فلسفی اور سائنسدان روز اول سے عقل و شعور پر سوچ بچار اور بحث کرتے چلے آئے ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف فلاسفہ اور سائنسی ماہرین نے شعور کے بارے میں بہت سے نظریات، افکار اور مفروضے پیش کیے مگر اس کی حتمی وسعت تک نہیں پہنچا جا سکا۔ فلسفہ اور سائنس تاحال شعور کی پہچان میں مصروف ہیں اور انسانی ذہن کی ترقی کے ساتھ اس حوالے سے اب بہت سی چیزیں واضح ہو رہی ہیں۔ جب کلاسیکی طبیعات کا خاتمہ ہوا اور کوانٹم میکانیات نے قدم جمائے تو شعور سے متعلق نظریات میں بھی تبدیلی پیدا ہوئی۔ اگرچہ کلاسیکی طبعیات سے پہلے بھی شعور کو ماورائے فطرت تصور کیا جاتا تھا لیکن کوانٹم میکانیات سامنے آئی تو شعور کے بارے میں بھی نئی تحقیق شروع ہو گئی۔کوانٹم میکانیات سائنس کی ایسی شاخ ہے جو توانائی اور مادے کا آپس میں تعلق پیدا کرتی ہے۔ تمام نظر آنے والی کائنات کا وجود مادی ہے اور اس میں پائی جانے والی حرکت توانائی کی بدولت ہے۔ مادی اجسام میں حرکت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونی والی تبدیلی کو طبعیات میں مکینیکس کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔ مکینیکس کی بنیاد پر طبعیات دو شاخوں میں منقسم ہے۔ جب جوہری اور زیر جوہری ذرات کی حرکت کا مسئلہ پیدا ہوا تو اسے کوانٹم مکینیکس کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں بعض ایسے مسائل بھی سامنے آئے جن کا حل کوانٹم مکینیکس سے بھی ممکن نہیں تھا چنانچہ اس کے لیے کوانٹم فیلڈ تھیوری پیش کی گئی۔ کوانٹم مکینیکس کی موجودگی میں شعور کے بارے میں نئی تحقیق کے امکانات کھل گئے۔سائنس دانوں کے ایک مکتبۂ فکر کا کہنا ہے کہ شعور کا کوانٹم مکینکس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ جسمانی و دماغی (مادی نامیاتی) ارتقا کی بدولت پیدا ہوا۔ دوسرے مکتبہ فکر کے مطابق ہمارا شعور کوانٹم لیول پر متاثر ہوتا ہے۔ ان دونوں نظریات سے انسانی اختیارو ارادے کے بارے میں بہت سے سوالات سامنے آتے ہیں۔ سائنس دانوں کا ایک گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انسان اختیار و ارادے میں آزاد ہے اس لیے کوانٹم سطح پر اس کا کنٹرول کسی اور ہاتھ میں ہونا ممکن نہیں۔ باالفاظ دیگر جب ایٹم باہم مل کر جسم بناتے ہیں تو ان کا تاثر کوانٹم لیول سے مختلف ہو جاتا ہے۔دوسرا گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کسی مافوق الفطرت ہستی سے جڑی ہے اور وہی ہمیں کنٹرول کرتی ہے کیونکہ کوانٹم لیول پر ہمارے زیر جوہری ذرات کائنات میں اپنے جیسے دوسرے زیر جوہری ذرات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ انسانی دماغ برقی سگنل وصول اور خارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اس کا اثر فوٹونز آپٹک نرو پہ پڑتا ہے جس کا ہر سیل ایک برقی سگنل خارج کرتا ہے۔ یہ تمام سگنل دماغ کے بنیادی خلیے یعنی نیورون کی طرف جاتے ہیں۔ ایک دماغ میں ایک سو بلین نیورونز ہوتے ہیں۔ یہ نیورون سگنل لینے کے بعد پراسیس کر کے انہیں آگے بھیج دیتے ہیں۔ یہ برقی سگنل مختلف اعضا میں پہنچ کر انہیں دماغی منشا کے مطابق عمل پر اکساتے ہیں۔ ہماری سوچ یا شعور ایک مربوط عصبی نظام کا نام ہے، جو ہمیں ہمہ وقت اپنے آپ سے آگاہ رکھتا ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو یہ ربط ٹوٹ جاتا ہے اور دماغ کے اندر پہلے سے موجود اطلاعات کے علاوہ کوئی بات نہیں پہنچتی۔ یہی نیند کی کیفیت ہے اور انہی محدود معلومات کو ہم خواب کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ ہماری کائنات لاتعداد ذرات پر مشتمل ایک بہت بڑا نان لینیئر ڈائنامک سسٹم (انحرافی حرکیاتی نظام) ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں آئے کسی فرد کو یوں نکال دیا جائے کہ اس کے آپ سے تعلق کا کوئی مادی ثبوت باقی نہ رہے اور اس کے باوجود آپ یہ دعویٰ کریں کہ آپ کی شخصیت وہی ہے جو اس فرد کی موجودگی سے تھی؟ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ فرد بھی ذرات کا ایک مجموعہ تھا جس نے آپ کے ذرات سے تعامل کیا جس سے دونوں کی حرکیات تبدیل ہو گئیں۔ چنانچہ سائنسی حوالے سے دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارا شعور ایک الگ چیز ہونے کے ساتھ ساتھ کسی اعتبار سے کائناتی شعور کے ساتھ بھی وابستہ ہے۔ (نیٹ نیوز)





Similar Threads: