آداب حضور آداب!
احمق ِ اعظم حاضر ہےآپ لوگوں کی خدمت میں شغل لگانے کے لئے ۔ خواتین و حضرات، ہم میراثی تو ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی بھانڈہیں بس تھوڑا سچ بولنے کے عادی ہیں۔ لڑکے ، لڑکیوں اور بزرگوں ۔۔۔۔بات دراصل یہ ہے کہ آپ نےسنا ہوگا کہ" بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ" تو آج ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ رونماہوا لیکن نہ ہی ہم دیوانے ہیں اور نہ ہی عبداللہ بلکہ یہ دونوں کام آپی زبردستی(نمرہ) کے ہیں ۔بس کہنے لگی ایڈمن کی شادی ہے تو شغل لگاؤ اور دولہے کو خوار کرو ۔میں ٹھہرا ننھا منا بچہ ،مجھے کیا پتہ جگتیں مارنا کسے کہتے ہیں اور جگت بھی فورم کے منتظم اعلٰی کو مارنی توبہ توبہ ۔یہ توایسے ہی ہے جیسے الطاف حسین کو بھتہ لینے سے روکنا ۔لیکن مرتا کیا نہ کرتا۔تو جناب منتظم اعلٰی فورم میں ایک ایسی کرسی ہوتی ہے جس کے بہت سے فوائد ہیں ۔خاص کر فیس بک پہ بہت سی لڑکیاں دوستی کی درخواست کر رہی ہوتی ہیں اور منتظم صاحب بڑی صفائی اور نخرے سے وقت کی قلت کا بہانا بنا کرانکے سامنے مہان بن رہے ہوتے ہیں ۔اور لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ یہ تو سڑیل اور جل ککڑا ہے ۔ یہ سوچنے والی خواتین کو ہم ایک بات ضرور بتانا چاہیں گے کہ اگر آپ کسی لڑکی سے بات کرتے منتظم اعلٰی کی شکل دیکھ لیں تو یہ تصور کبھی دوبارہ ذہن میں نہ لائیں گی۔اسی وجہ سے تو منتظم کے فیس بک کے کھاتے میں اگر نظر دوڑائیں تو ۴۰ ،۵۰ پھلجھڑیوں کے کھاتے تو مل ہی جائیں گےاور اگر ہم جیسا غریب کبھی بولنے والے ڈبے یعنی چیٹ بوکس میں بھی کسی لڑکی سے ہنس کے بات کر لے تو ایڈمن اپنے سارے سٹاف کو کہہ دیتا کہ اس پہ نظر رکھنا ،یہ بندہ مجھے ٹھیک نہیں لگتا ،فلرٹ قسم کا ہے اگر کسی کو ذاتی پیغام ارسال کرے تو بیشک پڑھے بغیر بین کر دینا۔تو اےمنتظم اعلٰی صاحب ،ہمارا بھی حق بنتا ہے لڈو کھانے کا۔۔۔
لڈو سے یاد آیا جوں جوں زمانہ ترقی کر رہا ہے لڈو کی شکل بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ کوئی موٹی بوندی والا لڈو تو کوئی پستے بادام والا ،کوئی سادہ تو کوئی شادی کا لڈو ۔سب لڈوؤں کے اپنے اپنے ذائقے اور فوائد ہیں۔ لیکن شادی کا لڈو ایسا لڈو ہے جسے جو کھا لے وہ بھی پچھتاتا ہے اور جو ہم جیسا نہ کھائے اسے ہر وقت کھانے کی چاہ رہتی۔اگر آج سے ۳۰،۳۵سال پہلے نظر دوڑائیں تو شادی کا لڈو اکثر جلدی کھلا دیا جاتا تھا اور پھر بچوں کی قطار کی قطار لگ جاتی تھی اور اُس دور کی خوبصورتی تھی کہ اگر کسی خاتون سے اس کے بچوں کی تعداد اوراس کے شوہر کا نام پوچھا جاتا تو خاتون بہت شرما کے جواب دیتی تھیں۔ لیکن اگر اب کے زمانے کو دیکھا جائے تو اس کے برعکس ہے۔ آج کل مرد حضرات اپنی شادی ہونے کے بعد بھی چھپا رہے ہوتے ہیں۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ اپنی سہیلیوں سے ڈر تے ہیں یا واقعی شرما رہے ہوتےہیں۔ ایک بارایسا ہی اتفاق ہوا ہمیں اپنے نانا حضور کی آخری پیشکش (ماموں) کی شادی میں دیکھنے کا۔جناب نے تو باقاعدہ منہ پہ رومال رکھ کرشرمانے کی اداکاری بھی کر ڈالی اور ہم ٹھہرے ننھے منے بچے، یہ حال دیکھ کے اپنے والد بزرگوار سے پوچھ ہی بیٹھے کہ ابا حضور، یہ لڑکی والے کہیں ماموں کو بیاہ کے تونہیں لے جا رہے اپنے گھر جو یہ حضرت اتنا شرما رہے ہیں ۔ہمارے ابا حضور ٹھہرے فیصل آباد کے، فرمانے لگے بیٹا جدید دور آ گیا وا اج کل کڑی ویا کے نہیں لیائی دی بلکہ منڈا ویا کے توری دا وا ایسے لئی اے اننا شرما ریا وا (آج کل لڑکی شادی کر کےاپنے گھر نہیں لاتے بلکہ لڑکے کی شادی کرکے اسے سسرال رخصت کر دیتے ہیں اسی لئے یہ اتنا شرما رہا ہے)اب بالکل ایسا ہی منتظم اعلٰی کے ساتھ ہوا جناب کی شادی طے ہوگئی کارڈ چھپ گئے لیکن انھوں نے کسی کو بتایا تک نہیں ۔یہ تو بھلا ہوآپی رشتے کروانے والی(نمرہ) کا کہ ہمیں خبر دی اور ہمارا قلم حرکت میں آگیا۔لیکن اب ہم یہ تو جانتے نہیں کہ ہماری بھابی پنجابن ہے،سندھی ہے،اردو ہے ،سرائیکی ہے یا پھر پوٹوہاری ہے،کیونکہ سب جگہ کی خواتین کے اپنے ڈرامے ہوتے ہیں ۔ اس لئے ہم منتظم اعلٰی کو ذرا سمجھا دینا چاہتےہیں۔جیسے اگر بھابی پنجابن ہے اور کبھی بھابی نے بڑے سے دوپٹے سے سر بھاندا ہو تو کبھی یہ سوال مت کرنا کہ کیا سر میں درد ہے ؟ہمیشہ یہ پوچھنا کہ دوائی کھائی یا نہیں اور کھانےکا مطالبہ بالکل مت کرنا بلکہ خاموشی سے اگر کوئی برتن دھونے والے بچے ہوں تو خود دھو دینا،اور اگر وہی حرکت کی جس سے ننھا منا بچہ روک رہا ہے تو جو کچھ ہو گا اس کا مختصر حال:
اے ڈوپٹہ بنیا نظر نہیں آندا، سویر دی پھکی آن تسی تے فون کر کے پچھ وی نہیں سکے کہ مر گئی یا زندہ وا، بندا آندا دو چار روٹیاںپڑلیاندا،سویر دی اپنی جان نو رو رہی آن میرے ماں پیو نو وی آہی لمبیا سی(یہ دوپٹہ باندھا نظر نہیں آرہا صبح سے بھوکی ہوں، آپ تو ایک فون کر کے بھی نہیں پوچھ سکے کہ مر گئی ہوں یا زندہ ہوں۔دو ،چار روٹیاں ہی لے آتے صبح سے اپنی جان کو رو رہی ہوں میرے والدین کو بھی یہی خاوند ملا تھا میرے لئے)اور بھر باقاعدہ برتن ٹوٹنے کی آوازیں بھی سنائی دیں گی۔
اگربھابی اردو ہے تو انکا اپنا ہی ایک انداز ہوتا ہے۔بندہ چہرہ دیکھ کے ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ آج بیگم کی طبیعت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی اور اگر غصے سے بھی پوچھے کہ تمھاری شکل بنی ہے کیا ہوا ؟تو آگے سے جواب ہی اتنے پیار سے ملتا کہ نہیں۔۔۔۔۔ اصل میں سر درد ہے، کچھ کھانے کو جی نہیں چاہا صبح سے ،آج کچھ کھانے کو بھی نہیں بنا ۔آپ جلدی سے بتائیں کہ کیا کھائیں گے میں ۱۰ منٹ میں بنا دیتی ہوں اور اتنے پیارے لہجے کو دیکھ کے شوہر خود کہہ اٹھےکہ او میری جان۔۔ چلو باہر سے کچھ کھا لیتے ہیں،بولو کہاں چلیں۔اور اگر ہماری بھابی پوٹوہاری ہے تو منتظم اعلٰی صاحب ۔۔۔۔میں صرف پھر آپکے حق میں دعا ہی کر سکتا ہوں ۔اللہ آپکے حال پے رحم کرے ۔۔میرے خیال میں اب اتنا بہت ہے۔ بس آخری بات آج کل کسی نہ کسی پیر صاحب کا مرید ہونا ہی پڑتا ہے تو جناب آپ رن مرید ہو گئے اب شرمانا چھوڑرو ورنہ پھر ڈوپٹہ دے کہ آپکو رخصت کر دیں گے۔۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو جنازہ جائز ہونے پہ۔۔۔۔۔
اللہ آپ دونوں کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے ،آمین ثمہ آمین۔۔۔۔۔
بقلم
احمق اعظم
نوٹ: اس تحریر کا مقصد صرف مزاح ہے کسی کی ذات کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں
Similar Threads:
Bookmarks