SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: .........اسے تقدیر کہتے ہیں

    1. #1
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Anmol's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,040
      Threads
      1965
      Thanks
      0
      Thanked 86 Times in 82 Posts
      Mentioned
      298 Post(s)
      Tagged
      4782 Thread(s)
      Rep Power
      75

      .........اسے تقدیر کہتے ہیں

      اسے تقدیر کہتے ہیں.


      امی سے خالہ ثریا کی محبت بے مثال تھی. طے تھا کہ باجی کلثوم کا رشتہ خالہ ثریا کے بیٹے جنید سے کریں گی تا کہ محبت کے بندھن مزید پکے ہوں. پھر ایک سال تک منگنی رہی لیکن جب شادی کی بات چلی تو خالہ نے انکشاف کیا کہ ان کا بیٹا شادی کے لئے راضی نہیں ہے. اچانک ہی امّی جان کو صدمہ پہنچا اور وہ اپنی چھوٹی بہن سے ناراض ہو گئیں، یوں دونوں کی محبت میں دراڑ پڑ گئی. امی جان نے اپنی بیٹی کی شادی غیروں میں کر دی. اس کے بعد بہن کے گھر آنا جانا بھی متروک ہوا لیکن ثریا خالہ کا چھوٹا بیٹا ہم سے دور نہ ہوا. وہ بدستور امی کے پاس آتا تھا کیونکہ امی نے بچپن میں اسے پالا تھا، وہ پانچ سال ہمارے گھر رہا تھا پھر خالہ لے گئیں. نوید کو امی سے بہت پیار تھا اور ناراضگی کے باوجود وہ ہمارے ہاں آ جاتا تھا.
      بچپن کا وہ زمانہ سنہری تھا. ہم خالہ ثریا کے بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے. خالہ سے فرمائش کرتے، جو کہتے وہ پکا کر لاتیں. وہی محبت اب بھی نوید کے دل میں تازہ تھی. اگرچہ حالات بدل گئے تھے پر دل نہیں بدلے تھے.
      بچپن سے میری اور نوید کی دوستی رہی تھی، وہ میرا شیدائی تھا، اس کی محبت بیکراں تھی، ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہماری جدائی ہو گی، تاہم امی کو خالہ کی طرف سے جو دکھ ملا تھا اس کی وجہ سے میرا دل بُرا ہو چکا تھا.
      میں نوید سے کھچی کھچی رہنے لگی، وہ بات کرتا تو سنی ان سنی کر دیتی،سیدھے منہ اس کی بات کا جواب نہ دیتی.
      کوئی رشتہ دار اگر ماں سے بد زن ہو جائے، بچوں کے رویوں میں فرق آ ہی جاتا ہے. پہلے جب وہ آتا تھا اس کو خوش آمدید کہتی تھی اور کچھ نہ کچھ کھانے پینے کے لئے سامنے لا رکھتی تھی لیکن اب میرا دل نہ چاہتا کہ بات کروں.
      نوید نے میرے رویے کا کوئی اثر نہ لیا، اس کی توجہ اور محبت میں ذرا کمی نہ آئی. وہ جب آتا میری پسند کی چیزیں لاتا. امی تو اس کو اب بھی اتنا ہی چاہتی تھیں اور پہلے کی طرح پیار بھی کرتی تھیں لیکن میں نہیں کر سکتی تھی. امی سے کہتی کہ جب خالہ جان نے آپ کو دھوکا دیا ہے تو آپ کیوں ان کے بچوں سے دور نہیں ہو جاتیں .
      کیا پتہ تمہاری خالہ کا قصور نہ ہو بلکہ جنید نے خود انکار کیا ہو، آج کل کی اولاد اپنی مرضی چاہتی ہے. امی یہ جواب دیتیں تو میں جتلاتی تھی کہ امی آپ کتنی بھولی ہیں، یہ آپ کی خود فریبی ہے ورنہ کون اپنوں کو چھوڑتا ہے ضرور ادھر کچھ مفاد پرستی کا معاملہ ہو گا.
      ماں پر میری ان باتوں کا اثر نہیں ہوتا تھا. بدستور وہ نوید سے پیار کئے جاتی تھیں اور میں کہتی تھی دیکھ لینا ماں ایک دن یہ بھی آپ کو دھوکا دے گا.
      ایک روز میں اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک پیٹ میں شدید درد ہونے لگا اور میں تکلیف سے بے حال ہو گئی. اسی وقت نوید آ گیا. جب اس نے میری کراہیں سنی تو فوراً دوڑا گیا اور ڈاکٹر لے آیا. ڈاکٹر نے چیک کیا اور کہا اسے فوراً ہسپتال لے آؤ کیونکہ آنت کا درد ہے اور پھٹنے کا خطرہ ہے.
      فوراً ہسپتال لے گئے.آپریشن ہوا اور میری جان بچ گئی. اس روز نوید نہ ہوتا تو میرا بچنا محال تھا.
      دل میں محبت تو تھی پر ناراضگی کے وقتی بادل چھا گئے تھے. جب اس نے بہت پرواہ کی اور دوران علالت دل سے عیادت کرتا رہا تو مجھے بھی نوید کی قدر ہو گئی اور اب میں اس کے انتظار میں رہنے لگی.
      صحت یابی کے بعد میں کچھ چڑچڑی ہو گئی تو ڈاکٹر نے ہدایت کی کہ میرے لئے روز شام کی سیر ضروری ہے..امی کہتی نوید کے ساتھ چلی جاؤ یوں میں نوید کے ہمراہ روز شام کو نزدیکی پارک میں چہل قدمی کو جانے لگی.
      انہی دنوں میرے لئے ددھیال سے ایک رشتہ آیا.نوید کو علم ہوا تو وہ بہت پریشان رہنے لگا. ایک روز اس نے اپنی پریشانی کا سبب بتا دیا کہ کنول میں تم سے شادی کا آرزو مند تھا اور اب بھی ہوں. خدارا کسی اور رشتے پر ہاں مت کر دینا.
      میں نے اس کو کوئی جواب نہ دیا، گھر آ کر خوب غوروفکر کیا. امی اور خالہ کی ناراضگی ہو چکی تھی تو کیا اب یہ رشتہ ممکن ہو سکے گا؟ یہ ایک غور طلب بات تھی. اگلے دن وہ آیا میں سیر کو نہ گئی کمرے سے ہی نہ نکلی. اس نے محسوس کیا کہ کنول مجھ سے ناراض ہے. وہ میرے کمرے میں آ گیا اور پوچھا کہ تم ٹھیک تو ہو. میں تمھارے لئے آتا ہوں اور تم کمرے سے باہر ہی نہیں آ رہی خیریت ہے؟
      میں چپ رہی جواب نہ پا کر بولا: اگر تم اسی طرح مجھ سے ناراض رہی تو میں مر جاؤں گا.
      مر جاؤ گے تو کیا، میری جان تو چھوٹے گی جانے کینونکر یہ الفاظ میرے منہ سے نکل گئے. اس کو بہت دکھ ہوا اور بغیر کچھ کہے وہ ہمارے گھر سے چلا گیا، کبھی نہ آنے کے لئے.
      نوید کے جانے کے بعد میرا دم گھٹنے لگا. اب سوچا کہ جو ہوا غلط ہوا. کیوں اس کے ساتھ اتنا برا روّیہ اختیار کر لیا. خود پر قابو نہ رکھ سکی تو خالہ جان کے گھر پر فون کر دیا. خدا کا شکر ہے نوید نے فون اٹھایا، ہیلو کہا تو آواز پہچان کر کہنے لگا، کہو کیوں فون کیا ہے؟ تم آتے کیوں نہیں؟ مجھے سیر کو جانا ہے.
      سیر یا چہل قدمی کو کیونکہ دونوں میں فرق ہے.
      جو سمجھو لیکن آ جاؤ، بلکہ ابھی، میرے لہجے کے والہانہ پن سے وہ بے اختیار ہو کر آ گیا اور اسے سامنے پا کر میں خوش ہو گئی. افسردگی کا جو دور پڑا ہوا تھا ختم ہو گیا اور میں خوش دلی سے اس کے ساتھ گفتگو کرنے لگی. تب اس کو اندازہ ہو گیا کہ میں اس کے لئے اور وہ میرے لئے نا گزیر ہیں.
      اس روز میں نے اقرار کر لیا کہ شادی اسی سے کروں گی، جو رشتہ زیر غور تھا میں نے اس سے انکار کر دیا اور نوید کو ہدایت کی کہ اپنی امی کو بھیج دو. اگلے روز خالہ ثریا آ گئیں.
      امی بہن کو سامنے دیکھ کر حیران ہوئیں. تب خالہ نے کہا.آپا.تم کلثوم کو میری بہو بنانا چاہتی تھی اور میں بھی یہی چاہتی تھی لیکن یہ سنجوگ قسمت میں نہیں تھا. کیونکہ جنید کسی اور لڑکی کے چکر میں پڑ گیا تھا لیکن نوید کا معاملہ ایسا نہیں ہے. وہ دل سے کنول کو چاہتا ہے، اس لئے میں پھر ایک بار تمہارے سامنے جھولی پھیلا رہی ہوں. خدارا انکار مت کرنا کنول کا رشتہ مجھے دے دو..
      یہ بھی میری بھانجی ہے، اس کو بہو بنا کر میری دلی آرزو پوری ہو جائے گی اور ہم بہنوں میں ایک بار پھر پیار کا وہ پل تعمیر ہو جائے گا جو جنید کے انکار کی وجہ سے عارضی طور پر ٹوٹ گیا ہے.
      یہ رشتہ اب نہیں ہو سکتا، میری کلثوم کو جو دکھ پہنچا اس کا کیا ہو گا، کیا وہ نہ سوچے گی ماں نے پھر سے خالہ کے ساتھ ناتا جوڑ لیا. تم جانتی ہو ٹھکرائے جانے کا دکھ؟ میری بڑی بیٹی کیا کم تھی یا چھوٹی زیادہ خوبصورت ہے، جو رشتہ لینے آ گئی ہو.
      آپا یہ بات نہیں ہے. جنید کی مرضی نہ تھی مگر نوید تو آپ لوگوں کا دیوانہ ہے. وہ دل سے مجبور ہے، خدا کے لئے انکار مت کیجئے.
      ہوا کرے ثریالیکن ہم دل سے مجبور نہیں ہیں. امی نے اپنا غصہ نکالا کیونکہ رشتہ ٹوٹنے کے بعد کلثوم آپی کافی دیر تک اپ سیٹرہی تھیں..خالہ مایوس لوٹ گئیں. جا کر نوید کو یہ بری خبر دی کہ تمہاری خالہ نے انکاد کر دیا ہے. وہ کسی طور نہیں مان رہیں . بولو اب کیا کرنا ہے.
      امی آپ مذاق تو نہیں کر رہیں. نوید کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا.
      میں سچ کہہ رہی ہوں. اس میں مذاق کی کونسی بات ہے. ان کا تم سے لگاؤ اپنی جگہ ہے لیکن رشتہ کا معاملہ اور طرح کا ہے. اس بات کو سنجیدگی سے لو.
      امی جان.. کسی طرح بھی خالہ کو منائیے ورنہ میں اس جہان سے چلا جاؤں گا. خدا نہ کرے. مریں تیرے دشمن.میں دوبارہ جاؤں گی. منت سماجت کروں گی.آخر کو میری بہن ہےمان جائے گی.
      خالہ دوبارہ آ گئیں اور رونے لگیں.خدارا مجھ کو خالی جھولی نہ لوٹاؤ، ورنہ یہیں پڑی رہوں گی اور جب تک تم ہاں نہ کرو گی اس در سے خالی نہیں جاؤں گی انہوں نے میری والدہ کے پاؤں پکڑ لئے. امی کا دل نرم ہو گیا. آخر کو دونوں بہنیں تھیں اور انکا پیار بھی بے مثال تھا.
      انہوں نے چھوٹی بہن کو گلے لگا لیا اور کہا کہ امید رکھو میں اپنی بڑی بیٹی کو منانے کی کوشش کروں گی.کلثوم کو منانا بہت ضروری ہے ورنہ یہ رشتہ نہ ہو سکے گا.
      امی نے باجی کلثوم کو بلوا کر بات کی کہ اس طرح تیری خالہ کنول کا رشتہ نوید کے لئے مانگ رہی ہیں..تمہاری کیا صلاح ہے؟.یہ سن کر آپا جذباتی ہو گئیں .دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں کہ امی جان.آپ پچھلی بات بھول گئی ہیںدوبارہ دھوکا کھانے جا رہی ہیں.اب ہرگز ان کو منہ نہیں لگانا. اگر آپ نے پھر ان کے ساتھ ناتا جوڑا تو میں کبھی آپ کے گھر نہ آؤں گی.یہ سمجھ لینا کہ کلثوم مر گئی.
      ایسی سخت بات سن کر امی دہل گئیں. ان کو بیٹی بہن سے زیادہ پیاری تھی. وعدہ کیا کہ وہ کلثوم کی مرضی کے خلاف خالہ سے رابطہ نہ رکھیں گی. میں نے آپا کی باتیں سن لیں، تو مجھ پر قیامت بیت گئی.آپا کو ٹھکرانا میرے بس کی بات نہ تھی. ان کا دکھ اپنی جگہ تھا، تب ہی میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کر کے خوب روئی.
      شام کو امی نے نوید کو فون کیا کہ ہماری طرف مت آنا.ورنہ کلثوم میرے گھے سے چلی جائے گی، اور میں بیٹی کو دوبارہ زخم نہیں دے سکتی، جو آپ لوگوں نے دئیے تھے
      جب نوید نے یہ بات سنی، اس کا برا حال ہوا اور وہ موٹر بائیک لے کر گھر سے نکل گیا..اتنی تیزی سے چلائی کہ ایکسیڈینٹ ہو گیا. لوگ اسے ہسپتال لے گئے. شکر ہے کہ جان بچ گئی. ثریا خالہ کو ہسپتال سے فون آیا کہ تمہارا بیٹا زخمی ہو گیا ہے اور زیر علاج ہے. وہ دیوانہ وار دوڑیں اور جب ڈاکٹر نے بتایا کہ اب حالت خطرے سے باہر ہے تو وہیں سجدے میں گر کر خالق کا شکر ادا کیا. فوراً گھر آ کر صدقہ دیا اور توبہ کی کہ اب کسی کا دل نہ دکھاؤں گی.
      امی، خالہ، نوید اور میں سب یہی چاہتے تھے کہ یہ رشتہ ہو جائے، مگر قدرت کو منظور نہیں تھا.آپا نے ایسی رکاوٹ ڈالی کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ بے دم ہو کر رہ گئے.
      امی کو ایک ترکیب سوجھی..خالہ کے سامنے ایک شرط رکھ دی کہ جس کو پورا کرنا دشوار تھا، کہا کہ میں اب تم لوگوں پر اعتبار نہیں کر سکتی. ہاں اگر میری بیٹی کے نام مکان لکھ دو تو رشتہ دے دوں گی..ماں نے یہ بات نوید کو بتائی..یہ شرط بھی ان کے لئے امید کی ایک کرن تھی. وہ امید کی اس کرن کے سہارے بہت کچھ کرنے کے لئے تیار ہو گیا.
      اس نے بھاگ دوڑ شروع کر دی اور سعودی عربیہ کا ویزا لینے میں کامیاب ہو گیا. پھر زیادہ کمانے کی آس لے کر سعودیہ چلا گیا تاکہ میرے لئے مکان خرید سکے..ادھر امی نے موقع غنیمت جانا اور میرا رشتہ طے کر دیا.
      سوائے صبر کے کوئی چارہ نہ رہا تھا.میں نوید کو بھی با خبر نہ کر سکی کیونکہ میرے پاس اس کا پتہ نہ تھا، ادھر جنید نہیں چاہتا تھا کہ رشتہ ہماری طرف ہو ، کیونکہ اسکی بیوی غیر خاندان کی تھی اور اس کو آپا اور جنید کی منگنی ٹوٹنے کا علم تھا. اگر میں ان کے گھر بھابھی بن کر جاتی تو جنید بھائی اور انکی بیوی کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہونے کا امکان تھا اور وہ اپنے ماضی کی داستان کو کھولنا نہیں چاہتے تھے.
      ان ساری بد نصیبیوں کے ساتھ میری شادی میرے پھوپھی زاد اکبر سے ہو گئی، وہ مجھے پسند بھی کرتے تھے لیکن مجھے علم نہ تھا. وہ اپنی امی کو کہتے رہے کہ کنول کا رشتہ مانگ لیں. پھوپھی تو ہم سے تعلق رکھنا نہ چاہتی تھیں، بیٹے کی وجہ سے مجبور ہو گئیں. یوں میں اکبر کی بیوی بن کر ان کے گھر آ گئی.
      چاہا تو مجھے نوید نے تھا پر میں اکبر کے نصیب میں تھی، ان کی دلہن بن گئی. وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے لیکن میرے دل میں نوید کی تصویر تھی، اس کی یاد مجھے ہر پل ستاتی تھی. ایک مشرقی عورت ہونے کی ناطے اپنے محبوب کی یاد کو سینے میں دفن کر دیا.
      ادھر خالہ نے نوید کو نہ بتایا کہ میری شادی ہو گئی ہے. سال بعد جب وہ گھر لوٹا تو ہمارے گھر بھی آیا. امی سے پوچھاکنول کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس کی شادی کر دی.
      یہ اطلاع نوید کے لئے نویدِ مرگ تھی مگر اس نے ضبط کیا اور شکوہ کیا کہ خالہ میں تو آپ کو ماں سمجھتا تھا. آپ نے مجھ سے دھوکا کیا. آپ کی شرط پوری کرنے کے لئے میں پردیس میں دن رات مزدوری کرتا رہا اور آپ میرا انتظار نہ کر سکیں. امی خاموش ہو گئیں. کیا جواب دیتیں جو ہونا تھا ہو چکا.
      انہی دنوں خالو فوت ہو گئے. یہ ایسا رشتہ تھا کہ ان کے گھر جانا تھا . سوائے آپا کلثوم کے ہم سب وہاں گئےنوید بہت افسردہ تھامجھے دیکھ کر بے اختیار میرے پاس آ گیا اور شکوہ کیا کہ تم بھی میرا ایک سال انتظار نہ کر سکیں.
      میں مجبور تھی. کچھ نہیں بول سکتی تھی لیکن ایک پل کے لئے بھی تم کو نہ بھلا سکی.
      تم اب بھی اپنے شوہر سے طلاق لے سکتی ہو. اگر مجھ سے محبت ہے تو طلاق لے لو..میں تم سے شادی کر لوں گا.
      نہیں نوید.شاید تم بھول رہے ہو کہ میں ایک مشرقی لڑکی ہوں، میں طلاق نہیں لے سکتی اور پھر تمہیں پتہ ہے کہ میں اپنی پھوپھی کی بہو ہوں. والد صاحب اس امر کو قبول نہیں کریں گے. اب ایسا کچھ ممکن نہیں ..یہ میرا حتمی جواب تھا.
      ایک ماہ بعد وہ واپس سعودی عربیہ لوٹ گیا اور پھر واپس نہیں آیا. سنا ہے کہ وہاں سے کسی اور ملک چلا گیا ہے. لیکن میں کہیں نہیں جا سکتی. میرا ایک گھر ہے، جس کا تقدس مجھے عزیز ہے. اب تو میں دو بیٹیوں کی ماں ہوں، مجھے اپنی اولاد کا مستقبل بھی عزیز ہے لہٰزا اپنے شوہر کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی جبکہ اکبر میرا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں.. بے شک نوید میرا پیار ہے مگر ہم دونوں اب اجنبی ہیں، کبھی ایک نہیں ہو سکتے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو میں کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی. اسی میں میری اور میرے بچوں کی عافیت اور بھلائی ہے.
      بے شک مجھ کو کبھی کبھی نوید کی بہت یاد ستاتی ہے مگر ہمارے مزہب میں شوہر کو دھوکا دینا حرام ہے لہٰزا میں جی چاہنے کے باوجود بھی نوید کے ساتھ رابطہ نہیں کروں گی. جب عورت اپنے خاوند کے سوا کسی اور مرد کے بارے میں سوچتی ہے تو سونے سے مٹی بن جاتی ہے.
      ایک بار میں بہت بیمار ہو گئی تھی. اتنی کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، اکبر نے ہمت نہ ہاری اور میرا علاج کرانے بیرون ملک لے گئے. روپیہ پانی کی طرح بہایا..
      خدا نے ان کے خلوص اور بچوں کی خاطر مجھے نئی زندگی اور شفاء دی تو میں نے دل سے عہد کیا کہ کبھی اکبر سے بے وفائی نہ کروں گی. ہمیشہ ان کی بن کر رہوں گی کیونکہ میرے رب کی یہی مرضی ہے.
      جو انسان اپنے خالق کی مرضی کے آگے سر جھکاتا ہےوہ دنیا میں سرخروہو جاتا ہے اور آخرت میں بھی، جبکہ تقدیر کے دھارے موڑنےکی چاہ میں اکثر ہم ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں.پس میں آج مطمئن ہوں کہ اپنے رب کی رضا پر راضی ہوں.


      Similar Threads:


    2. #2
      Respectable www.urdutehzeb.com/public_html KhUsHi's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Posts
      6,467
      Threads
      1838
      Thanks
      273
      Thanked 587 Times in 428 Posts
      Mentioned
      233 Post(s)
      Tagged
      4861 Thread(s)
      Rep Power
      198

      Re: .........اسے تقدیر کہتے ہیں

      Very nice
      Thanks for sharing






      اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
      پڑھنے میں سیکنڈ
      سوچنے میں منٹ
      سمجھنے میں دِن
      مگر

      ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے





    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •