waaahhhhhhhh......kya baat hai boht hi mazedaaar likha Momo.......
!!!مفت ہاتھ لگے تو برائی کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجب جنگ کا سا سماں تھا۔ہر ایک اپنی بساط ،طاقت اور کوشش کے مطابق گھتی گھتم تھا۔چمچوں سے چمچے ،پلیٹوں سے پلیٹیں،ڈونگوںسے ڈونگے حسبِ توفیق سر پھُٹّوّر کرتے نظرآرہے تھے۔میں دور کھڑی ان تمام مہذب ،پڑھے لکھے ،اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عقل و شعور سے مالامال لوگوں کا مشاہدہ کررہی تھی،جو اِس وقت کھانے کے حصول کے لئے ایک دوجے ،برتنوں اور کھانے سے برسرِ پیکار تھے اور کسی طور بھی اپنی اپنی حیثیتوں میں مانے جانے کے قابل نہ تھے۔۔۔۔۔!!!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں ایک طویل عرصے بعد کسی تقریب میں شریک تھی اور وہ بھی باوجوہ مجبوری و زبردستی ۔ہمسایوں کی بیٹی کا ولیمہ تھا اور اماں ناسازی¿ِ طبع کے باعث شرکت سے قاصر تھیں،سو چارو ناچار مجھے چھوٹے مرزا صاحب کے ساتھ ولیمے کی تقریب میں شرکت کی زحمت اٹھانی پڑی۔۔۔!!!
چونکہ ولیمے کی تقریب تھی اِس لئے سب بے حد آرام و سکون سے رات دس بجے روانہ ہوئے۔وہ اِس لئے کہ بارہ بجے ہال بند ہوجاتے ہیں۔ہال پہنچنے کے بعد صورتحال انتہائی پرسکون تھی۔رنگوں کی بہار تھی،چوڑیوں کی جھنکار تھی اور مچھروںکی پھٹکار تھی۔۔۔۔!!!
تقریب میں شریک ہرفرد اپنے آپ کو دوسروں سے جدا ،بے حد وضع قطع اور ادب و آداب سے مزین شخصیت کا حامل ثابت کرنے پر تُلا ہواتھا۔حتٰی کہ اپنے مخاطب سے اردو بھی انگریزی لہجے میں بولی جارہی تھی تاکہ اپنی علمی قابلیت کا رُعب جھاڑا جاسکے۔۔۔۔!!!
اسی دوران ایک بے حد نفیس شخصیت کے حامل صاحب اور صاحبہ نے تمام مہمانوں کو مخاطب کرکے کہا”معزز مہمانانِ گرامی! آئیے بسم اللہ کیجیئے۔۔۔۔!!!“
بس پھر کیا تھا۔ایک طوفان ِ ذخیرہ اندوزی تھا جو ہر ایک میز سے اٹھا اور کھانے پر یوں ٹوٹ پڑا جیسے میٹھے پر مکھیاں ،جیسے کسی معصوم شاگرد پر ظالم استاد،جیسے کسی بے قصور مجرم کی پولیس اہلکار مل کر تواضع کریں۔کہیں کوئی پہلے میں کی کوشش میں دوسرے سے چمچہ جھپٹنے کی جستجو میں تھا اور وہ بندہ کہ جس کے ہاتھ میں پہلے ہی سے چمچہ موجود تھا اپنی پلیٹ کو اس خیال کے تحت بھرے چلا جا رہا تھا کہ کھا لیتے ہیں بھائی ،پھر نہ جانے کب ایسا موقع نصیب ہو ۔تو کوئی پلیٹیں بھر لینے کے بعد انھیں گھر والوں تک پہنچانے کی فکر میں ہلکان ہو رہا تھا۔۔۔۔!!!
ایک صاحب جن کے پیٹ میں آنت بھلے ہی ہو لیکن منہ میں دانت ہرگز نہ تھے،اپنی پلیٹ کو چکن روسٹ سے یوں آراستہ و پیراستہ کر رہے تھے کہ جیسے انھیں پہلی بار یہ نعمت نصیب ہورہی ہے اوروہ آج ساری زندگی کی محرومی کا حساب چُکتا کر کے ہی دم لیں گے۔سلاد جو کچھ دیر قبل بڑی ہی نفاست اور سلیقے سے سجی ہوئی تھی،اب کچھ یوں بکھری پڑی تھی جیسے ابھی ابھی امریکی فضائیہ نے اس پر بمباری کی ہے ،جس کے
نتیجے میں سلاد کا ملبہ طول و عرض میں پھیل گیا ہے۔۔۔۔!!!
کسی نے ڈونگے بھر بھر رائتہ ایسے حاصل کیا کہ جیسے بریانی کو رائتے میں نہلانے کا ارادہ رکھتے ہوں ،تو کسی نے سیخ کباب ،کچوریوں اور آلو چھولوں کی بھاجی پر اس طرح ہاتھ صاف کئے کہ اگلے دن کا ناشتہ بھی آج ہی رات کے کھانے کے ساتھ تناول فرمالیں گے۔۔۔۔!!!
مٹن کڑاھی کو چکھنے کے خیال سے نان کی ڈھیریاں بھی اپنے پاس لگائی گئیں۔میٹھا تو ایسے ندارُد ہوا جیسے پاکستانی سیاست دانوں و حکمرانوں میں سے ایمانداری کی صفت نادر و نایاب ہوتے ہوتے ناپید ہی ہوگئی ہے۔۔۔!!!
اِس سارے کارِ ذخیرہ اندوزی میں صرف حضرات ہی نہیںخیر سے خواتین بھی شانہ بشانہ شریک تھیں۔آخر کو انھیں بھی اپنے آپ کو باہنر اور با صلاحیت ثابت کرنے کا خبط ہے اور یہ منوانے کی ضد کہ ہم کسی سے کم نہیں،کم نہیں۔۔۔۔!!!
ایک خاتون کو کھانے کی تمام ڈشز اپنی میز پر جمع کرتے دیکھ کر مجھے وہ چینٹیاں بے ساختہ یاد آئیں جو سردیوں کے موسم کی آمد سے قبل بڑی محنت و مشقت سے اپنے اپنے بلوں میں اناج ذخیرہ کرلیتی ہیں اور پھر تمام سردیاں اسی پر گزر اوقات کرتی ہیں۔کولڈ ڈرنکس تو ایسے غائب ہوئیں جیسے شادی ہال میں کبھی لائی ہی نہیں گئی تھیں۔میز کے گرد اتنے لوگ نہیں تھے جتنی میز پر کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلیں منہ چڑا رہی تھیں۔ایک بچہ ہاتھوں پیروں سب سے بوتلیں تھامے مزید کے حصول میں سرگرداں تھا۔۔۔۔!!!
ہماری اماں حضور نے ہمیں سب کچھ سکھایالیکن اس طرح جنگ و جدل کے ساتھ غذا کے حصول کے ہنر سے نا آشنا رکھا ۔سو میں اور چھوٹے مرزا صاحب ایک جانب کھڑے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ہمیں یوں ساکت و جامد کھڑے دیکھ کر ہماری ہمسائی (جن کی بیٹی کا ولیمہ تھا) نے ٹوکا”تم دونوں ایسے کیوں کھڑے ہو،کھانا کیوں نہیں کھا رہے ہو۔۔؟“میں نے کھانے کی میزوں کی طرف اشارہ کرکے کہا
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔!!!
ہمسائی ہنس دیں اورہمیں اپنے ساتھ اپنی نشست تک لے گئیں جہاں میز پر بڑے سلیقے اور قرینے سے چنا ہواتھااور کہا ”چلو تم دونوں ہمارے ساتھ کھانا کھالو۔۔۔۔۔!!!“
کچھ وقت گزرنے کے بعد میں نے اک نگاہ کھانے کی میزوں کی طرف دوڑائی،جہاں اب بھیڑ چھٹ چکی تھی اور اِکا دُکا افراد گاہے بگاہے آجا رہے تھے۔یہ دیکھ کر میرا افسوس مزید بڑھ گیا کہ ہوس خوروں ،ذخیرہ اندوزوں کی کاروائی کے دوران بہت سا کھانا ڈشسز سے باہر گرا ہوا تھا،جو ظاہر ہے کسی نے کھانا نہیں تھا ،سو ایک ضیا ع یہ بھی ہوا۔۔۔۔!!!
یہ مناظر نئے نہیں۔اِس طرح کے مناظر اکثر تقاریب میں دیکھنے کو ملتے ہی رہتے ہیں۔مانا کہ ربِ کائنات نے رزق پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے عطا کیا ہے لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز بھی نہیں ہے کہ اگر آ پ کے سامنے رکھا کھانا ،آپ کے اپنے پیسوں سے تیار نہیں کیا گیا ہے تو
اُس کے ساتھ مالِ غنیمت کاسا برتاو¿ کیا جائے۔۔۔۔!!!
ہم نہ جانے کیوں سوچتے نہیں کہ ضرورت سے زیادہ کھانا پلیٹوں میں نکال کر آدھے سے زیادہ یونہی چھوڑ دینے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ کھانا اتنا ہی پلیٹ میں نکالیں جتنا کھا سکیں۔جو رزق برباد ہونے سے بچے گا ،اُس سے کتنے ہی غریبوں،مسکینوںاور بھوکوں کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے اور انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کیا جاسکتا ہے۔۔ہم یہ نہیں سوچتے ،کبھی نہیں سوچتے۔سوچیں بھی کیوں کہ اِ س کام میں دماغ خرچ ہوتا ہے اور وہ بھی ذاتی ،کسی دوسرے کا نہیں۔۔۔۔!!!
پاکستان کے دوسرے شہروں کی بابت معلوم نہیںلیکن کراچی میں آج کل ایک نیا طریقہ¿ِ کار وبا کی طرح پھیلا ہوا ہے۔اگر آپ نے تقریب کا اہتمام گھر کے بجائے کسی ہال میں کیا ہے تو کھانا کھُلنے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر ویٹر آکر آپ سے کہے گا کہ”صاحب ! کھاناختم ہوگیا ہے۔۔۔!“
اگر آپ تھوڑے غصیلے اور طاقتور ہیں تو آپ کے ہاتھ سے ویٹر کو پڑنے والا ایک زناٹے دار تھپڑ ختم ہوچکا کھانا برآمد کروالیتا ہے اور اگر طاقتور نہیں ہیں توپھر آپ کو مہمانوں کے سامنے سُبکی سے بچنے کے لئے،مزید کھانے کا فوری انتظام کرنے کی تگ و دو میں جُتنا پڑتا ہے۔آپ کی تقریب سے اچانک ختم ہوچکا کھانا اگلے دن اُسی شادی ہال میں فروخت ہورہا ہوتا ہے۔۔۔!!!
اللہ سے ڈر،اللہ کا خوف ،کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ،اللہ کریم سب دیکھ رہے ہیں ،انھیں سب خبر ہے،ایمان کی مضبوطی کا ضامن ہوتا ہے۔آج کے انسانوں کا حال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر سے یہ ڈر ،یہ خوف ،یہ حیا ختم ہی ہوچکی ہے ،شاید اسی لئے ہم اتنی بے ایمانیاں بلا خوف و خطر ،انتہا ئی سہولت سے کر جاتے ہیں۔۔۔۔!!!
کب،نہ جانے کب ہم دنیا پرستی چھوڑ کر آخرت کی تیاری پر دھیان دیں گے۔نہ جانے کب ہم دوبارہ اِس قابل ہوسکیں گے کہ اپنے ایمان کی پختگی کی بدولت پہچانے اور گردانے جائیں ۔نہ جانے کب باتوں کے محل تعمیر کرنا چھوڑ کر نیک اعمال کی آبیاری کرنا شروع کریں گے اور نہ جانے کب اپنی عزت اپنے آباءکی طرح کروانے کے قابل ہوسکیں گے۔کون جانے کہ !!کبھی ہو بھی سکیں گے یا نہیں،کون جانے۔۔۔۔
مامن مرزا
Similar Threads:
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
waaahhhhhhhh......kya baat hai boht hi mazedaaar likha Momo.......
bht karwi bat aap ne bht saleeqe se kahi logon ko aaina b dikha dia auraun k honton p muskurahat b bikher di ........... sahi kaha aap ne jitna kahan shadion ma zaya kia jata hai aur woh b parhe likhe muhazzab logon k hathon us ka hisab Allah ko dena hame bas ki bat nhi her shakhs apne tor p hi qadam utha le aur rizq ki qadar kar le tab hi kuch ho sakta werna to shadion ma khana hi nhi hona chahye
Haan yaar, waqie me mal e ghanmeet mil gaia ho toot party haien sb...
jasy shyd pehly kbhi khana mila nahi hy
ya aj k baad mily ga nahi
khany ka zaya wo alag sy...
bohat acha likha aap ny
aur jo hotel ki managment ka qissa k khana khatm ho gaia bht he afsoosnak, koi shuba aisa nahi jaha by emani na ho rahi ho
ایک یہی تو فن سیکھا ہے ہم نے
جس سے ملیے اسے خفا کیجے
ہے تفاخر میری طبیعت کا
ہر ایک کو چراغ پا کیجے
میری عادت ہے روٹھ جانے کی
آپ مجہھے منا لیا کیجے
Alaa..............................!!!
Aisay Nazaray to Waqai dekhnay ko miltay hein. Lekin aap ki bayan kardah hakayat Lajawab hay...Tashbehaat to behad kamaal thein....
Thanks for sharing such a "Jangi Waleema" with us.
Y sari entertainment shadion mai na milay to maza kia hai :-p
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks