مسافر تو دو پل کا مہمان ہے
یہی اُس کی عظمت کی پہچان ہے
ٹھہرتے نہیں راہ میں تیز رو!
کہ پڑتی ہے ماند اُن کے جوہر کی ضو
قلندر گیا اُس کی بولی گئی
گرہ راز کی پھر نہ کھولی گئی
دلوں میں مگر گونج ہے ساز کی
بڑی عمر ہوتی ہے آواز کی
نئے جو بھی خورشید و مہتاب ہیں
قلندر کے دیکھے ہوئے خواب ہیں
٭٭٭


Similar Threads: