۔مگر ان کی توجہ زیادہ تر بیرونی تجارت پر مرکوز ہوگئی اور وہ بہت جلد بڑ ے برآمدی تاجر بن گئے۔انہوں نے برطانوی تجارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار شروع کیا۔وہ ان کو فش ماؤز(مچھلی کی آنت)فراہم کرتے تھے۔جس کی برطانیہ اور چین میں طلب بہت زیادہ تھی۔انکا یہ لاکھوں روپے کا کاروبار تھا‘‘(۱۶) اس زمانے میں کچھ انگریزی فرمیں بھی کرا چی میں کاروبار کر رہی تھیں۔جو کراچی کی بندر گاہ کے ذریعے بر صغیر کی اشیاء یورپ کے دور دراز علاقوں میں لیجا کر فروخت کرتی تھیں اور بھاری سرمایہ کماتی تھیں۔
      محمد علی جناح کے اجداد اور ان کی پیدائش:-
      اسمٰعیلی خیالات کی سب سے پہلی جماعت جس کا پاک و ہند کی تاریخ میں ذکر ملتا ہے قرامطہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔جس کے داعی نویں صدی عیسوی میں قاہر، عراق، حضرِ موت اور یمن سے بر صغیرہند وپاکستان کے خطے میں آکر آبا ہونا شروع ہوے۔آہستہ آہستہ انہوں نے سندھ اور پنجاب کے مغرب میں اقتدار حاصل کر لیا۔مذہب کے حوالے سے ان میں بڑا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ملتان پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے شہر کمے قدیمی مندر کو جسے محمد بن قاسم نے برقرار رہنے دیا تھا کو گراکر مسجد میں تبدیل کر دیا (۱۷)۔

      ن لوگوں کی تبلیغی کوششو ں میں بڑا جوش پایا جاتا تھا جو نہایت منظم ہوا کرتی تھیں۔لیکن اہلِ سنت سے ان کے شدید اختلافات تھے۔در اصل ہندوستان پر محمود غزنوی کے حملوں کا
      مقصد سندھ سے قرامطہ فرقے کا خاتمہ کرنا بھی تھا۔غزنوی کے حملوں کے وقت سندھ دو خود مختار ریاستوں منصورہ اور ملتان میں بٹ چکا تھا۔ ریاست ملتان پراسمٰعیلی یا قرامطہ فر قے کے لوگ قابض تھے۔ جو مصر کی فاطمی خلافت کو تسلیم کرتے تھے۔جبکہ محمود خلافتِ بغداد کا وفادار تھا۔اور اسمٰعیلیوں کو مرتد سمجھتا تھا۔یوں ملک گیری اور مذہب کے مخلوط جذبات کے ساتھ غزنوی نے ۶۔۱۰۰۵ء میں ملتان کی طرف پیشقدمی کی۔ راستے میں انندپال کو شکست دیتا ہوا ملتان پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا۔ملتان کے حاکم ابوالفتح داؤد نے محمود سے صلح کی در خواست کی اور اپنے عقائد سے تائب ہونے کا وعدہ کیا(۱۸)منصور میں محمود نے یہاں کے اسمٰعیلی گورنر کو شکست دے کر ایک سنی مسلمان کو حکومت دیدی محمود غزنوی کے چلے جانے کے بعد علاقے پر اسمٰعیلیوں نے پھر غلبہ پالیا۔۱۱۷۵ء میں شہاب الدین محمد غوری نے دوسری مر تبہ ملتان کو ان کے قبضے سے چھڑایا۔’’سندھ اور ملتان میں اسلامی حکومت کے استحکام اور سنی خیالات کی اشاعت کے بعد قرامطہ کا زور( ان علاقوں سے) ختم ہوتا چلا گیا‘‘ (۱۹) اب جو لوگ اسمٰعیلی خیالات کے تھے انہوں نے یا تو اپنے خیالات کے اظہار میں اخفاسے کام لیا یا حکو مت کے مرکز سے دور گجرات ،کاٹھیا واڑ اور کچھ کے طرف چلے گئے۔اس وقت ان کے مذہبی عقائد اور سیاسی عزائم میں کچھ تبدیلی پیدا ہوگئی تھی۔ ’’تیر ہویں صدی کے وسط کے بعد قرامطہ کا ذکر ہندوستانی تواریخ میں نہیں ملتالیکن ان کے جانشین خوجے اور بوہرے کی شکل میں موجود ہیں‘‘ (۲۰ ) جن خوجوں نے اپنے خیالات و تصورات جن میں ان کے عقائد بھی شامل ہیں کو مخفی رکھا تھا وہ سندھ اور پنجاب بعض علاقوں میں خاموشی کی زندگی بسر کرنے لگے تھے۔’’سولہویں صدی کے وسط میں پنجاب کے خوجوں کا سنیت کی طرف میلان پیدا ہوگیا تھا یہی وجہ تھی کہ ہندوستان میں انہیں ایک نائب امام کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس طرح سندھ کے ایک طاقتور خوجہ خاندان کے چشم و چراغ داؤد یا دادوکو پیر بنا دیا گیا ۔جو کہ خوجہ تھا۔سومروں کی مخالفت نے دادو کو جام نگر کی طرف دھکیل دیا۔جہاں ان کا عزت و وقار کے ساتھ استقبال ہوا۔ اس کے اثرات کی وجہ سے کاٹھیاواڑ کے بہت سے لوگ اسمٰعیلی فرقے میں داخل ہو گئے‘‘(۲۱)۔
      جناح پونجااور ان کے خاندان کے افراد کا تعلق بھی خوجہ نسل کے آغا خانی خاندان سے تھا۔کہا جاتا ہے کہ ان ’’خوجوں کا سلسلہ مشہور اسمٰعیلی داعی حسن بن صبا سے ملتا ہے‘‘ (۲۲)جب محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین محمد غوری کے ادورا میں ملتان سے بڑے پیمانے پر ہجرت کی توسندھ اور پنجاب کے زیریں علاقوں میں خوجوں کی تعداد بہت ہی کم ہوگئی تھی۔سومروں کے دور میں جن خوجوں نے یہاں سے ہجرت کی تھی ان میں جناح پونجا کے اجداد بھی شامل تھے جنہوں نے ملتان سے کاٹھیاواڑہجرت کرنے کے بعد اسی کو اپنا مستقل مسکن بنالیا تھا۔ اسطرح کاٹھیاواڑ میں خوجے بتدریج آباد ہوگئے۔
      قائد اعظم کے شجرہ نسب پر جب نظر جاتی ہے تو ان کے پردادا کا نام ہیر جی بتایا جاتا ہے (۲۳)’’ان کے بیٹے میگھ جی اور میگھ جی کے بیٹے کانام پونجا بھائی تھا‘‘(۲۴)پونجا بھائی یا جناح پونجا میگھ جی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔پونجا بھائی (قائد اعظم) محمد علی جناح کے والد تھے۔جناح پونجا کے ہاں سات بچوں کی ولادت ہوئی جن کے ’’نام محمد علی، رحمت علی،مریم، احمد علی،شیریں،فاطمہ اور بندے علی ‘‘تھے( ۲۵) اس بات کی تصدیق جی الانا نے بھی کی ہے(۲۶)اس کے برعکس رضوان احمد نے جناح پونجا کے بچوں کی تعداد آٹھ بتائی ہے ۔(۲۷)یہ بات محترمہ فاطمہ جناح کے قول کے سامنے درست تسلیم نہیں کیجا سکتی ہے۔ جنہوں نے اپنے بہن بھائیوںکی تعداد سات ہی بتائی ہے۔
      جناح پونجا جس وقت کراچی آئے تو اُس وقت کراچی آج جیسا بڑا شہر نہ تھا۔بلکہ یہ مختصر آبادی کا ایک قصبہ تھا۔جس میں دور دور فاصلوں پر کچے پکے مکانات تھے۔اس وقت کراچی شہر کے کچھ مخصوص اور مشہور محلے تھے۔کھڈہ کا علاقہ جو آج بھی اسی نام سے موجود ہے۔ جو کشتی رانی اور مچھلی کے کاروبار کے لئے مشہور تھا۔جہاں روزانہ بڑی مقدار میں مچھلی پکڑ کر لائی جاتی تھی۔اور کھلے میدانوں میں خشک کر کے گوداموں میں اکٹھی کر لی جاتی تھی(۲۸)اس کے ساتھ ہی کھارا در کا علاقہ (جو آج بھی اسی نام سے مشہور ہے) تھا جہا ں لکڑی کے مکانا ت بنے ہوے تھے۔یہ جگہ کھارا در اس وجہ سے کہلاتی تھی کہ یہاں پر کبھی کبھی سمندر کا پانی آجاتا تھا۔اس کے ذرا آگے میٹھا در کا مقام ہے ۔اس جگہ کا نام میٹھا در اس وجہ سے پڑا کہ ملیر ندی اس علاقے کے ساتھ ہی بہتی تھی۔جہاں دو تین فٹ زمین کھودنے پر میٹھا پانی نکل آتا تھا۔ان کے علاوہ اُس زمانے کی اور بہت سی مشہور جگہیں ہیں۔ جن میں ’’صدر‘‘کی اہمیت آج بھی وہ ہی ہے جو اُس زمانے میں ہوا کرتی تھی۔کراچی میںانگریز کی آمد سے پہلے اس قصبے کے چاروں طرف مٹی کی اونچی فصیلیں تھیں اور قدیم دستو ر کے مطابق پوری آبادی فصیل کے اندر تھی‘‘(۲۹)مگر اب کراچی کے گرد کہیں بھی فصیل کے نشانات نہیں ملتے ہیںجس سے درج بالا بیان کی تصدیق ہوتی ہو۔
      محترمہ فاطمہ جناح جو قائد اعظم کی چھوٹی بہن اور ان کی قریبی ساتھی تھیں لکھتی ہیں کہ ’’میرے والدین نے دو کمروں کا ایک پر وقار گھر نیو نہم روڈ پر کرائے پر لیاتھا‘‘(۳۰) نیو نہم روڈ کی پتلی گلیوں میں آج بھی وہ گھر موجود ہے۔جسمیں بالکونیاں بنی ہوئی ہیں جہاں محمد علی جناح پیدا ہوے(۳۱)انکی پیدائش نیو نہم روڈ کھارا در کے مکان کی بالائی منزل پر ہوئی تھی۔جو وزیر میشن کے نام سے موسوم ہے(۳۲)یہ دو کمروں پر مشتمل ایک مختصر سا فلیٹ تھا۔ جس کو جناح پونجا نے کرائے پر حاصل کیا تھا(۳۳)اس مکان میں محمد علی جناح سے متعلق بہت ساری چیزیں آج بھی محفوظ ہیں۔جہاں حکومت پاکستان نے ایک لائبریری بھی قائم کر دی ہے۔اس مکان کی نگرانی اور حفاظت کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے۔
      اس کے بر عکس مکان کے حوالے سے رضوان احمد لکھتے ہیں کہ ’’جناح پونجا نے جو مکان کرائے پر لیا تھا وہ چھاگلہ اسٹریٹ کے کنارے واقع تھا‘‘( ۳۴) فاطمہ جناح نے جو بات مکان کے وقوعہ سے متعلق کی ہے وہ ہی بات خواجہ رضی حیدرنے بھی اپنی تحریر قائد اعظم کے ۷۲ سال میں لکھی ہے۔اس کے علاوہ بعض کتابوں میں خاص طور پر نصابی کتب میں ایک عرصہ تک ایک اور قول لکھا جاتا رہا کہ’’جھرک میں پونجا پٹ کے نام سے ایک میدان ہے۔جس کے قریب قائد اعظم کا کراچی میں پہلا آبائی مکان بتایا جاتا ہے‘‘(۳۵)یہ حقیقت ہے جھرک کا مقام پہلے ضلع کراچی میں آتا تھا۔لیکن حقیقت میں محمد علی جناح کی جائے پیدائش وزیر منشن نیو نہم روڈ کراچی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
      محمد علی جناح کی تاریخِ پیدائش
      قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کے ضمن میں ہمیں مختلف کتابوں میں مختلف تاریخیں ملتی ہیں۔مطلوب الحسن سید جوقائد اعظم کے پراؤیٹ سکریٹری بھی رہے اپنی کتاب ’’جناح: اے پولیٹکل اسٹڈیز ‘‘میں تحریر کرتے ہیں کہ قائد اعظم ’’کرسمس کے دن ۱۸۷۶ء کو اتوار کے روز پیدا ہوے‘‘(۳۶)مگر محمد علی جناح کے اسکول کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق نہیںہوتی ہے ۔ بعض بیانات اور تحریروں میںمحمد علی جناح کی پیدائش ۱۸۷۰ء، ۱۸۷۳ء اور ۱۸۷۴ء بھی ملتی ہیں۔مگر محققین کی اکثریت کااتفاق محمدعلی جناح کی پیدائش کے سلسلے میں ۲۵،دسمبر ۱۸۷۶ ،پر ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والے بچے محمد علی جناح،جسکو مسلمان قوم نے قائداعظم کے عظیم خطاب سے نواز کی پیدائش صبح اذان کے وقت ہوئی گھر کی بالائی منزل پر ہوئی ۔ اس وقت کراچی میں مشکل ہی سے کہیں زچہ خانہ ہوتا ہوگا۔ گھر پر ہی ایک ماہر دایا کا انتظام کردیامگریہ ’’ بچہ بہت کمزور اور دبلا پیدا ہوا جس کے پتلے پتلے لمبے ہاتھ تھے،سر لمبوتراتھا،والدین اس کی صحت کی وجہ سے بہت پریشان تھے‘‘(۳۷)جنا ح پونجا کے پہلے فرزند کے پیدا ہونے پر سارے گھر میں خوشیاںمنائی گئیں۔ سماجی قاعدے کے مطابق بچے کے والدین کو مبارک باد دینے اور بچے کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ پہلوٹھی کے اس بچے کا نام خاندانی روایات کے مطابق،بچے کے ماموں قاسم موسیٰ نے محمد علی رکھا(۳۸) جناح پونجا اور ان کی بیگم نے اپنے پہلے بیٹے کے نام’’ محمد علی جناح کو نیک فال تصور کیا‘‘(۳۹) ۔
      چھٹی کی رسم
      معاشرے کا عام رواج ہے کہ ’’بچے کی پیدائش خصوصاًجب بچہ پہلوٹھی کا ہو تو بڑی دھوم دھام سے تقریبیں منعقد کی جاتی ہیں،گانے بجانے اور اظہار مسرت کے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں۔او رجہاں ہندو مسلمان سب اکھٹے رہتے ہوں تو قدرتی طور پر ایک دوسرے ی کے رسم و رواج کا اثر بھی آہی جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے ہندو گھرانے دائرہ اسلام میںداخل ہوے توبنیادی اسلامی تعلیمات کے باوجو دان کے ہاں بعض ہندوانہ رسمیں باقی رہ گئیں تھیں۔ان ہی میں کا ایک رواج یہ تھا کہ بچے کی پیدائش کے چھٹے دن ایک خاص تقریب انجام دی جاتی جسے عام طور پر چھٹی کی رسم کہا جاتا ہے۔ ’’یہ رسم ہندووں میں بھی ہوتی تھی اور مسلمانوں میں بھی ،دونوں کے ہاں مذہبی نکتہ نظر سے فرق ہے‘‘(۴۰)۔
      چھٹی کی رسم کے بارے میں ہندووں کا یہ عقیدہ ہے کہ چھٹی ماتا نام کی ایک دیوی ہے جو بچے کی پیدائش کے ٹھیک چھ دن بعد آتی ہے اور بچے کی اچھی یا بری تقدیر لکھ کر چلی جاتی ہے۔یہی ان کے نزدیک کاتب تقدیر ہے۔لہٰذا اس عقیدے کی بنیاد پر بچے کی پیدائش کے چھٹے دن اس قسم کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ بچے کے قریب ایک خوبصورت اور رنگین قلم کے ساتھ زعفرانی یا عنبر اور گلال کی بنی ہوئی روشنا ئی اور ایک رجسٹر رکھ دیا جاتا ہے۔تاکی بچے کے نصیب میں بہت سی اچھائیاں اور خوش نصیبیاں لکھ دی جائیں(۴۱) اس قسم کے رسم و رواج برعظیم کے بیشتر علاقوں میں آج بھی رائج ہیں مگر شہروں میں ان کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے ۔مگر دیہاتوں میں آج بھی شدو مد کے ساتھ جاری ہیں۔
      رسمِ عقیقہ
      میٹھی بائی اپنے زمانے کی خوش عقیدہ خواتین میں سے تھیں۔اس لئے محمد علی جناح کی پیدائش کے بعد انہوں نے اپنے شوہرسے’’اصرار کیا کہ بچے کو حسن پیر کے مزار پر لیجا کروہاں عقیقہ کیا جائے۔کیونکہ ان کی والدہ نے حسن پیر سے متعلق بہت سی کراماتی کہانیاں سن رکھی تھیں‘‘(۴۲)’’بزرگ حسن پیر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ان مسلمان صوفیاء کے نقشِ قدم پر چلتے تھے۔جنہوں نے اپنے آپ کو اسلامی تعلیمات کے لئے وقف کیا ہوا تھا‘‘(۴۳)۔
      جناح پونجا کا بڑھتا ہوا کاروبار اس بات کی اجازت نہیں دے رہا تھاکہ وہ کراچی چھوڑ کر کہیں جائیں۔جس کی وجہ سے انہوں نے کوشش کی کہ میٹی بائی سے معذرت کر لیں کیونکہ ’’ان کے لئے کراچی سے ایک ماہ کے لئے جاناقابل برداشت ہوگا‘‘(۴۴)اس وقت جناح پونجا کا کاروبار بڑی تیزی سے عروج کی طرف جا رہا تھا۔بیگم کے مسلسل اصرار پر جناح پونجا کو کاٹھیا واڑ جانے کے لئے رضامند ہونا پڑا۔ضروری تیاریوں کے بعد یہ چھوٹا ساقافلہ کراچی کے ساحل سے کاٹھیاواڑ کی بندر گاہ جس کا نام ’’ویرو وال‘‘ تھا کیلئے بحری باد بانی جہاز پر سوار ہو کر اپنی منزل کے طرف روانہ ہوگیاچند دنوں کے سفر کے بعد یہ خاندان ویرووال کی بندر گاہ پر اتر گیا۔جہاں سے یہ لوگ بیل گاڑیوں پر بیٹھ کر حسن پیر کے مزار پر پہنچے ’’جہاں پر انہوں نے چھوٹے بچے محمد علی کے سر کے بال منڈوائے ،حسن پیر کی درگاہ پر نذرانے دیئے‘‘(۴۵)جہاں پر انہوں نے بچے کے مراتب کی بلندی اوردرازیِ عمر کے لئے دعایئں مانگیں ان رسوم سے فارغ ہوکر جناح پونجا کا خاندان بیل گاڑیوں کے ذریعے اپنے آبائی گاؤں ’’پنیلی‘‘ کے لئے روانہ ہو گیا۔جہاں جناح پونجا کے والدین اور بہن بھائیو ں نے مسرتوں کیساتھ ان کا استقبال کیا۔ پنیلی میں چند دن قیام اور رشتے داروں سے میل ملاقاتوں کے بعد جنا ح پونجا اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی واپس آگئے۔
      محمد علی جناح کی شادی اور تعلیم
      محمد علی جناح کی پہلی درس گاہ ان کا گھر تھا۔جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم کے مدارج طے کئے۔ان کی تعلیم و تربیت چھ سال کی عمر میں شروع کر دی گئی تھی۔ محترمہ فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ’’میرے والدین نے گھر ہی پر ایک استادکو گجراتی پڑھانے کے لئے مقرر کر دیا تھا۔ان کا خیال تھا کہ وہ اسکول جانے کی عمر سے بہت چھوٹے تھے اور قریب ترین اسکول بھی ہمارے گھر سے بہت دور تھا‘‘(۴۶)جب محمد علی جناح کچھ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوے تو ان کے والدین نے انہیں اسکول میں داخل کرا دیا۔’’محمد علی نجاح کی تعلیم کا آغاز کراچی کے مدرسۃ الاطفال ( انفینٹ ورنا کولر اسکول )سے ہوا۔جہاں انہوں نے گجراتی کی چوتھی جماعت تک تعلیم پائی‘‘(۴۷)اس بیان کے بر عکس مطلوب الحسن سید تحریر کرتے ہیں کہ ’’جناح کو ابتدائی عمر میں ہی اپنے والدین سے جدا کر کے’’ گوکل داس تیج پال اسکول‘‘ میں ابتدائی تعلیم کے حصول کے لئے داخل کرادیا گیا تھا‘‘(۴۸)ان دونوں بیانوں میں کسی قسم کی کوئی شہادت یا ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ہے ۔بہر حال اس بات کا تو ثبوت موجود ہے کہ محمد علی جناح نے گجراتی کی چار جماعتیں پڑھنے کے بعدسندھ مدرسۃ الاسلام کے اسٹینڈرڈ فرسٹ میں (انگریزی کی پہلی جماعت) میں داخلہ لیا تھا۔بہر حال گجراتی کی چار جماعتیں محمد علی جناح نے غالب خیال یہ ہی ہے کہ گھر پر پڑھی ہونگی کیونکہ چھوٹی عمر محمد علی جناح کے لئے گھر سے دور کسی اسکول میں جانا دشوار تھا۔اور ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ وہ اپنے والدین کے اس وقت سب سے بڑے بیٹے تھے ان کے والدین ان سے محبت بھی بہت زیادہ کرتے تھے۔
      جس وقت پہلی مرتبہ محمد علی جناح سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرایاگیا تو(۴۹)سندھ مدرسۃالاسلام میں محمد علی جناح کا جنرل رجسٹر نمبر ۱۱۴، ہے نام محمد علی جناح جائے پیدائش کراچی،تاریخِ پیدائش کا کالم خالی ہے۔سر پرست کے دستخط کا خانہ بھی خالی ہے،ذات میں خوجہ درج ہے،سابقہ تعلیم کے خانے میں گجراتی کی چار جماعتیں درج ہے،فیس کے خانے میں (aying)فیس ادا کرنے والا لکھا ہے ،تاریخ داخلہ ۴،جولائی ۱۸۸۷ء درج ہے۔ان کا داخلہ انگریزی کی پہلی جماعت میں کیا گیاتھا(۵۰)ان اندراجات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شائدقائد اعظم کا داخلہ خود ان کے والد جناح پونجا نے نہیں کرایا تھا۔ بلکہ کاروباری مصروفیات کے پیشِ نظر انہوں نے محمد علی جناح کو کسی قریب رشتے دار یا دوست کے ذریعے اسکول میں داخل کرایا ہوگا۔جسکا ثبوت یہ ہے کہ تاریخِ داخلہ کا خانہ اور سر پرست کے دستخط دونو کے ہی خانے خالی ہیںجس سے اشارہ ملتا ہے کہ محمد علی کا داخلہ کسی اور شخص نے کرایا تھا۔
      فاطمہ جناح تحریر کرتی ہیں کہ ’’ان ایام میں ہماری پھوپی مان بائی بمبئی سے کراچی آئی ہوئی تھیں ….انہوں نے والدہ پر زور دیا کہ محمد علی جنا ح کو تعلیم کے حصول کی غرض سے ان کے ساتھ بمبئی بھیج دیں‘‘(۵۱)اس وقت محمد علی جناح کا رجحان تعلیم سے زیادہ کھیل کی طرف تھا۔جس وقت وہ گھر میں ہی پڑھ رہے تھے تب بھی ان کا زیادہ تر وقت کھیل میں ہی گذرتا تھا۔لہٰذا جناح پونجا نے کوشش کی کہ محمد علی جناح کو ایسے اسکول میں داخلہ دلایا جائے ’’جہاں کے طالبعلم اسکول سے زیادہ تر غیر حاضرنہ ہوتے ہوں اور گولییوں لٹووں ، گلی ڈنڈا اور کرکٹ کو کتابوں پر ترجیح نہ دیتے ہ‘‘(۵۲)اس وقت محمدعلی جناح کے ماحول کی تبدیلی ہی ان کو کھیل کود سے دور رکھنے کا علاج ہوسکتا تھا۔اس لئے محمد علی کو پھوپی مان بائی کی تجویز پر ان کے ساتھ بمبئی بھیج دیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح بمبئی کے ’’انجمن اسلام سکول بمبئی میں داخل کرا دیئے گئے(۵۳) یہی با ت ان کے متعلق سندھ مدرسہ کے جنرل رجسٹر میں بھی درج ہے۔ بمبئی پہنچے کے بعد جناح نے تعلیم کی طرف ذرا سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینا شروع کر دی تھی۔دوسری جانب کراچی میں محمد علی جناح کی والدہ اپنے اکلوتے اورپہلے بیٹے کی جدائی سے پریشان تھیں۔ان حالات سے مجبور ہونے کے بعد جناح پونجا نے محمد علی جناح کو واپس کراچی بلوالیا۔’’محمدعلی جناح کے دوبارہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ ۱۸۸۷ء/ /۱۲ ۲۳ کو ہوا‘‘(۵۴)۔
      کرا چی آمد کے بعد اسکول سے فارغ اوقات میں’’ محمد علی جناح کا مشغلہ گھڑ سواری تھا‘‘(۵۵)اس وقت جناح پونجا کے پاس کئی گھوڑا گاڑیاں اور ان کے اصطبل میں کئی اچھے گھوڑے موجود تھے۔انہوں نے اُن میں سے ایک گھوڑ امنتخب کیااور گھڑ سواری کا شوق پورا کرنے لگے۔اس شوق میں ان کے اسکول کا ایک دوست کھارا در کے تاجر کریم قاسم کا بیٹا بھی شامل تھا‘‘(۵۶)دونوں مل کر اپنا شوق گھڑ سواری کے ذریعے پورا کرتے۔دونوں ہر روز گھڑ سواری کرتے کیونکہ محمد علی جناح کو گھڑ سواری بہت پسند تھی۔وہ سوچتے تھے کہ ’’گھوڑ اپنا سر کس طرح بلند رکھتا ہے۔سر کو اونچارکھنا قوت اور طاقت کی نشانی ہے‘‘(۵۷)اسی طرح محمدعلی جناح کو گنبد اور مینار بہت پسند تھے۔یہی سر بلندی اور اعتماد آئندہ زندگی میں ان کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔یہی وجہ تھی کہ وہ ساری زندگی ہر کام قوت اور اعتماد کے ساتھ کرتے تھے۔ان کے ہر کام میں ایک وقار کا پہلو ہمیشہ پوشیدہ رہتا تھا۔
      ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ مدرسہ میں اس مرتبہ انکا جنرل رجسٹر نمبر ۱۷۸،تھا اس مرتبہ محمد علی جناح کی تاریخ پیدائش ۲۰، اکتوبر،۱۸۷۵،درج کرائی گئی۔بقیہ خانوں میں سابقہ اندراجات ہی کئے گئے۔اس مرتبہ محمد علی جناح نے اسٹینڈرڈ فورتھ(چوتھی جماعت ) تک اس اسکول میں تعلیم حاصل کی جب وہ چوتھی جماعت میں تھے تو شائد بیماری کی وجہ اسکول سے طویل عرصہ غیر حاضر رہے۔جس کی بناء پر ۵، جنوری ۱۸۹۱ء کو طویل غیر حاضری کی بناپر ان کانام اسکول کے رجسٹر سے خار ج کر دیا گیا۔(۵۸)پھر فروری ۱۸۹۱ء کو محمد علی جناح کا دوبارہ داخلہ ہوااس مرتبہ ان کا جنرل رجسٹر نمبر ۴۳۰تھا۔نام کے کالم میں محمد علی کے ساتھ ’’جناح بھائی‘‘ کا اضافہ ہوااورتاریخ پیدائش ۲۰، اکتوبر ہی درج کی گئی(۵۹)محمد علی جنا ح نے پانچویں جماعت میں ہی اسکول سے تبادلے کا سرٹیفکیٹ ۳۰،جنوری ۱۸۹۳ء شادی کی غرض سے کچھ جانے کے لئے نکلوالیا۔
      درانِ تعلیم ہی محمد علی جناح کے والدجناح پونجا نے فیصلہ کر لیا کہ محمد علی جناح کو (Busines admistration) کاروباری نظم ونسق کی تربیت کیلئے تین سال کی مدت کے لئے انگلستا ن بھیج دیا جائے۔محمدعلی جناح کے انگلینڈ بھیجنے کا سن کر جناح کو والدہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ ’’برطانیہ ایک خطر ناک ملک ہے میرے غیر شادی شدہ اور خوبصورت نو جوان بیٹے کووہاں بھیجنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔اگر انہوں نے وہاں پر کسی انگریز عورت (میم)سے شادی کرلی تو یہ جناح خاندان کے لئے المیہ ہوگا‘‘(۶۰)لہٰذا پہلے محمد علی جناح کی شادی کر دی جائے پھر انگلستان بھیجنے کا سوچا جائے۔
      جناح پونجا نے اپنی بیگم کے مشورے سے اتفاق کیا۔اب محمد علی جناح کے لئے ایک خوبصورت دلہن کی تلاش شروع کی گئی۔ان کی والدہ پنیلی کے ایک خوجہ خاندان سے وا قف تھیں۔ ’’انہوں نے سوچا کہ یقیناً اس خاندان کی لڑکی ایمی بائی جو بمبئی کے بڑے تاجر لیرا کھیم جی کی بیٹی تھیں‘‘(۶۱)محمد علی کے لئے ایک اچھی دلہن ثابت ہوگی۔جناح کے والد ین نے اس معاملے میں بیٹے سے مشورہ کیا جو والدین کی رضا میں راضی ہو گئے۔محمد علی جناح نے زندگی میں صرف یہ ہی ایک اہم فصلہ خود نہیں کیا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جناح کو والدین کی فہم و فراست پر مکمل اعتماد تھا۔کسی ذریعے سے جنا ح پونجا نے بیٹے کے رشتے کی بات پکی کرنے کے بعدوہ بیٹے کی شادی کی غرض سے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے آبائی گاؤںپنیلی پہنچے فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ ’’گاؤں کے لوگوں کو علم تھا کہ میر ے والد نے بہت سرمایہ کمالیا ہے اور وہ لکھ پتی ہیں‘‘(۶۲)یہی وجہ تھی کہ وہ اتنے لمبے فاصلے سے بارات لے کر پہنچے دلہن کے والدین نے دور دراز کا فاصلہ طے کر کے آنے والی بارات کا پنیلی گاؤں پہچنے کو اپنی عزت افزائی تصور کیا۔جناح پونجا بھی لوگوں کے اندرونی جذبات سے واقف تھے۔انہوں نے پنیلی میں اپنی شہرت کوبر قرار رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔وہ رشتے داروں دوستوں اور گاؤں کے ہر گھرانے کے سربراہ کو دینے کے لئے کراچی سے بے شمار تحائف لیکر آئے تھے۔ جب یہ تحائف تقسیم کئے گئے تو یہ کم پڑ گئے ۔ ’’اُنہوں نے اپنے رشتے کے ایک بھائی کو مزید تحائف خریدنے کے لئے شہرگونڈل بھیجا‘‘(۶۳)۔
      اِس زمانے میں عموماًبینڈ باجے کا رواج نہ تھا۔لہٰذا گونڈل شہر سے نقارچی بلوائے گئے اُنہوں نے پوری قوت کے ساتھ نقارہ بجاناشروع کردیا۔نقارے کی گونج دار آوا ز پورے علاقے میں سُنی گئی۔اِس طرح محمد علی جناح کی شادی کی دُھوم دھام کی خبر کافی دور تک پھیل گئی اور لوگوں کو پتہ ہوگیاکہ کراچی سے بارات پنیلی آئی ہے۔ کئی دنوں سے خواتین کپڑے،تحائف،گہنے اور مٹھائیاںدلہن کے گھر لے جانے میں مصروف تھیں۔جب یہ خواتین دلہن کے گھر جاتیں تو خوب گانے بجانے کا اہتمام کر تیںاور راستے میں رواج کے مطابق چاول بکھیرتی جاتیں۔پنیلی کا ہر فرد ایک ہفتے تک شادی کی دعوتوں میں مصروف رہا۔جناح پونجا کو اخراجات کی کوئی پروہ نہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پنیلی میں شاہ خرچیو ں کا مظاہرہ کیا۔اس چہل پہل اور راگ رنگ میں محمدعلی جناح کو رواج کے مطابق بہترین لباس پہنائے گئے۔عطر کی خوشبووں سے دولہا کو معطر کیا گیا ۔محمد علی جناح لباس کے معا ملے میں شروع سے ہی نفاست پسند اور خوش لباس رہے ہیں۔ان کی شخصیت ان کے لباس سے عیاں تھی۔
      شادی کے دن محمد علی جناح کو سر سے پاؤں تلک پھولوں کے لمبے سہرے سے سجایا گیاتھا(۶۴)ان کی پھوپی نے ان کے سر پر سہرا باندھا تھا۔محمدعلی جناھ دولہا بننے کے بعد اپنے دادا کے گھر سے بارات لے کر سسرال روانہ ہوے۔جہا ں پہنچنے کے بعد انہیں ایک اونچے تخت پر بٹھایا گیا۔گاؤں کے قاضی نے نکاح کی رسم ادا کی اور کچھ قرآن پاک کی آیات تلاوت کیں۔اس طرح محمدعلی جناح ایمی بائی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔(۶۵)اور ایمی بائی جناح خاندان کا ایک فرد بن گئیں۔
      محمد علی جناح کی شادی کی تقریبات کی وجہ سے جناح پویجا قریباً چار ہفتے اپنے کارو بار سے الگ رہے۔شادی کی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ کراچی واپس جاناچاہتے تھے۔لیکن دلہن والے اپنی رسوم کی بجا آوری کی وجہ سے فو راًرخصتی سے معذرت کر رہے تھے۔ مگر گاؤںکے بزرگوں کے سمجھانے پر دلہن کے گھر والے اپنی لاڈلی بیٹی کی رخصتی کرنے پر آمادہ ہوگئے۔اس طرح ایمی بائی قیمتی اور خوبصورت لباس اورخوبصورت زیورات پہن کر اپنے سسرال کے لئے پنیلی سے رونہ ہوگئیں۔
      شادی کے بعد محمد علی جناح نے اپنے وقت کو ضائع نہ کیا۔بلکہ و ہ اپنی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے تعلیمی مشاغل میں دوبارہ مصروف ہو گئے۔کراچی واپس آنے کے بعد محمدعلی جناح نے چرچ مشن اسکول میں ۸ مئی ۱۸۹۲کو چھٹی جماعت میں داخلہ لے لیا۔پانچویں جماعت کی کتابیں تو وہ پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔اگر وہ سندھ مدرسہ میں بھی داخلہ لیتے تو وہ چھٹی جماعت میں ہی لئے جاتے(۶۶)چرچ مشن اسکول میں ان کا جنرل رجسٹر نمبر ۴۸۳تھا۔نام میں صرف محمد علی جناح درج ہوا۔تاریخ پیدائش یہاں بھی ۲۰، اکتوبر ۱۸۷۵ء درج کی گئی۔دستخط کے کالم میں محمد علی جناح بھائی درج تھاہے ذات کے کالم میں پہلی مرتبہ محمڈن لکھا گیا۔(۶۷)ان تمام تحریری شہادتوں کے باوجود بہت سے ایسے شواہد جن کا محمد علی جناح کی ذات سے تعلق ہے ملتے ہیں۔ جن میں محمدعلی جناح کی تاریخ پیدائش ۲۰،اکتوبر ۱۸۷۵ء کو رد کیا گیا ہے۔ خود قائد اعظم محمد علی جناح کے پاسپورٹ میں ان کی جائے پیدائش اور تاریخِ پیدائش کے صحیح اندراجات موجود ہیں۔پاسپورٹ نمبر ۴۰۰۸۷۸، مجریہ ۴جولائی ۱۹۳۶ء جس میں سابقہ اندراجات کے برعکس تحریرموجود ہے کہ جائے پیدائش کراچی،تاریخِ پیدائش ۲۵،دسمبر ۱۸۷۶ء،،(۶۸) ۔
      دہلی کے ہفت روزہ اخبار’’انجام‘‘ نے ۲۵،اپریل ۱۹۴۲ء کوقائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا کہ جب سے مسلم لیگ نے فنڈ جمع کرنا شروع کیا ہے اُس وقت سے انجام کے خریدار وں نے بہت زیادہ چندے دیئے ہیں۔ اب خریداروں کا اصرار ہے کہ آپ سے آپ کی پیدائش کا وقت، تاریخ اور مقام معلوم کیا جائے۔تاکہ آپ کے اور مطالبہ پاکستان کے زائچے تیار کر اکے شائع کرائے جائیں۔اس کے جواب میںمورخہ ۳۰،اپریل ۱۹۴۶ کو قائد اعظم نے تحریر کیا کہ
      جاری ہے




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (02-15-2016)

    3. #11
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: حیات قائد اعظم محمد علی جناح کا مختصر جائز

      پسند رائے اور حوصلہ افزائی کا شکریہ



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 2 of 2 FirstFirst 12

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •