میجر جنرل(ر) تجمل حسین ملک
اعلیٰ کمان کی بے خبری احکام کے مطابق ہم نے رات کے بارہ بجے یونٹ لائنز سے کوچ کیا۔ قریباً دس میل چلنے کے بعد ہربنس پورہ کے نزدیک میں نے بٹالین کو تھوڑی دیر سستانے کی غرض سے روک دیا۔ اس وقت صبح کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ بی آر بی تک پہنچنے کے لیے ہمیں چار میل کا فاصلہ مزید طے کرنا تھا۔ دوران وقفہ یونٹ کے سیکنڈ ان کمانڈ میجر نفیس الدین انصاری نے مجھے بتایا کہ انھوں نے گزشتہ رات بھارتی ریڈیو پر یہ شرانگیز خبر سنی، پاکستانی فوج نے امرتسر اور بعض دوسرے سرحدی مقامات پر بمباری کی ہے۔ہمارے نزدیک اس خبر میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا، شاید دشمن کوئی گڑبڑ کرنے کے لیے زمین ہموار کر رہا ہے۔میں نے کہا ’’ایسا ممکن ہے، لیکن ہمیں جو احکام ملے ہیں، ان کے مطابق ہم دفاعی مورچے بھی نہیں کھود سکتے جب تک کہ جی او سی اور بریگیڈ کمانڈر دونوں جگہ کا معائنہ کر کے اس کی منظوری نہ دیں۔‘‘ میں نے یہ جزئیات اس غرض سے بیان کی ہیں، ہماری اعلیٰ کمان دشمن کے منصوبے سے قطعی بے خبر تھی کہ وہ 6ستمبر کو صبح سویرے لاہور پر حملہ کرنے والا ہے۔ معاملے کا بدترین پہلو یہ ہے کہ دشمن کو اس چیز کا پوری طرح علم تھا کہ ہم نے حملے کی روک تھام کے لیے کوئی تیاری نہیں کی۔ بھارت کے کمانڈر انچیف جنرل چودھری (فاتح حیدر آباد دکن و گوا) نے جب یہ فرمان امروز جاری کیا کہ اس نے بعض افسروں کو آج شام چانچ بجے جم خانہ کلب، لاہور میں منعقد ہونے والی محفل رقص و سرود میں شرکت کی دعوت دی ہے، تو وہ قطعاً غلطی پر نہیں تھا۔اسے معلوم تھا کہ لاہور میں واہگہ اور راوی کے پل کے درمیان کوئی دفاعی لائن موجود نہیں، جو اس کی بڑھتی فوج کا راستہ روک سکے۔ اس علاقے میں سرحدی فوج کے جو چند چھوٹے موٹے دستے تعینات تھے، انھیں حملہ آور فوج کی قیادت کرنے والے ٹینک ذرا سی دیر میں نیست و نابود کر سکتے تھے۔ بھارتی فوج کی یلغار میری الفا کمپنی نے (جس کی کمان میجر انور حسین شاہ کر رہے تھے) پانچ ستمبر کی شام ڈوگرائی کے علاقے میں دفاعی پوزیشن سنبھال لی۔ انھیں بھی یہی ہدایت کی گئی کہ تاحکم ثانی مورچے نہ کھودیں، تاہم پوری طرح چوکس رہیں۔ 6ستمبر کو صبح ساڑھے پانچ بجے باقی بٹالین بھی اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ میں نے کمپنیوں کو ان کی طے کردہ دفاعی پوزیشن کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ میں نماز فجر پڑھ کر فارغ ہی ہوا تھا کہ بٹالین کے انٹیلی جنس افسر لیفٹنٹ خالد (بعدہ میجر جنرل) آئے اور کہنے لگے ’’سر بریگیڈ میجر نے ابھی ابھی فون پر اطلاع دی ہے کہ بھارتی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ پیش قدمی کرتے ہوئے وہ واہگہ بارڈر کی سرحدی چوکی نیز گونڈی پر قبضہ کر چکی۔ اب وہ لاہور کی طرف بڑھ رہی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی میں نے جسم میں جھرجھری سی محسوس کی۔ میرا سپاہیانہ جذبہ ایک دم بیدار ہو گیا۔ ایسے موقع پر مسلمان سپاہی محاذ جنگ پر جانے کی سوچتا ہے۔ جہاد کا اعلان سن کر اس کی کیفیت ہی کچھ اور ہو جاتی ہے اور وہاں تو حق و باطل کے درمیان سچ مچ کی لڑائی شروع ہو چکی تھی۔ میں نے انٹیلی جنس افسر کو حکم دیا کہ میری جیپ تیار کرائو، میں اگلے مورچوں کا معائنہ کرنے جائوں گا۔ دریں اثنا میں نے دوگانہ کے نفل ادا کیے۔ جہاد پر روانہ ہونے سے پہلے مسلمان سپاہی کے لیے دوگانہ نفلوں کی ادائی موجب اطمینان و تقویت ہوتی ہے۔ میں فرنٹ کی طرف روانہ ہونے والا تھا کہ فضا میں دشمن کے چھ طیارے نظر آئے جو ہماری پوزیشنوں پر سے ہوتے ہوئے لاہور کی طرف چلے گے۔ شاید یہ وہی بمبار طیارے تھے جنھوں نے 6ستمبر کی صبح سویرے گوجرانوالہ کے قریب ہماری ایک ریل گاڑی پر بمباری کی تھی۔ دشمن کی پیش قدمی دشمن کے 15ڈویژن نے جو چار بریگیڈ پر مشتمل تھا، واہگہ سیکٹر اور71ڈویژن نے جس میں مقررہ تعداد سے ایک بریگیڈ کم تھا، برکی سیکٹر میں پیش قدمی شروع کی۔ ان کے نزدیک واہگہ سیکٹر کی اہمیت بہت زیادہ تھی کیونکہ جی ٹی روڈ جیسی بڑی شاہراہ اس کے درمیان سے گزرتی ہے۔ پھر شالامار باغ پہنچنے کے بعد وہ محمود بوٹی بند تک پیش قدمی کرتے ہوئے شہر کے گنجان آباد علاقہ میں داخل ہوئے بغیر راوی پل پر قبضہ کر سکتے تھے۔ یوں لاہور چھائونی میں مقیم ہماری فوج گھیرے میں آجاتی۔اگر ہم لڑائی کے لیے تیار نہ ہوتے تو لاہور گیریژن کے محصور دستوںکو باہر سے کوئی کمک بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔ ڈویڑنل آرٹلری کی زیادہ تر یونٹیں اور22بریگیڈ (جو ریزرو میں تھا) 6ستمبر کو معمول کی پی ٹی اور پریڈ کرنے میں مصروف ہوتا۔ ادھر بی آر بی نہر کے کنارے ہماری اگلی پوزیشنوں پر حملہ ہو چکا تھا۔ لاہور گریژن کے زیادہ تر افسروں نے بھارتی حملے کی خبر ناشتہ کرتے ہوئے سنی۔ 15بلوچ رجمنٹ کی دو کمپنیاں معمول کی فائر پریکٹس کرنے رینچ پر گئی ہوئی تھی۔ انھیں فوراً واپسی کے احکام ملے۔میں نے بی کمپنی کے کمانڈر میجر محمد نواز کو جلوپل کے نزدیک لائن اور منہالہ برج کے درمیانی علاقہ کا دفاع کرنے کی ذمہ داری سونپی جو قریباً2000گز لمبا محاذ تھا۔ یہ کمپنی صبح چھ بجے کے قریب اپنی پوزیشن پر پہنچی تو انھیں ایک ہزارگز کے فاصلے پر دشمن کے دستے صف بندی کرتے نظر آئے۔ وہ حیران و ششدر رہ گئے کیونکہ دفاعی پوزیشنیں دشمن کے متوقع حملہ سے بہت پہلے بارودی سرنگیں بچھا اور مختلف قسم کی دوسری رکاوٹیں کھڑی کر کے تیار کی جاتی ہیں۔ ہماری حالت یہ تھی کہ نہ تو ہم مورچے کھود سکے تھے نہ ہی ہمارے پاس لڑائی کے لیے مطلوبہ اسلحہ تھا۔جوانوں کے پاس تھیلی (Pouch) میں موجود اسلحے سے زیادہ دیر تک لڑنا ممکن نہ تھا۔ کمپنی کمانڈر دلیر آدمی تھا، اس نے صورت حال کی سنگینی فوراً بھانپ لی۔ فائرنگ شروع کرنے کی خاطر اعلیٰ کمان سے اجازت لینے کے عام تکلفات پورے کرنے کا موقع نہیں تھا۔ اس نے توپ خانہ کے او پی (آبزویشن آفیسر) کو صورت حال سے مطلع کیا۔ او پی نے جلد ہدف کا پتا لگایا اور کمپنی کے دور تک مار کرنے والے ہتھیاروں سے دشمن پر فائرنگ شروع کرا دی۔ دشمن اس غیر متوقع شدید فائرنگ سے سٹ پٹا کے رہ گیا۔ انھیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ بی آر بی نہر کے علاقہ میں پاکستان کا ایک بھی فوجی موجود نہیں۔ اس ناگہانی فائر سے دشمن کے ہوش اڑ گئے،جس وقت میں بی کمپنی میں پہنچا دونوں طرف سے زبردست فائرنگ ہو رہی تھی۔ ہمارے جوانوں کے پاس وہی تھوڑا سا اسلحہ تھا جو وہ اپنی تھیلیوں میں لائے تھے۔ یونٹ کی گاڑیاں مزید اسلحہ لے کر روانہ ہوچکی تھیں، لیکن ان کے پہنچنے میں دیر تھی۔ اگر دشمن دبائو ڈالتا تو ہمارا اسلحہ جلد ختم ہو جاتا۔ تب جوانوں کو رائفلوں پر سنگینیں چڑھا کر لڑنا پڑتا جو جنگ کا آخری حربہ ہے۔ 6ستمبر کی صبح کو جنگ کا آغاز ہوا تو ہمارے جوانوں کے حوصلے بہت بلند تھے۔ ان میں کسی قسم کا خوف و ہراس تھا نہ مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھنے کی فرصت۔ وہ مضبوطی سے اپنی اپنی پوزیشن پر ڈٹ گئے اور دشمن کے پہلے اچانک حملہ کو ناکام بنا دیا۔بی کمپنی کی پوزیشن قدرے مستحکم ہو گئی تو میں نے بٹالین کے محاذ کامعائنہ کیا جو بی آر بی نہر کے ساتھ ساتھ قریباً پانچ میل تک پھیلاہوا تھا۔ ہمارے علاقے میں نہر پر چھے پل تھے۔ اگلی کمپنیوں نے نہر کے دونوں کناروں پر پوزیشنیں لے رکھی تھیں۔ جلو پل پر منہ کی کھانے کے بعد دشمن نے جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ بڑھنا شروع کیا۔ آگے آگے ٹینک اور ان کے پیچھے پیدل دستے۔ واہگہ پوسٹ اور باٹا پور برج کے درمیان قریباً سات میل کا فاصلہ ہے۔ واہگہ پر وہ پہلے ہی قبضہ کر چکے تھے۔ سرحدی پٹی میں رہنے والے لوگ دشمن کے ممکنہ حملہ سے خبردار نہیں تھے۔ وہ حسب معمول اٹھے اور معمول کی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ ناگہاں دشمن کے ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ سنی اور خود کو چاروں طرف سے دشمن کے نرغہ میں پایا تو سب کچھ چھوڑ کر لاہور کی طرف سرپٹ بھاگ اٹھے۔ (جاری ہے
Similar Threads:
Bookmarks