Subhan Allah
اسلام میں فرائض کی اہمیت
غلام سرور
انسانی معاشرہ مختلف النوع افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ افراد شکل و صورت ، وضع قطع، ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے لحاظ سے ہی مختلف نہیں ہوتے بلکہ انکی سوچ پسند و ناپسند اور خواہشات میں بھی واضح فرق پایا جاتا ہے۔ معاشرے کے افراد کے مفادات بھی ایک دوسرے سے مختلف اور بعض اوقات ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم ہوتے ہیں۔ مفادات کا یہ اختلاف اور تصادم بعض اوقات اس سطح پر پہنچ جاتا ہے کہ افراد کے درمیان کشمکش ، کشیدگی، نفرت اور لڑائی جھگڑے کی فضا ء پیدا کر دیتا ہے اور اس طرح معاشرہ بے سکونی عدم تحفظ اور فساد و انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر فتنہ و فساد سے پاک ایک پرامن معاشرے میں رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے افراد کو کچھ اصولوں اور قوانین کا پابند کیا جاتا ہے۔ جن کے تحت تمام افراد پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی جاتی ہیں اور ان کو کچھ حقوق دئیے جاتے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اپنی تعلیمات میں حقوق و فرائض کو خصوصی اہمیت دیتا ہے تاکہ پر امن انسانی معاشرے کا قیام یقینی طور پر عمل میں آئے۔ چنانچہ اسلام میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور شرک سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ ہی انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور عبادت کرو اﷲکی اور نہ شریک بنائو اس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔ نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پڑوسی جو رشتہ دار ہیں اور پڑوسی جو رشتہ دار نہیں اور ہم مجلس اور مسافر اور جو (لونڈی غلام) تمہارے قبضہ میں ہے (ان سب سے حسنِ سلوک کرو)(سورۃ النساء کی آیت ۶۳) یعنی اﷲ تعالیٰ نے اپنی عبادت کیساتھ ساتھ اپنے ماننے والوں پر یہ فرض قرار دیا ہے کہ معاشرے کے ان افراد کے ساتھ اچھا سلوک کریں جن کے ساتھ ان کا واسطہ پڑتا ہے۔ ان کے ساتھ احسان اور مروت کا برتائو کریں ۔ کسی بھی طرح سے ان کی حق تلفی اور دل شکنی نہ کریں اور نہ ہی کوئی ضرر اور دکھ پہنچائیں۔ آنحضور ؐ نے اس انسان کو بہترین کہا ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔ اب ظاہرہے اچھے اخلاق کا مالک و ہی شخص ہو سکتا ہے جو دوسروں کے ساتھ اچھاسلوک کرے۔ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں اور اس طرح وہ کسی بھی لحاظ سے دوسروں کے حقوق پامال نہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید اور حدیث مبارکہ دونوں میں مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ معاشرے کے تمام افراد کے حقوق کو کما حقہ ٌ اداکریں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایمان اور عمل صالح کا ذکر ساتھ ساتھ آیا ہے جیسے سورۃ العصر میں۔ ایمان کا تعلق خالص حقوق اﷲ سے ہے اور عمل صالحہ کا تصور حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حقوق اﷲ کیساتھ ساتھ حقوق العباد کی تلقین کے قرآنی اسلوب کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ حقوق اﷲ کیساتھ ساتھ حقوق العباد کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ اور دوسرے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام میں حقوق و فرائض کی تعلیم فرائض کی شکل میں دی گئی ہے۔ یعنی لوگوں پر دوسروں کے حقوق ادا کرنا فرض کیا گیا ہے نہ کہ اپنے حقوق حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہو۔ سب سے پہلے والدین کے حقوق کی بات آئی تو اولاد کو مخاطب کیا گیا ۔اور حکم فرمایاآپ کے رب نے کہا نہ عبادت کرو بجز اس کے اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر بڑھا پے کو پہنچ جائیں تیر ی زندگی میں ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں تو انہیں اُف تک مت کہو اور انہیں مت جھڑکو اور جب ان سے بات کرو تو بڑی تعظیم سے بات کرو اور جھکا دو سر ان کیلئے اور عرض کرو ۔ اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بڑی محبت و پیار سے مجھے پالا تھا جب میں بچہ تھا۔( آیت نمبر ۴۲، سورہ بنی اسرائیل) یعنی ذکر والدین کے حقوق کا ہو رہا ہے اور فرائض اولاد کے بیان کئے جا رہے ہیں، اسی طرح انسان کا واسطہ والدین کیساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر افراد سے بھی پڑتا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر ۶۲ میں ہے اور دیا کرو رشتہ داروں کو اس کا حق اور مسکین اور مسافر کو بھییہاں بھی رشتہ داروں ، مسکینوں اور مسافروں کے حقوق کی بات ہو رہی ہے مگر حکم ان کو دیا جا رہا ہے جنہوں نے یہ حقوق ادا کرنے ہیں۔ یعنی یہ حقوق ادا کرنا ان پر فرض قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی قاعدہ کے تحت قرآن مجید میں زیادہ تر عورتوں کے حقوق مردوں کے فرائض کی شکل میں اور مردوں کے حقوق عورتوں کے فرائض کی شکل میں بیان کئے گئے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ میں مزدور کا حق ادا کرنے کے سلسلے میں بھی آجر کو تاکید کی جارہی ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے اداکرو۔ ( مشکوٰۃ) الغرض معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کی بات اسلامی تعلیمات میں فرائض کی صورت میں کی گئی ہے اور صرف فرائض ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔حقوق و فرائض کے بارے میں اس قرآنی اسلوب میں بہت سی حکمتیں مضمر ہیں۔ جب ایک فرد معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق کی ادائیگی اﷲ کی طرف سے عائد کردہ فرض کے طور پر کرتا ہے تو زیادہ احساس ذمہ داری کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، ان کی حق تلفی نہ کرنا اور جہاں تک ہو سکے ان کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے نہ کہ ان پر احسان۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ تمام افراد اس کے شکر گذار ہوتے ہیں اور ان کے دلوں میں اس کی محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر حقوق و فرائض کی تعلیم کا اسلوب یہ ہوتا کہ معاشرے کے محروم طبقہ کے افراد کو مخاطب کرکے انہیں ان کے حقوق بتائے جاتے اور ان حقوق کو حاصل کرنے پر زور دیا جاتا تو معاشرے میںفتنہ و فساد کی لہر اٹھ جاتی بلکہ معاشرتی نظام ہی جاری نہ رہتا۔ ایک فرد بڑی محنت و جانفشانی سے اپنے اور اپنے خاندان کیلئے ضروریات زندگی اور دیگر وسائل پیدا کرتا اور محروم طبقہ کے لوگ اپنا حق سمجھ کر مفت میں ان کو حاصل کرنے پہنچ جاتے۔ نیز اپنے حق کی وجہ سے دست درازی سے بھی نہ چوکتے اور نتیجتاً پوری معاشرتی زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی۔ اسی خطرے کے پیشِ نظر اسلام نے حقوق کی ادائیگی کے سلسلے میں صرف ان افراد کو مخاطب کیا جنہوں نے یہ حقوق ادا کرنے ہیں۔ یہی اسلوب انصاف اور فطرت کے مطابق ہے کہ کسی چیز کے مالک کو یہ اختیا ر دیا جائے کہ اپنی چیز معاشرے کے دیگر افراد کو اپنی مرضی اور خوشی سے دے نہ کہ اپنا حق سمجھ کر اس سے کوئی تقاضا کرے۔ اسلام حقوق کی ادائیگی کو محض فرض ہی قرار نہیں دیتا بلکہ اس پر دنیا میں بے شمار فوائد اور آخرت میں بے حساب اجر کی نوید سنانے کے ساتھ ساتھ عدم ادائیگی کی صورت میں ابدی خسارے اور عذاب کی وعید بھی سناتا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی متعدد آیات اور آنحضور ؐ کی متعدد احادیث پیش کی جا سکتی ہیں۔ حقوق کی بجائے اپنے فرائض پر توجہ دینے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کی دنیا و آخرت میں فلاح کا دارو مدار بھی صرف اپنے فرائض کی ادائیگی پر ہے۔ آخرت میں انسا ن سے سوال فرائض کے بارے میں ہوگا نہ کہ حقوق کے بارے میں۔ نیز حقوق نہ ملنے پر ہوسکتا ہے کہ اﷲ کی جانب سے صبر کا انعام مل جائے مگر فرائض پورے نہ ہوئے تو آخرت میں کسی انعام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر ہم ایک گھر کی مثال لیں تو وہ گھر جس میں شوہر اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے، اپنی بیوی کے حقوق کماحقہٌ ادا کرے اور جواب میں بیوی بھی اپنے فرائض خوشی خوشی ادا کرے تو گھر کا ماحول مثالی ہو گا۔ اسی طرح جب گھر کے دیگر افراد بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے ایک دوسرے کا خیال رکھیں گے، دل شکنی اور تکلیف دینے سے احتراز کریں گے تو ان کے درمیان بھی محبت بڑھے گی اور پورا گھر جنت نظیر ہو جائے گا۔اس کے بر عکس اگر شوہر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے میں لگا رہے۔ بیوی اپنے حقوق کے لئے جھگڑتی رہے اور گھر کے دیگر افراد اپنے اپنے حقوق کا راگ الاپتے رہیں تو گھر کی فضا مکدر اور سکون تباہ ہو جائے گا۔ اسی قاعدے کے تحت اگر متمول اور صاحب استطاعت افراد معاشرے کے محروم اور ضرورت مند افراد کی مدد اپنا فرض سمجھ کر کریں، ان کی حق تلفی نہ کریں تو ہمیں کوئی شخص بندوق کے زور پردوسروں کو لوٹتا اور اس لوٹنے کو اپنا حق سمجھتا ہوا نظر نہیں آئے گا۔ اگر فیکٹریوں میں مزدور اور آجر اپنے فرائض پورے کریں تو فیکٹری میں کبھی تالہ بندی اور پیداواری نقصان کی نوبت نہیں آئے گی۔ یہی فرض کا احساس اگر حکومتی اور بااختیار طبقہ میں پیدا ہوجائے تو پورے ملک کے حالات سدھر سکتے ہیں، امن و امان اور پیار و محبت کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہر فرد کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ اپنے فرائض ادا کرنے پر صرف کرے۔ تمام افراد اپنے فرائض ادا کریں گے تو لامحالہ معاشرے کے ہر فرد کو اسکے حقوق خودبخود حاصل ہو جائیں گے اور ایک پر امن معاشرے کا مقصد پورا ہو جا ئے گا۔ آج کل جو سیاسی جماعتیں اور فلاحی تنظیمیں معاشرے کے محروم طبقات کو ان کے حقوق سے آگاہی دینے اور ان کو حقوق دلانے کی دعویدار ہیں۔ ان کو چاہئے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق عوام کو ان کے فرائض سے آگاہی دینے اور ان فرائض کو کماحقہ ادا کرنے کی ترغیب دینے میں اپنے وسائل اور توانائی صرف کریں۔ محروم طبقات کو اپنے حقوق کے حصول کیلئے گرمانے کی بجائے انہیں غاصب اور بالادست طبقے کو اپنی روش چھوڑنے اور محروم کو ان کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔ اگر کوئی غاصب سرزنش کے باوجود ظلم اور حق تلفی سے باز نہ آئے تو اجتماعی طور پر اس کیخلاف جدوجہد کی جانی چاہئے اور اسے اپنے فرائض ادا کرنے پر مجبور کیا جانا چاہئے۔ لیکن اس سلسلے میں بھی اسلام قانون کو ہاتھ میں لینے اور حد سے بڑھنے سے منع کرتا ہے ۔ ا لمختصر حقوق و فرائض کے بارے میں اسلام ایسی تعلیمات پیش کرتا ہے کہ ان کو نافذ کرنے اور ان پر عمل کرنے سے معاشرے میں فتنہ و فساد کا ہر امکان ختم ہو سکتا ہے اور پورا معاشرہ امن و سکون اور پیار و محبت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے حقوق سے زیادہ اپنے فرائض پر غور کرنے ، خوش اسلوبی سے ان فرائض کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ دنیا میں پر امن معاشرے کیساتھ ساتھ آخرت میں کامیابی کی منزل حاصل ہو۔
Similar Threads:
Subhan Allah
Thanks for great sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
JazakAllah
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks