مولانا زاہد الراشدی
جناب رسالت مآب ﷺ کے ساتھ نسبت اور عقیدت و محبت کا اظہار ہمارے ایمانی تقاضوں میں سے ہے اور ہر مسلمان کسی نہ کسی انداز میں اس کا اظہار ضرور کرتا رہتا ہے، مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی بعثت کن مقاصد کے لیے ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبرنے انسانی معاشرہ کو خیر کے کن کاموں کی تلقین کی؟ شر کے کن کاموں سے روکا تھا اور بھرپور محنت کے ساتھ انسانی سوسائٹی کو کن تبدیلیوں اور اصلاحات سے روشناس کرایا تھا، جن کی وجہ سے انہیں پیغمبر انقلاب کہا جاتا ہے۔ مورخین اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی میں اتنی کم مدت میں اتنے مکمل انقلاب کی اور کوئی مثال پیش نہیں دی جا سکتی۔ حجۃ الوداع کے تاریخی خطبہ میں رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’آج جاہلیت کی ساری قدریں میرے پائوں کے نیچے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ نبی اکرمﷺ نے جاہلی معاشرہ کی اقدار کو پائوں کے نیچے روند کر ایک پاکیزہ اور مثالی سوسائٹی کی طرف نسل انسانی کو گامزن کر دیا تھا۔آئیے، اس بات کا ہم تھوڑا سا جائزہ لیں کہ وہ کون سی اقدار تھیں، جنہیں نبی اکرمﷺنے جاہلیت کی قدریں قرار دے کر ختم کیا تھا اور پھر یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا وہ جاہلی قدریں ،پھر سے انسانی سوسائٹی کا حصہ تو نہیں بن گئیں؟ اس کا ایک سرسری سا منظر یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے : ٭ کفر و شرک اور بت پرستی کو جزیرۃ العرب میں اپنے دور میں مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔ ٭ عریانی اس حد تک عام تھی کہ مرد اور عورتیں خانہ کعبہ کا طواف بھی عریاں حالت میں کرتے تھے،مگر رسول اکرمﷺ نے عریانی اور فحاشی کو ختم کر کے نہ صرف بیت اللہ کے عریاں حالت میں طواف پر پابندی لگا دی بلکہ عام معاشرتی زندگی میں بھی ستر اور حجاب کے احکام لاگو کر دئیے تھے۔ ٭ جوا سر عام کھیلا جاتا تھا حتیٰ کہ حرم پاک کی حدود میں اور عبادت کی بعض صورتوں میں بھی جوئے کا رواج تھا، جسے نبی کریمﷺ نے ممنوع قرار دے دیا۔ ٭ سود کا لین دین عام تھا، تجارت اور قرض دونوں میں سود کا کاروبار چلتا تھا ،مگر رسول اکرمﷺ نے سود کا خاتمہ کر کے سودی کاروبار کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مترادف قرار دے دیا۔ ٭ شراب نوشی پر فخر کیا جاتا تھا اور شراب لوگوں کی گھٹی میں شامل سمجھی جاتی تھی، مگر نبی اکرمﷺ نے اس کی مکمل ممانعت فرما دی اور عملی طور پر معاشرے کو شراب سے پاک کر دیا۔ ٭ نسل، زبان، علاقہ اور قومیت کا تفاخر اس معاشرہ کا امتیاز تھا۔ اس بنیاد پر ایک دوسرے پر برتری جتائی جاتی تھی اور ایک دوسرے پر غلبہ اور تسلط قائم کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ نبی اکرم ﷺنے انہیں جاہلی عصبیت کی علامات قرار دے کر ختم کیا اور اعلان کیا کہ شرافت اور برتری صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہوگی۔ ٭ بیٹی کو عار اور بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ اس کا زندہ رہنے کا حق باپ کے رحم و کرم پر ہوتا تھا اور اس دور میں ہزاروں بیٹیاں صرف اس وجہ سے زندہ دفن کر دی گئیں، مگر نبی اکرمﷺ نے بیٹی کو نہ صرف زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دے کر عزت و توقیر بخشی۔ ٭ ناچ گانا عام تھا۔ نبی اکرمﷺ نے اسے ممنوع قرار دیا بلکہ اپنی بعثت کے مقاصد میں یہ فرما کر اس بات کو شامل کیا کہ مجھے ناچ گانے کے آلات توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ٭ حلال و حرام کا کوئی فرق نہیں تھا۔ لوگوں نے اپنے اپنے ضابطے بنا رکھے تھے اور دوسروں کا مال ہضم کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراش لیے تھے۔ نبی اکرمﷺ نے کھانے پینے، لین دین اور دیگر معاملات میں حلال و حرام کے مکمل ضابطے دئیے اور فرمایا کہ حرام کھانے والے اور حرام طریقہ سے دوسروں کا مال کھانے والے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ٭ یتیم بچے اور عورت بطورِ خاص معاشرہ میں مظلومیت کا شکار تھے، ان کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا اور بالادست افراد ان پر کسی قسم کا ظلم روا رکھنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔ نبی اکرم ﷺنے ان دونوں طبقوں کو معاشرتی ظلم اور نا انصافی سے نجات دلائی اور ان کے حقوق کا تعین کیا۔ یہ ان وسیع تر معاشرتی اصلاحات میں سے چند باتیں ہیں ،جو نبی اکرمﷺ نے ۲۳ سالہ محنت کے ساتھ معاشرہ میں لاگو کی تھیں اور یہ وہ تبدیلیاں ہیں ،جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ رسول اکرمﷺ کا بپا کردہ انقلاب انسانی تاریخ کا کامیاب ترین انقلاب تھا، مگر بد قسمتی سے ان میں سے بہت سی جاہلی قدریں آج پھر انسانی معاشرے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ ٭…٭…٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
V good
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks