Arosa Hya (12-02-2015)
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی
برصغیر میں دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا مقدس سہرا ان صوفیائے کاملین کے سر ہے جنہوں نے مصائب و آلام کو نہایت صبر سے برداشت کیا اور اسلام کے پیغام کو چپہ چپہ قریہ قریہ کو چہ کوچہ میں عام کیا اور بے شمار لوگوں کو کلمہ طیبہ پڑھا کر ان کو صاحب ایمان کیا ۔ان مقدس صوفیائے کرام کی صف اوّل میں کامل بزرگ حضرت سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخشؒ کی ذات مرکز تجلیات سب سے نمایاں ہے۔ آپ نیکی اور زہد وتقویٰ میں یکتائے زمانہ ہیں اور اپنے نمایاں کارناموں کی بدولت ممتاز ہیں۔ آپ کا اسم گرامی صوفیاء کی صف میں سورج کی طرح چمکتا دمکتا رہے گا ۔آپ کی عظیم ہستی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ اللہ کے محبوب و مقبول بندے ہیں، جنہوں نے اپنے علم و عمل سے تاریخ اسلام میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، اگر برصغیر میں آپ کو اسلام کا پہلا داعی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ آپ کا اسم گرامی سید علی ہجویری کنیت ابو الحسن اور لقب داتا گنج بخشؒ ہے۔حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکر ؒجیسے اولیائے کرام نے آپ کے مزار سے فیض لیا اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒکا فیض لینے کے بعد یہ شعر آفاق میں مشہور زبان زد عام ہے : گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما چنانچہ اس واقعہ کے بعد آپ کو گنج بخشؒ کے نام سے پکارا گیا، جو پوری دنیا میں آپ کا لقب مشہور ہے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی مشہور کتاب کشف المحجوب میں تصوف کے اسرار ورموز پر آپ نے روشنی ڈالی ہے اور تصوف کے تمام پہلوئوں کو بے نقاب کیا ہے۔ ہندوستان میں اسلامی تصوف پر یہ پہلی کتاب ہے۔ سرزمین لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضرت مخدوم ؒنے اپنی یہ معرکۃ الآرا کتاب یہیں تصنیف فرمائی۔ اس بلند پایہ تصنیف کو صوفیہ کرام میں ہمیشہ ایک خاص مقام حاصل رہا ہے ۔حضرت خواجہ محبوب الہیٰ نظام الدین اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کا کوئی مرشد نہ ہو اس کو کشف المحجوب کے مطالعہ کی برکت سے مل جائے گا اس کتاب میں داتا صاحب نے محققانہ طرز تحریر سے اپنے مجاہدات و مکاشفات اور تمام ذاتی تجربات بیان کئے ہیں مباعث سلوک پر بہترین تنقید کی گئی ہے اور یہ کئی ابواب پر مشتمل ہے۔ معرفت کے طلباء کے لئے یہ کتاب مرشد کا درجہ رکھتی ہے۔ فارسی کی تمام کتابوں میں جو شہرت اس کتاب کو ملی ہے، وہ کسی کے حصہ میں نہیں آئی، یہ فارسی کی بہترین کتاب ہے اور تصوف میں ایک کامل رہنما ہے۔ اس کتاب کو ہر دور کے علماء اور صوفیا ء نے تصوف کے موضوع پر ایک بے مثال کتاب قرار دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس شہرۂ آفاق کتاب نے ہر دور میں ہزاروں تشنگان علم ومعرفت اور طالبان حق کو فیض یاب کیا ہے اور آج بھی اہل علم اس اپنی علمی و روحانی پیاس بجھا رہے ہیں۔ کشف المحجوب کی عظمت کا اندازہ اس سے امر سے باخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسے اولیاء کرام اور صوفیاء نے اپنی تصانیف میں تصوف کا مآخذ قرار دیا ہے۔ اس لئے اس کے متعد داُردو تراجم ہوئے اور اب بھی پچیس سے زیادہ تراجم مارکیٹ میں موجود ہیں۔ مخدوم الاولیاء حضرت داتا گنج بخش ؒاسی کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عراق میں دنیا حاصل کرنے اور اسے لٹانے میں پوری طرح مشغول تھا جس کی وجہ سے میں قرض دار ہو گیا، جس کسی کو بھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی وہ میری ہی طرف رجوع کرتا اور میں اس فکر میں رہتا کہ ہر ایک کی آرزو کیسے پوری کروں گا۔ ان حالات میں ایک عراقی شیخ نے مجھے لکھا کہ ا ے فرزند!اگر ممکن ہو تو دوسروں کی حاجت ضرور پوری کرو، مگر سب کے لئے اپنا دل پریشان مت کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا حاجت روا ہے اور اپنے محبوب کے صدقے سب کو دیتا ہے اور آپ نے اپنے عقیدت مندوں کو بھی یہی درس دیا اور فرمایا کہ علم شریعت کے بھی تین ارکان ہیں کتاب،سنت،اور اجماع امت پہلا علم گویا خدا کا علم اور دوسرا علم خدا کی طرف سے بندہ کو عطا کیا گیا ہے ۔ داتا علی ہجویریؒ نے صوفیاء کے اقوال اپنے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جس شخص کو خدا کا علم یعنی علم حقیقت نہیں اس کا دل جہالت کے سبب مردہ ہے اور جس شخص کو اس کا عنایت کیا ہوا، یعنی علم شریعت نہیں اس کا دل نادانی میں مبتلا ہے۔ آپ نے دونوں علموں کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے، جس طرح ظاہری علوم کے لئے اساتذہ کرام کی شاگردی کرنا لازم ہے، اسی طرح باطنی علوم کے لئے مشائخ عظام کی بیعت اور مرید ہونا بھی ضروری ہے۔ بزرگان دین نے دلائل شریعہ سے ثابت کیا کہ کوئی شخص اس وقت تک کمال کو نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ کامل کے ہاتھ پر بیعت نہ ہو ا ہو۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ ان لوگوں کو پہچانتا ہوں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید لیکن قیامت میں ان کے مرتبے کی بلندی پر انبیاء اور شہداء بھی رشک کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ سے محبت ہے اور جن کو اللہ کی ذات پیار کرتی ہے اور وہ لوگ اچھی باتیں بتاتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں یہ جماعت اور یہ لوگ وہ ہیں، جن کو اللہ نے اولیاء کرام کے نام سے یاد کیا ہے اور قرآن مجید میں بھی ان کا تذکرہ فرمایا ہے۔ صالحین ،متقین ،کا یہی وہ گروہ ہے ،جو اللہ کا انعام یافتہ ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے صحابہ کرام کے بعد مسند رشدوہدایت کو سنبھالا اور تعلیم کتاب و حکمت کا درس دیا۔ حضرت داتا علی ہجویریؒ کا شمار بھی ان اکابر اولیاء کرام میں ہوتا ہے، جن کی پاکیزہ جدوجہدسے پنجاب کے خطے لاہور میں علم و عرفان کے چشمے پھوٹے آپ ایک جگہ یوں فرماتے ہیں کہ میں اپنے مرشد کامل ابوالفضل محمد بن الحسن ختلیؒ کو وضو کرا رہا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ جب میں ایک آزاد مرد ہوں تو بھلا مجھے ان پیروں فقیروں کی خدمت میں رہنے اور ان کی غلامی کرنے سے کیا فائدہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہے وہ ہو کر رہے گا اور میں ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ آپ نے فرمایا: اے بیٹا جو بات تیرے دل میں آئی ہے وہ مجھ پر واضح ہو گئی ہے۔ بس اتنی بات جان لے کہ ہر کام ایک ذریعہ یا سبب سے ہوتا ہے اور یہ خدمت یا ملازمت بالآخر بزرگی اور عظمت کا ایک سبب اور ذریعہ بن جاتی ہے ۔ یہ درست ہے کہ اللہ چاہتا ہے تو ایک سپاہی کے بیٹے کو بادشاہ کا تاج پہنا دیتا ہے، مگر حکمت سے کوئی کام خالی نہیں ہوتا۔حضرت مخدوم علی ہجویری ؒکی ذات مقدس بھی مینارہ نور کی حثیت رکھتی ہے کیونکہ آج صدیاں گزرجانے کے بعد بھی آپ کے دربار سے لاکھوں لوگ فیض پا رہے ہیں اور ان کے دلوں میں ایمان کا بیج پوری طرح سے جڑ پکڑ رہا ہے اور وہ اسی راستے پر چل رہے ہیں ،جس پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے چلنے کا حکم دیا ہے اور حقیقت میں ایک سچے مسلمان کا یہی حقیقی مقصود ہوتا ہے کیونکہ اصل میں انسانی زندگی مادی ہے ،اگر انسان اپنی روح کی آواز سنے اور اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے وجود کی پوری طاقت سے اللہ کی بندگی میں لگ جائے تو اس کی زندگی مادی سطح پر ختم ہو جانے کے باوجود روحانی سطح پر قائم رہتی ہے اور اس کے فیض تعلیم سے تشنگان علم برابر سیراب ہوتے رہتے ہیں ۔زندہ حقیقت ہے کہ حضرت داتا گنج بخش ؒکا چشمہ فیض جو کہ پنجاب کی سرزمین کے شہر لاہور کے بھاٹی دروازے کے پاس موجود ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس چشمہ سے سیراب ہورہے ہیں اور ہر سال آپ کے عرس کے موقع پر ہزاروں من دودھ کی سبیل لگائی جاتی ہے جب حضرت داتا گنج بخش ؒتبلیغ اسلام کی خاطر غزنی سے لاہور تشریف لائے جس جگہ پانی کا چشمہ ہے وہاں درخت کے سایہ میں آپ نے قیام فرمایا ان دنوں شہر لاہور اور گرد و نواح کے لوگ اپنے مویشیوں کا ایک وقت کا دودھ لاہور کے ہندؤ جوگی رائے (شہر کوتوال) کو دیا کرتے تھے۔ آپ کے قیام کے تیسرے دن ایک بڑھیا دودھ اٹھائے جوگی کو دینے جارہی تھی۔ حضرت نے بلا کر پوچھا تو اس بڑھیا نے کہا کہ میں یہ دودھ لاہور کے کوتوال رائے راجو کو دینے جارہی ہوں ،اگر میں نے دودھ نہ دیا تو میرے جانور دودھ کی بجائے خون دینا شروع کر دیں گے۔ داتا سرکار نے فرمایا ؛یہ دودھ تم مجھے دے دو تمہارے جانور خون نہیں دیں گے ۔آپ کی بات پر وہ بڑھیا اس قدر متاثر ہوئی کہ وہ دودھ آپ کو دے کر چلی گئی اور جب اس نے گھر پہنچ کر شام کو دودھ دوہنا شروع کیا تو اس کا دودھ بجائے خون آنے کے اس کی مقدار میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اس بات کی خبر بڑھیا نے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچائی تو انہوں نے بھی آپ کی خدمت میں دودھ دینا شروع کر دیا ۔جب کوتوال شہر رائے راجو کو پتہ چلا تو اس نے اپنی شعبدہ بازیوں سے آپ کو اٹھانے کی کوشش کی ،مگر آپ نے اپنی کرامات سے اسے زیر کر دیا اور اسے بھی کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان کر دیا اور ان کا نام آپ نے شیخ ہندی رکھا اور ان کو اجازت وخلافت سے بھی نوازا شہر کے لوگ جوق درجوق مسلمان ہونا شروع ہو گئے۔ آپ نے دودھ کی پہلی نذر قبول فرمائی چنانچہ پنجاب بھر کی گوجر برادری اور شیر فروش اس روایت کو صدیوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں سارا سال اور عرس پاک کے موقع پر ہزاروں من دودھ وہ فی سبیل اللہ تقسیم کرتے ہیں ۔ آپ کا وصال مبارک ۴۶۵ھ کو لاہور میں ہوا ۔آپ کا مزار پاک مرکز تجلیات ربانی ہے ،جہاں لاکھوں طالبان حق کو رشد و ہدایت کے جام ملتے ہیں ۔آپ عرس مبارک کی سہ روزہ عظیم الشان تقریبات آپ کے مزار پاک پر ہوتی ہیں، جس میں دنیا بھر سے جید علماء ومشائخ طریقت حاضری کو بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں ۔اللہ آپ کے صدقے ہماری سب مشکلات آسان فرمائے (آمین) ٭٭٭
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Arosa Hya (12-02-2015)
amain boht khooooooob
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
intelligent086 (12-02-2015)
Nice Sharing
Thanks for Sharing
Ameen
ahsan al jaza
Ameen... good sharing..
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
MashaAllah. Bohot hi umda sharing. Jazak Allah. Kia کشف المحجوب hamain urdu main online parhbe k liye mill sakti hai
@CaLmInG MeLoDy
Aap k Forum main maujood hai
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks