لیا کیا تخیّل نے مفہوم ہو کر
فنا ہو گئے لفظ مرقوم ہو کرتری آنکھ کی نیتوں نے اچانکبڑا کیف بخشا ہے معلوم ہو کرجِیئے تو محبّت کی توہین ہوگیجئیں گے نہ ہم تجھ سے محروم ہو کرہمیں حلقۂ زلف میں قید کر لےہم آزاد ہوتے ہیں محکوم ہو کرنہ معلوم کس سمت جاتے ہیں انساںتلاشِ مسرّت میں معدوم ہو کرعدم خدمتِ خلق حُبِّ خدا ہےسکوں کس کو ملتا ہے مخدُوم ہو کر٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks