SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 10 of 10

    Thread: Maa'n(ماں)

    1. #1
      UT Writer www.urdutehzeb.com/public_html Lost Passenger's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      30
      Threads
      10
      Thanks
      7
      Thanked 13 Times in 9 Posts
      Mentioned
      2 Post(s)
      Tagged
      3342 Thread(s)
      Rep Power
      0

      Maa'n(ماں)


      Assalam-o-Alaikum

      Yad tu mai'n apni Maa ko roz hi kerta hoo'n laikin aaj buhat shidet de yad aai tu is hawaley se ek khas sharing ley ker hazir huwa hoo'n ager aap log bhi Maa k liye apney aehsasat yahaa'n share krai'n aur Maa ko khiraj-e-Tehseen paish krai'n tu mai'n aap sub ka intihai mashkoor hoo'n ga

      Maa'n


      Allah ki sub se bari naimat wo hasti jisey sub Maa kehtey hai'n aur wo ab mairey pas nahi is shiddet se yad aai k na sirf mairi aankhai'n num ho gai'n bel k aansoo ankhoo'n ki hadood tor ker beh nikley tu dair talak yad'dasht ki kudal se mazi ki qaber khod'ta raha aur usey khojta raha tu kuch nigarshat aisi nazer se guzri'n jo dil k buhat qareeb mehsoos hui'n tu aap k samney ley ker hazir ho gaya k shayed jin k pas ye naimat mojoud hey Maa ki qader karai'n


      ماں

      ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش


      میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے






      ایسی ہستی کے بارے میں جو احترام و ادب،محبت و عشق اور جنوں کی حدوں کو پہنچی ہو اسکے بارے میں کچھ لکھنے کےلئے الفاظ ڈھونڈنا اور پھر استعمال کرنا بہت مشکل کام ہے


      ماں کے لئے لکھنے بیٹھا تو بہت دیر تلک ایک جملہ ہی نہ بن پایا یہی سوچتا رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم پھر جو ذہن میں آتا گیا اسے تحریر کرتا چلا گیا دل بہت بوجھل ہو گیا اور آنکھ بھر آئی کیونکہ ماں ہی وہ ٹھنڈی چھاں ہے جس کے شفیق اور مہربان سائے تلے آکر اسیا لگتا ہے جیسے تپتی دوپہر میں سایہ مل گیا ہو اور ماں کی دعائیں ہی انسان کو کامیاب بناتی ہیں


      سب مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور ان کی دعائیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں گھر کی دہلیز کے ادنر قدم رکھتے ہوئے ٹھنڈک اور طمانیت کا احساس ماں کے وجود سے ہی ہوتا ہے اسی لئے ماں سے توٹ کر محبت کرنے والے کہتے ہیں کہ


      ”ماں کی دعا ،جنت کی ہوا“




      ہر انسان کی کامرانیوں کے پیچھے انکی ماں کی طاقتور دعائیں ہوتی ہیں کیونکہ ماں کی گود اور اس کا فیضان و طمانیت کی بانہوں میں سمیٹے رکھتا ہے ،


      ماں کی شان کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ دو جہانوں کے رب نے ماں کو اس معراج تک پہنچایا کہ جنت اس کے قدموں تلے رکھ دیاور نبی کریم(ص) نے فرمایا کہ


      ”ماں باپ کے چہرے پر ایک نگاہ ڈالنا ایک حج اکبر کے برابر ہے،جتنی بار ماں باپ کے چہرے کی جانب دیکھو سمجھو تم نے اتنی بار حج ادا کیا“


      شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ


      ”ماں کی*کوشنودی دنیا میں باعث دولت اور آخرت میں باعث نجات ہے“
      ماں ایک ایسا پختہ مقدس اور دائمی رشتہ ہے جس سے بڑا تعلق پوری دنیا میں نہیں کیونکہ
      ماں
      شفقتوں،محبتوں،ٹھنڈکوں،بہا روں،خوشبوئوں،اور راحتوں کا استعمارہ ،راہنمائی و روشنی کی علامت ہے


      ہر گھر چونکہ ماں کی محبت و شفقت بے پایاں سے معمور ہوتا ہے اس لئے تقریبا ہر گھر میں اولاد اپنی والدہ ماجدہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے اور جن کیمائیں اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں ان مسلمانوں کےلئے اللہ تعالی نے یہ عظیم نعمت عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے آگے گئے ہوئے پیاروں کی بخشش و مغفرت کےلئے ایصال* ثواب کر کے ان پر جنت الفردوس کے دروازے کھل جانے کا سبب بن سکتے ہیں ،کہتے ہیں مسلمان نیک اولاد اسی لئے مانگتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں وفات پا جانے والے والدین اور دیگر پیاروں کی بخشش و مغفرت کےلئے دعا کر سکیں
      یہ احساس ہی اولاد کو کرب میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اس کےلئے شب و روز دعائیں مانگنے والی ہستی خاک نشین ہو چکی ہے اس کی آمد کی منتظر نگاہیں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بندہو چکی ہیں


      جب بھی کسی ماں کی دنیا سے رخصت ہونے کی خبر سنتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ رحمتوں ،برکتوں اور دعائوں کی یہ آغوش ہم سے چھن گئی تھی ماں جی کے دنیا سے منہ موڑ جانے کے بعدمجھے اپنا دل و دماغ ہی نہیں بلکہ اپنا وجود بھی ریزہ ریزہ پوتا محسوس ہوا ایسا لگا کہ دنیا ختم ہو گئی ہے وہ ایسے وقت رخصت ہوئی جب میں پوری طرح اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہوا اور نہ ہی اس قابل تھا کہ ان کی خدمت کر سکوں،کوئی سوچ سمجھ ہی نہیں تھی لیکن ان کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ جس گھر میں ماں نہیں ہوتی وہ گھر گھر نہیں صرف مکان ہوتا ہے کیونکہ گھر رشتوں سے بنتے ہیں اور رشتوں کی لڑی اس وقت تک ہی جڑی رہتی ہے جب تک سارے رشتوں کو جوڑنے والی ڈور سلامت رہی سارے رشتوں کا اس وقت ہی اندازہ ہوا جب وہ ہم میں نہین تھی وہ بظاہر تو ہم سے دور چلی گئی لیکن ان کی دعائوں کا سلسلہ اسی طرح میرے ساتھ رہا بس یہی افسوس ہے کہ ہم ان کی خدمت نہیں کر سکے
      دوستوں بہت اچھا لگتا ہے جب ہم کسی کو اپنی ماں کو”ماں جی“والدہ“یا امی جان کہہ کر بلاتے ہیں یا دیکھتے ہیں
      اور خدمت کرتے ہوئے دیکھں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے کیونکہ ان الفاظ میں جو مٹھاس اور خوبصورتی ہے وہ دوسرے لفظوں میں نہیں لیکن دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کی بہت خدمت کی ہے جبکہ میرے نزدیک ماں کی خدمت کرنے،خیال رکھنے اور اسے ہر طرح کا سکون و اطمنیان بہم پہنچانے کا دعوی کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بلا شبہ”ہم اپنی ماں کی ایک رات کی خدمت کا قرض ہی نہیں چکا سکتے جب وہ خود گیلے بستر پر سوتی ہے اور ہمیں خشک جگہ پر سلاتی ہے
      دوستوں
      آئو عہد کریں کہ وہ تمام لوگ جن کی ٹھنڈی چھائین موجود ہیں وہ اسکی ٹھنڈک کو اپنی روحوں میں اتاریں اور جن کی مائیں آسودہ خاک ہیں وہ ان سے روحانی فیض حاصل کریں اور یہ دعا کریں کہ
      آسمان ان کی لحد پہ شبنم اشفانی کرے
      کیونکہ افراتفری اور انتشار کے عالم میں اگر کہیں پناہ ملتی ہے تو وہ*خدا کی بارگاہ ہے یا ماں کی دعا ہے یہ ماں ہی ہے جس کے دل سے نکلی ہوئی دعا کبھی در نہیں ہوتی اور عرش بریں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ماں سے محبت کا اظہار کرنے کےلئے صرف ایک دن کو ہی مخصوص نہیں ہونا چاہیئے بلکہ وقتا فوقتا اس عمل کو جاری رکھنا ہم سب کا فرض ہے کیونکہ ماں جیسی ہستی دوبارہ نہیں ملتی


      اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جن کی مائیں زندہ ہیں وہ انہیں ان کی خدمت اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ جو اس ہستی سے محروم ہو چکے ہیں انہیں صبر و جمیل عطا فرماتے ہوئے انہیں اپنے نیک اعمال کے ذریعے ثواب پہنچانے کی ہمت فرمائے آمین ثم آمین


      ماں کے نام


      موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
      تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں


      فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں


      نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں


      اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن


      چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں


      روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے


      چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں


      اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح


      اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں


      گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر


      ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں


      دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی


      پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں


      لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم


      ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں


      وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر


      اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں


      پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے


      کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں


      سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو


      ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں


      Aur Zindagi ka ek rukh ye bhi hey aur jo intihai taklieaf deh hey laikin ye haqiqet hey k is dunia mai'n aaj kal logoo'n k pas apney Maa Bap ko dainey k liye waqt hi nahi hey baz Maa Bap k pas honey k bawajoud bhi un ki khidmet nahi kertey tu baaz ko talash-e-moash unhai'n Maa Bap ki muhabbet bhari chaoo'n se dor ker daiti hey donoo'n sourtoo'n mai'n jeetey ji dukh Maa bap hi uthatey hai'n, Ulad tu un k guzar janey k baad un ki qader kerti hey koi maney ya na maney laikin ye haqiqet hey laikin ye itna kerwa sach hey k hum isey baya'n kertey huwey katratey hai'n,Allah hum sub k hal pe rehem fermaye aur Maa Bap ki sidq-e-dil se khidmet ker k jannet kamaney ki toufique ata fermaye,Ameen


      زیادہ دن نہیں گزرے
      کہ میری گود کی گرمی تجھے آرام دیتی تھی
      گلے میں میری
      بانہیں ڈال کر تو اسطرح سوتا تھا
      کہ اکثر ساری رات میری
      اک کروٹ میں گزر جاتی
      میرے دامن کو پکڑے
      گھر میں تتلی کی طرح گھومتا پھرتا
      (اور اب)
      تیری دنیا میں اب ہر پل
      نئے لوگوں کی آمد ہے
      میں بے حد خاموشی سے
      ان کی جگہیں خالی کرتی جا رہی ہوں
      تیرا چہرہ نکھرتا جا رہا ہے
      میں پس منظر میں ہوتی جا رہی ہوں
      زیادہ دن نہ گزریں گے
      میرے ہاتھوں کی یہ دھیمی حرارت
      تجھے کافی نہ ہوگی
      کوئی خوش لمس دست یاسمین آکر
      گلابی رنگ کی حدت تیرے ہاتھوں میں سمو دیگا
      میرا دل تجھکو کھو دیگا
      میں باقی عمر تیرا رستہ تکتی رہوں گی
      میں “ماں” ہوں
      اور میری قسمت”جدائی” ہے


      اور اس صدی کی ماں جدائی کی کون کون سی صورتیں نہیں جانتی. ایک جدائی یہ جدائی ہے جو ایدھی ہوم کے ان بھاری بھرکم آہنی دیواروں کے اس پار جدائی ہے اور ایک جدائی وہ جو یورپ سے آتی ہوائیں ان مشرقی دھندھلکوں میں لپٹی صبحوں کے لئے لاتی ہے. بغیر مستقبل، روشن مستقبل کی تلاش میں لاکھوں نوجوان راھی ملک عدم ہوئے اور بوڑھے ماں باپ کے لئے مہنگے صابن / پرفیوم چاکلیٹ اور دواؤں کے اخراجات باقاعدگی سے بھیجتے ہیں. بوڑھے باپ ہر صبح کو اس انتظار میں شام میں ڈھال دیتے ہیں کہ بس اب کچھ ہی دن ہیں کہ لخت جگر آتا ہی ہوگا پھر اس صحں میں ننھے معصوم پوتی پوتوں کی کلکاریاں گونجیں گی جہاں اب اداسی بال کھولے سوتی رہتی ہے اور اکثر تو وہ “نور العین” ہر وقت فلائیٹ نہ ملنے کے سبب ماں یا باپ کو کاندھا دینے کی سعادت سے بھی محروم رہ جاتا ہے.
      تائی اماں دو عشروں سے دیار غیر میں بیٹھے اپنے بیٹے کی منتظر تھیں. ہر دوسری بات میں اسکا ذکر کرتی تھیں کہ اس ذکر سے نہ معلوم انکی ممتا کو نہ معلوم کیسی ٹھنڈک ملتی تھی. اور آخری دنوں میں انھوں نے دوائیں اٹھا کر پھینکنا شروع کر دی تھیں پانی سے بھرا گلاس دھڑ سے زمیں پر مار دیتیں کہ “ایا کو کہو وہ آئیگا تو دوا کھاؤنگی “(وہ پیار سے اکلوتے بیٹے کو ایا کہتے تھے) اور انکا نواسہ پرنم آنکھوں سے کہہ رہا تھا کہ ” خالہ آپ نے دیکھا تھا نہ نانی کا چہرہ مرنے کے بعد بھی سیدھا نہ جا سکا دائیں سمت ہی رہا کیونکہ وہ مسلسل دائیں سمت ہی دیکھا کرتیں تھیں. پھر تو دروازے سے نظریں ہی نہ ہٹاتی تھیں کہ دیکھو ایا آگیا ہے. اس سے قبل جب نانا جان کا انتقال ہوا تو نانی اماں کی کتنی بڑی خواہش تھی کہ ماموں انکو کاندھا دیں مگر ماموں جان کو کبھی رخصت ہی نہ مل سکی ” اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر ایک تلخ حقیقت بیان کی جو اب ہر گھر کی کہانی ہے بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے.
      حضرت ابو ہریرہ شدید خواہش کے باوجود حج جیسے فریضے کے لئے تشریف نہ لے گئے جبکہ صحت بھی اچھی تھی اور سامان سفر بھی پاس تھا. حج کی اتنی شدید خواہش کہ حج کے کاروانوں کو خدا حافظ کہنے دور تک انکے ساتھ جاتے. حسرت سے انہیں دیکھتے اور دعاؤں کی درخواست کر کے واپس پلٹ آتے. لوگ دریافت کرتے کہ شدید تڑ پ کے باوجود وہ کیوں حج کی سعادت حاصل نہیں کرتے وہ کہتے ” میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ بوڑھی ماں کو ایک دن بھی تنہا چھوڑوں” اور اس برس لوگوں نے دیکھا تھا کہ حج میں ابو ہریرہ بھی شامل ہیں کسی کے دریافت کرنے پر فرمایا ” کعبہ دل اجڑ گیا ہے اور کعبۃ اللہ میں ہی تسکین دل رہ گئی ہے” ماں کے بچھڑنے کا سوز و گداز گویا انکے وجود کا حصہ نظر آرھا تھا. اسلامی تاریخ ایسے بی شمار نقوش سے منور ہے. خود نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ” اگر میری ماں زندہ ہوتیں اور نماز میں مجھے پکارتیں “اے محمد” تو میں نماز توڑ کر انکی خدمت میں حاضر ہوتا ” آپٌ کی عادت تھی جب حلیمہ سعدیہ تشریف لاتیں تو آپ میری ماں میری ماں کہہ کر انکی طرف لپکتے، اپنی رضاعی ماں کی انتہائی تکریم فرماتے، اپنی چادر انکے لئے بچھاتے۔
      رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحآبہ کرام کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ اویس قرنی جب مدینہ تشریف لائیں تو انسے دعا کی درخواست کرنا۔ کیونکہ اویس قرنی اپنی ماں کی شب و روز خدمت کی وجہ سے خدائے اقدس میں حاضری سے مھروم رہے۔ لیکن اس خدمت کا صلہ یہ ہے کہ اللہ کے نبیٌ نے صحابہ کو یہ وصیت کی کہ اگر اویس قرنی سے ملو تو اپنے لئے دعا کی درخواست ضرور کرنا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ہر سال حج کے موقع پر یہ منادی کراتے کہ یمن کے قبیلے قرن سے تعلق رکھنے والے اویس قرنی موجود ہوں تو انہیں اطلاع دی جائے۔ ایک سال وہ حج کے لئے تشریف لائے تو حضرت عمر فاروق نے حضور اکرمٌ کی وصیت پوری کی اور انسے دعا کی درخواست کی۔ سبحان اللہ، یہ ہے اس قیمتی متاع اور گنج گراں مایہ کی خدمت کا صلہ۔
      روایات میں ہے کہ ایک موقع پر موسٰی کلیم اللہ نے اللہ سے سوال کیا کہ “جنت میں میرا رفیق کون ہے” جواب ملا ایک قصاب جو فلاں بستی میں رہتا ہے –حضرت موسٰی نے بہت کوشش سے اسے تلاش کیا کہ وہ ایسا کیا عمل کرتا ہے جو اللہ کو اتنا محبوب ہے؟ حضرت موسٰی اسکے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا گھر کے ایک کونے میں اسکی ماں بیٹھی ہے اسنے اسے سہارا دیا پھر اسکا منہ اپنے ہاتھوں سے دھلایا، اسکو کھانا کھلایا، اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسکا منہ صاف کیا۔ حضرت موسٰی نے سنا کہ اسکی ماں نے اسکو دعا دی “اللہ جنت میں تجھے موسٰی کا ساتھ نصیب کرے” وہ قصاب ہے نہ عالم دین ہے، نہ صوفی، نہ غازی، نہ مجاہد محض ماں کی خدمت اتنا عظیم مقام دلانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اقبال اسرار خودی میں خوبصورت نظم میں ماں کا مرض بیان کرتے ہیں جسکے کچھ اشعار کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
      ” ماں سے زندگی سر گرم ہے، ماں ہی سے زندگی کے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب مان سے ہے ، اس ندی میں موجیں اور گرداب و بلبلے اسی وجود کے باعث ہیں.میری ساری حیات کا حاصل
      تحفہ آسماں پر قربان ہے
      یہ میری جاں کیا کہ سارا جہاں
      جنت پائے ماں پر قرباں ہے


      Similar Threads:
      Last edited by Lost Passenger; 05-28-2014 at 12:34 PM.

    2. #2
      Genius Poet www.urdutehzeb.com/public_html illusionist's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      831
      Threads
      202
      Thanks
      34
      Thanked 39 Times in 22 Posts
      Mentioned
      87 Post(s)
      Tagged
      3530 Thread(s)
      Rep Power
      39

      Re: Maa'n(ماں)

      ماں کے نام



      موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں

      تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں



      فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں



      نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں



      اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن



      چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں



      روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے



      چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں



      اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح



      اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں



      گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر



      ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں



      دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی



      پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں



      لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم



      ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں



      وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر



      اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں



      پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے



      کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں



      سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو



      ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں





      //////...........

      Really "Maa" jaisa tohfa koi nahi .........................


    3. #3
      UT Writer www.urdutehzeb.com/public_html Lost Passenger's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      30
      Threads
      10
      Thanks
      7
      Thanked 13 Times in 9 Posts
      Mentioned
      2 Post(s)
      Tagged
      3342 Thread(s)
      Rep Power
      0

      Re: Maa'n(ماں)

      Quote Originally Posted by illusionist View Post
      ماں کے نام



      موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں

      تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں



      فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں



      نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں



      اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن



      چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں



      روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے



      چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں



      اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح



      اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں



      گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر



      ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں



      دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی



      پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں



      لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم



      ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں



      وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر



      اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں



      پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے



      کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں



      سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو



      ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں





      //////...........

      Really "Maa" jaisa tohfa koi nahi .........................
      1000000000000000000.................... % True


    4. #4
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Anmol's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,040
      Threads
      1965
      Thanks
      0
      Thanked 86 Times in 82 Posts
      Mentioned
      298 Post(s)
      Tagged
      4782 Thread(s)
      Rep Power
      75

      Re: Maa'n(ماں)

      nice sharing...



      Last edited by Anmol; 05-28-2014 at 03:39 PM.


    5. #5
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Anmol's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,040
      Threads
      1965
      Thanks
      0
      Thanked 86 Times in 82 Posts
      Mentioned
      298 Post(s)
      Tagged
      4782 Thread(s)
      Rep Power
      75

      Re: Maa'n(ماں)

      Dastan mere laad pyar ki Bas,
      Ek Hasti k gird ghoomti hai,

      Pyar JANNAT se is liye hay mujhey,
      Ye meri MAA k qadam choomti hai..!!!


      Ammi...;;;;;;;












    6. #6
      Moderator www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      BDunc's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      8,431
      Threads
      678
      Thanks
      300
      Thanked 249 Times in 213 Posts
      Mentioned
      694 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      119

      Re: Maa'n(ماں)

      Aameen umda hai


    7. #7
      Charagh e Aab...........! www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Mamin Mirza's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Uroos Ul Bilad,Sheher e Qaid.....Karachi..!
      Posts
      2,368
      Threads
      338
      Thanks
      1,026
      Thanked 1,107 Times in 704 Posts
      Mentioned
      346 Post(s)
      Tagged
      3232 Thread(s)
      Rep Power
      59

      Re: Maa'n(ماں)

      hamesha ki tarhan behad umdah tehreer Agha ji
      iss say ziyada main kuch nahi keh sakti,kiyun k jazbon ko alfaaz k sanchay main dhalna kabhi kabhi bohat mushkil hojata hai
      likhtay rahiye,khush rahiye....!!!


      !میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔

    8. #8
      UT Writer www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Ria's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      khawabon aur khyalon me
      Posts
      2,272
      Threads
      130
      Thanks
      0
      Thanked 19 Times in 12 Posts
      Mentioned
      257 Post(s)
      Tagged
      4148 Thread(s)
      Rep Power
      47

      Re: Maa'n(ماں)

      Walikum aslam....
      behtreen tehreer sir...
      Asl me hm Maa ko for granted ly jaty haien k Ammi to kr he daien ge, aami naraz nai houn ge, aami bat man laien ge..
      Lakin agr sochny bhetho to belkul sahe baat hum to aik raat ka badla b nahi utar skty...
      me aik asi bachi rai houn jo Abu ki jan hoti hy bs..
      Her kam Abu sy sekha, Her baat Abu sy share ki, each and everything
      lakin ab ABU Jan k baad ehsaas hoa, aur Aami k bary me bhi k wo kasy zindagi guzarti haien, hum sb apni life me busyy colg university, wo hamra ghar me intzar krti haien k kb hum aaien aa k chand ghari un sy baat he kr laien...
      Bohat kuch seekhny ko mila mjhy JAZAK ALLAH HO KAHIR


      ایک یہی تو فن سیکھا ہے ہم نے
      جس سے ملیے اسے خفا کیجے
      ہے تفاخر میری طبیعت کا
      ہر ایک کو چراغ پا کیجے
      میری عادت ہے روٹھ جانے کی
      آپ مجہھے منا لیا کیجے

    9. #9
      Family Member Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 UmerAmer's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      4,677
      Threads
      407
      Thanks
      124
      Thanked 346 Times in 299 Posts
      Mentioned
      253 Post(s)
      Tagged
      5399 Thread(s)
      Rep Power
      158

      Re: Maa'n(ماں)

      Very Nice
      Keep it up


    10. #10
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: Maa'n(ماں)

      Quote Originally Posted by Lost Passenger View Post

      Assalam-o-Alaikum

      Yad tu mai'n apni Maa ko roz hi kerta hoo'n laikin aaj buhat shidet de yad aai tu is hawaley se ek khas sharing ley ker hazir huwa hoo'n ager aap log bhi Maa k liye apney aehsasat yahaa'n share krai'n aur Maa ko khiraj-e-Tehseen paish krai'n tu mai'n aap sub ka intihai mashkoor hoo'n ga

      Maa'n


      Allah ki sub se bari naimat wo hasti jisey sub Maa kehtey hai'n aur wo ab mairey pas nahi is shiddet se yad aai k na sirf mairi aankhai'n num ho gai'n bel k aansoo ankhoo'n ki hadood tor ker beh nikley tu dair talak yad'dasht ki kudal se mazi ki qaber khod'ta raha aur usey khojta raha tu kuch nigarshat aisi nazer se guzri'n jo dil k buhat qareeb mehsoos hui'n tu aap k samney ley ker hazir ho gaya k shayed jin k pas ye naimat mojoud hey Maa ki qader karai'n


      ماں

      ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش


      میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے






      ایسی ہستی کے بارے میں جو احترام و ادب،محبت و عشق اور جنوں کی حدوں کو پہنچی ہو اسکے بارے میں کچھ لکھنے کےلئے الفاظ ڈھونڈنا اور پھر استعمال کرنا بہت مشکل کام ہے


      ماں کے لئے لکھنے بیٹھا تو بہت دیر تلک ایک جملہ ہی نہ بن پایا یہی سوچتا رہا کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم پھر جو ذہن میں آتا گیا اسے تحریر کرتا چلا گیا دل بہت بوجھل ہو گیا اور آنکھ بھر آئی کیونکہ ماں ہی وہ ٹھنڈی چھاں ہے جس کے شفیق اور مہربان سائے تلے آکر اسیا لگتا ہے جیسے تپتی دوپہر میں سایہ مل گیا ہو اور ماں کی دعائیں ہی انسان کو کامیاب بناتی ہیں


      سب مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں اور ان کی دعائیں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں گھر کی دہلیز کے ادنر قدم رکھتے ہوئے ٹھنڈک اور طمانیت کا احساس ماں کے وجود سے ہی ہوتا ہے اسی لئے ماں سے توٹ کر محبت کرنے والے کہتے ہیں کہ


      ”ماں کی دعا ،جنت کی ہوا“




      ہر انسان کی کامرانیوں کے پیچھے انکی ماں کی طاقتور دعائیں ہوتی ہیں کیونکہ ماں کی گود اور اس کا فیضان و طمانیت کی بانہوں میں سمیٹے رکھتا ہے ،


      ماں کی شان کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ دو جہانوں کے رب نے ماں کو اس معراج تک پہنچایا کہ جنت اس کے قدموں تلے رکھ دیاور نبی کریم(ص) نے فرمایا کہ


      ”ماں باپ کے چہرے پر ایک نگاہ ڈالنا ایک حج اکبر کے برابر ہے،جتنی بار ماں باپ کے چہرے کی جانب دیکھو سمجھو تم نے اتنی بار حج ادا کیا“


      شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ


      ”ماں کی*کوشنودی دنیا میں باعث دولت اور آخرت میں باعث نجات ہے“
      ماں ایک ایسا پختہ مقدس اور دائمی رشتہ ہے جس سے بڑا تعلق پوری دنیا میں نہیں کیونکہ
      ماں
      شفقتوں،محبتوں،ٹھنڈکوں،بہا روں،خوشبوئوں،اور راحتوں کا استعمارہ ،راہنمائی و روشنی کی علامت ہے


      ہر گھر چونکہ ماں کی محبت و شفقت بے پایاں سے معمور ہوتا ہے اس لئے تقریبا ہر گھر میں اولاد اپنی والدہ ماجدہ سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہے اور جن کیمائیں اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں ان مسلمانوں کےلئے اللہ تعالی نے یہ عظیم نعمت عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے آگے گئے ہوئے پیاروں کی بخشش و مغفرت کےلئے ایصال* ثواب کر کے ان پر جنت الفردوس کے دروازے کھل جانے کا سبب بن سکتے ہیں ،کہتے ہیں مسلمان نیک اولاد اسی لئے مانگتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں وفات پا جانے والے والدین اور دیگر پیاروں کی بخشش و مغفرت کےلئے دعا کر سکیں
      یہ احساس ہی اولاد کو کرب میں مبتلا کر دیتا ہے کہ اس کےلئے شب و روز دعائیں مانگنے والی ہستی خاک نشین ہو چکی ہے اس کی آمد کی منتظر نگاہیں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے بندہو چکی ہیں


      جب بھی کسی ماں کی دنیا سے رخصت ہونے کی خبر سنتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کیونکہ رحمتوں ،برکتوں اور دعائوں کی یہ آغوش ہم سے چھن گئی تھی ماں جی کے دنیا سے منہ موڑ جانے کے بعدمجھے اپنا دل و دماغ ہی نہیں بلکہ اپنا وجود بھی ریزہ ریزہ پوتا محسوس ہوا ایسا لگا کہ دنیا ختم ہو گئی ہے وہ ایسے وقت رخصت ہوئی جب میں پوری طرح اپنے پیروں پر کھڑا بھی نہیں ہوا اور نہ ہی اس قابل تھا کہ ان کی خدمت کر سکوں،کوئی سوچ سمجھ ہی نہیں تھی لیکن ان کے جانے کے بعد احساس ہوا کہ جس گھر میں ماں نہیں ہوتی وہ گھر گھر نہیں صرف مکان ہوتا ہے کیونکہ گھر رشتوں سے بنتے ہیں اور رشتوں کی لڑی اس وقت تک ہی جڑی رہتی ہے جب تک سارے رشتوں کو جوڑنے والی ڈور سلامت رہی سارے رشتوں کا اس وقت ہی اندازہ ہوا جب وہ ہم میں نہین تھی وہ بظاہر تو ہم سے دور چلی گئی لیکن ان کی دعائوں کا سلسلہ اسی طرح میرے ساتھ رہا بس یہی افسوس ہے کہ ہم ان کی خدمت نہیں کر سکے
      دوستوں بہت اچھا لگتا ہے جب ہم کسی کو اپنی ماں کو”ماں جی“والدہ“یا امی جان کہہ کر بلاتے ہیں یا دیکھتے ہیں
      اور خدمت کرتے ہوئے دیکھں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے کیونکہ ان الفاظ میں جو مٹھاس اور خوبصورتی ہے وہ دوسرے لفظوں میں نہیں لیکن دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والدین کی بہت خدمت کی ہے جبکہ میرے نزدیک ماں کی خدمت کرنے،خیال رکھنے اور اسے ہر طرح کا سکون و اطمنیان بہم پہنچانے کا دعوی کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بلا شبہ”ہم اپنی ماں کی ایک رات کی خدمت کا قرض ہی نہیں چکا سکتے جب وہ خود گیلے بستر پر سوتی ہے اور ہمیں خشک جگہ پر سلاتی ہے
      دوستوں
      آئو عہد کریں کہ وہ تمام لوگ جن کی ٹھنڈی چھائین موجود ہیں وہ اسکی ٹھنڈک کو اپنی روحوں میں اتاریں اور جن کی مائیں آسودہ خاک ہیں وہ ان سے روحانی فیض حاصل کریں اور یہ دعا کریں کہ
      آسمان ان کی لحد پہ شبنم اشفانی کرے
      کیونکہ افراتفری اور انتشار کے عالم میں اگر کہیں پناہ ملتی ہے تو وہ*خدا کی بارگاہ ہے یا ماں کی دعا ہے یہ ماں ہی ہے جس کے دل سے نکلی ہوئی دعا کبھی در نہیں ہوتی اور عرش بریں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ماں سے محبت کا اظہار کرنے کےلئے صرف ایک دن کو ہی مخصوص نہیں ہونا چاہیئے بلکہ وقتا فوقتا اس عمل کو جاری رکھنا ہم سب کا فرض ہے کیونکہ ماں جیسی ہستی دوبارہ نہیں ملتی


      اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جن کی مائیں زندہ ہیں وہ انہیں ان کی خدمت اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ جو اس ہستی سے محروم ہو چکے ہیں انہیں صبر و جمیل عطا فرماتے ہوئے انہیں اپنے نیک اعمال کے ذریعے ثواب پہنچانے کی ہمت فرمائے آمین ثم آمین


      ماں کے نام


      موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
      تب کہیں جا کر سکوں تھوڑا سا پا جاتی ہے ماں


      فکر میں بچوں کی کچھ اسطرح گھل جاتی ہے ماں


      نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں


      اوڑھتی ہے خود تو غربتوں کا بوسیدہ کفن


      چاہتوں کا پیرہن بچوں کو پہناتی ہے ماں


      روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے


      چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں


      اپنے پہلو میں لٹا کر اور طوطے کی طرح


      اللہ اللہ ہم کو رٹواتی ہے ماں


      گھر سے جب بھی دور جاتا ہے کوئی نور نظر


      ہاتھ میں قرآن لے کر در پہ آجاتی ہے ماں


      دے کے بچوں کو ضمانت میں رضائے پاک کی


      پیچھے پیچھے سر جھکائے دور تک جاتی ہے ماں


      لوٹ کے جب بھی سفر سے گھر آتے ہیں ہم


      ڈال کے بانہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں


      وقت آخر ہے اگر پردیس میں نور نظر


      اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں


      پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے


      کوئی ان بچوں سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں


      سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو


      ذندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں


      Aur Zindagi ka ek rukh ye bhi hey aur jo intihai taklieaf deh hey laikin ye haqiqet hey k is dunia mai'n aaj kal logoo'n k pas apney Maa Bap ko dainey k liye waqt hi nahi hey baz Maa Bap k pas honey k bawajoud bhi un ki khidmet nahi kertey tu baaz ko talash-e-moash unhai'n Maa Bap ki muhabbet bhari chaoo'n se dor ker daiti hey donoo'n sourtoo'n mai'n jeetey ji dukh Maa bap hi uthatey hai'n, Ulad tu un k guzar janey k baad un ki qader kerti hey koi maney ya na maney laikin ye haqiqet hey laikin ye itna kerwa sach hey k hum isey baya'n kertey huwey katratey hai'n,Allah hum sub k hal pe rehem fermaye aur Maa Bap ki sidq-e-dil se khidmet ker k jannet kamaney ki toufique ata fermaye,Ameen


      زیادہ دن نہیں گزرے
      کہ میری گود کی گرمی تجھے آرام دیتی تھی
      گلے میں میری
      بانہیں ڈال کر تو اسطرح سوتا تھا
      کہ اکثر ساری رات میری
      اک کروٹ میں گزر جاتی
      میرے دامن کو پکڑے
      گھر میں تتلی کی طرح گھومتا پھرتا
      (اور اب)
      تیری دنیا میں اب ہر پل
      نئے لوگوں کی آمد ہے
      میں بے حد خاموشی سے
      ان کی جگہیں خالی کرتی جا رہی ہوں
      تیرا چہرہ نکھرتا جا رہا ہے
      میں پس منظر میں ہوتی جا رہی ہوں
      زیادہ دن نہ گزریں گے
      میرے ہاتھوں کی یہ دھیمی حرارت
      تجھے کافی نہ ہوگی
      کوئی خوش لمس دست یاسمین آکر
      گلابی رنگ کی حدت تیرے ہاتھوں میں سمو دیگا
      میرا دل تجھکو کھو دیگا
      میں باقی عمر تیرا رستہ تکتی رہوں گی
      میں “ماں” ہوں
      اور میری قسمت”جدائی” ہے


      اور اس صدی کی ماں جدائی کی کون کون سی صورتیں نہیں جانتی. ایک جدائی یہ جدائی ہے جو ایدھی ہوم کے ان بھاری بھرکم آہنی دیواروں کے اس پار جدائی ہے اور ایک جدائی وہ جو یورپ سے آتی ہوائیں ان مشرقی دھندھلکوں میں لپٹی صبحوں کے لئے لاتی ہے. بغیر مستقبل، روشن مستقبل کی تلاش میں لاکھوں نوجوان راھی ملک عدم ہوئے اور بوڑھے ماں باپ کے لئے مہنگے صابن / پرفیوم چاکلیٹ اور دواؤں کے اخراجات باقاعدگی سے بھیجتے ہیں. بوڑھے باپ ہر صبح کو اس انتظار میں شام میں ڈھال دیتے ہیں کہ بس اب کچھ ہی دن ہیں کہ لخت جگر آتا ہی ہوگا پھر اس صحں میں ننھے معصوم پوتی پوتوں کی کلکاریاں گونجیں گی جہاں اب اداسی بال کھولے سوتی رہتی ہے اور اکثر تو وہ “نور العین” ہر وقت فلائیٹ نہ ملنے کے سبب ماں یا باپ کو کاندھا دینے کی سعادت سے بھی محروم رہ جاتا ہے.
      تائی اماں دو عشروں سے دیار غیر میں بیٹھے اپنے بیٹے کی منتظر تھیں. ہر دوسری بات میں اسکا ذکر کرتی تھیں کہ اس ذکر سے نہ معلوم انکی ممتا کو نہ معلوم کیسی ٹھنڈک ملتی تھی. اور آخری دنوں میں انھوں نے دوائیں اٹھا کر پھینکنا شروع کر دی تھیں پانی سے بھرا گلاس دھڑ سے زمیں پر مار دیتیں کہ “ایا کو کہو وہ آئیگا تو دوا کھاؤنگی “(وہ پیار سے اکلوتے بیٹے کو ایا کہتے تھے) اور انکا نواسہ پرنم آنکھوں سے کہہ رہا تھا کہ ” خالہ آپ نے دیکھا تھا نہ نانی کا چہرہ مرنے کے بعد بھی سیدھا نہ جا سکا دائیں سمت ہی رہا کیونکہ وہ مسلسل دائیں سمت ہی دیکھا کرتیں تھیں. پھر تو دروازے سے نظریں ہی نہ ہٹاتی تھیں کہ دیکھو ایا آگیا ہے. اس سے قبل جب نانا جان کا انتقال ہوا تو نانی اماں کی کتنی بڑی خواہش تھی کہ ماموں انکو کاندھا دیں مگر ماموں جان کو کبھی رخصت ہی نہ مل سکی ” اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر ایک تلخ حقیقت بیان کی جو اب ہر گھر کی کہانی ہے بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے.
      حضرت ابو ہریرہ شدید خواہش کے باوجود حج جیسے فریضے کے لئے تشریف نہ لے گئے جبکہ صحت بھی اچھی تھی اور سامان سفر بھی پاس تھا. حج کی اتنی شدید خواہش کہ حج کے کاروانوں کو خدا حافظ کہنے دور تک انکے ساتھ جاتے. حسرت سے انہیں دیکھتے اور دعاؤں کی درخواست کر کے واپس پلٹ آتے. لوگ دریافت کرتے کہ شدید تڑ پ کے باوجود وہ کیوں حج کی سعادت حاصل نہیں کرتے وہ کہتے ” میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ بوڑھی ماں کو ایک دن بھی تنہا چھوڑوں” اور اس برس لوگوں نے دیکھا تھا کہ حج میں ابو ہریرہ بھی شامل ہیں کسی کے دریافت کرنے پر فرمایا ” کعبہ دل اجڑ گیا ہے اور کعبۃ اللہ میں ہی تسکین دل رہ گئی ہے” ماں کے بچھڑنے کا سوز و گداز گویا انکے وجود کا حصہ نظر آرھا تھا. اسلامی تاریخ ایسے بی شمار نقوش سے منور ہے. خود نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ” اگر میری ماں زندہ ہوتیں اور نماز میں مجھے پکارتیں “اے محمد” تو میں نماز توڑ کر انکی خدمت میں حاضر ہوتا ” آپٌ کی عادت تھی جب حلیمہ سعدیہ تشریف لاتیں تو آپ میری ماں میری ماں کہہ کر انکی طرف لپکتے، اپنی رضاعی ماں کی انتہائی تکریم فرماتے، اپنی چادر انکے لئے بچھاتے۔
      رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحآبہ کرام کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ اویس قرنی جب مدینہ تشریف لائیں تو انسے دعا کی درخواست کرنا۔ کیونکہ اویس قرنی اپنی ماں کی شب و روز خدمت کی وجہ سے خدائے اقدس میں حاضری سے مھروم رہے۔ لیکن اس خدمت کا صلہ یہ ہے کہ اللہ کے نبیٌ نے صحابہ کو یہ وصیت کی کہ اگر اویس قرنی سے ملو تو اپنے لئے دعا کی درخواست ضرور کرنا خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ہر سال حج کے موقع پر یہ منادی کراتے کہ یمن کے قبیلے قرن سے تعلق رکھنے والے اویس قرنی موجود ہوں تو انہیں اطلاع دی جائے۔ ایک سال وہ حج کے لئے تشریف لائے تو حضرت عمر فاروق نے حضور اکرمٌ کی وصیت پوری کی اور انسے دعا کی درخواست کی۔ سبحان اللہ، یہ ہے اس قیمتی متاع اور گنج گراں مایہ کی خدمت کا صلہ۔
      روایات میں ہے کہ ایک موقع پر موسٰی کلیم اللہ نے اللہ سے سوال کیا کہ “جنت میں میرا رفیق کون ہے” جواب ملا ایک قصاب جو فلاں بستی میں رہتا ہے –حضرت موسٰی نے بہت کوشش سے اسے تلاش کیا کہ وہ ایسا کیا عمل کرتا ہے جو اللہ کو اتنا محبوب ہے؟ حضرت موسٰی اسکے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا گھر کے ایک کونے میں اسکی ماں بیٹھی ہے اسنے اسے سہارا دیا پھر اسکا منہ اپنے ہاتھوں سے دھلایا، اسکو کھانا کھلایا، اور پھر اپنے ہاتھوں سے اسکا منہ صاف کیا۔ حضرت موسٰی نے سنا کہ اسکی ماں نے اسکو دعا دی “اللہ جنت میں تجھے موسٰی کا ساتھ نصیب کرے” وہ قصاب ہے نہ عالم دین ہے، نہ صوفی، نہ غازی، نہ مجاہد محض ماں کی خدمت اتنا عظیم مقام دلانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اقبال اسرار خودی میں خوبصورت نظم میں ماں کا مرض بیان کرتے ہیں جسکے کچھ اشعار کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
      ” ماں سے زندگی سر گرم ہے، ماں ہی سے زندگی کے اسرار بے نقاب ہوتے ہیں ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب مان سے ہے ، اس ندی میں موجیں اور گرداب و بلبلے اسی وجود کے باعث ہیں.میری ساری حیات کا حاصل
      تحفہ آسماں پر قربان ہے
      یہ میری جاں کیا کہ سارا جہاں
      جنت پائے ماں پر قرباں ہے
      وعلیکم اسلام






    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    ماں باپ کا گھر جس کے جنت آئ اور آکر پلٹ گئ

    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •