Moona (02-16-2016)
قائد ِاعظم محمد علی جناح ؒ ( ایک بااُصول انسان
مسٹرعبدالحئی1926ء سے1940ء تک قائدِاعظم محمدعلی جناحؒکے ڈرائیورتھے۔وہ بیان کرتے ہیںکہ جب مسلم لیگ اورکانگریس کی صوبائی حکومتیںبنی تھیںسب چھوٹے موٹے لیڈروں کی کاروںپرمسلم لیگ کے جھنڈے لگنے شروع ہوگئے۔تمام ڈرائیور ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔دوسرے ڈرائیوروںنے مجھ سے کہاکہ آپ بھی قائدِاعظم محمدعلی جناحؒکی گاڑی پرمسلم لیگ کاجھنڈالگائیں،چناںچہ مَیںنے راڈ لگا کر جھنڈا لگادیا۔دوسرے روز کورٹ میںجانے کے لیے قائدِاعظمؒگاڑی کی طرف آئے توجھنڈے پرنظرپڑی۔ اُلٹے پائوںواپس ہوئے اورنوکر سے کہہ کر مجھے میٹنگ روم میں بلوایااورفرمانے لگے،’’یہ گاڑی کے آگے جھنڈاکس کے حکم سے تم نے لگایاہے؟‘‘۔گرج کرکہا ’’فوراًہٹائو!میری گاڑی پراُس وقت تک جھنڈانہیںلگے گاجب تک پاکستان نہیں بنے گا۔‘‘ ڈرائیورعبدالحئی بیان کرتاہے کہ مَیں نے جھنڈااُتاردیا۔حکم ہُوا، ’’راڈبھی نکالو۔‘‘عبدالحئی کابیان ہے کہ پھرمجھے ایسی جرأت نہیں ہوئی۔ پاکستان بن جانے کے بعدآپ اپنی گورنرجنرل کی گاڑی پرسوارتھے۔جھنڈالگا ہُوا تھا۔ کوئی آگے نہ تھا۔ریلوے کراسنگ آگئی۔پرنسپل سیکرٹری نیچے اترے اورگیٹ مین سے کہا، ’’پھاٹک کھولو،ابھی گاڑی آنے میںبڑاوقت ہے۔گورنرجنرل صاحب کی گاڑی ہے۔‘‘پھاٹک والے نے گیٹ ڈرکے مارے کھول دیا، مگر…قائدِاعظمؒنے فرمایا،’’یہ اُصول کے خلاف ہے۔گاڑی گذرے گی توہم جائیںگے۔‘‘قائدِاعظمؒگاندھی کے گھرجاکرملناپسندنہیں کرتے تھے اورمُصرتھے کہ گاندھی ان سے ملنے کے لیے آیاکریں۔ایک توقائدِاعظمؒوقت کے بڑے پابندتھے۔دوسراوقت کی بڑی قدر کرتے تھے۔گاندھی جی کے کئی روپ تھے۔محمدعلی جناحؒقانون دان تھے۔جب وہ گاندھی جی کے ہاںجایاکرتے تھے توگاندھی جی کاسیکرٹری آجاتااورخودگاندھی رفعِ حاجت کے لیے آنا جانا شروع کردیتے تھے۔قائدِاعظمؒایسی باتوںسے ناخوش تھے۔ لہٰذاآپ نے گاندھی کی طرف جاناپسندنہ کِیا۔ایک بارگاندھی قائدِاعظمؒسے ملاقات کے لیے وقت سے10منٹ قبل آگئے۔ آپ نے گاندھی کو برآمدے میںبٹھائے رکھا۔وقت ہُواتوآپ نے ملاقات کی۔اسی طرح ایک گروپ آپ سے ملنے آیا۔ دُور سے آیاتھا۔ آپ نے کھاناکھاناتھا۔ آپ نے کہا ’’آپ 15 منٹ انتظار کریں۔‘‘چناںچہ ٹھیک15منٹ کے بعد قائدِاعظمؒ تشریف لے آئے۔اس بات کومخالفین نے اُچھالاکہ قائدِاعظمؒ مغرور ہیں۔ لوگوںسے ملناپسندنہیں کرتے جبکہ وہ بڑے شفیق تھے، مگر ڈسپلن رکھتے تھے۔ 1941ء میں قائدِاعظمؒ مسلم لیگ کے اجلاس مدراس سے واپس آرہے تھے، راستے میں ایک قصبہ سے آپ کا گذر ہُوا۔وہاںکے مسلمانوںنے پُرجوش استقبال کِیا۔ ایک 8برس کا لڑکاتھاجس کے تن پرایک لنگی تھی۔بہُت زورشورسے پاکستان زندہ بادکانعرہ لگا رہا تھا۔ قائدِاعظمؒکی نظراس جوشیلے لڑکے پرپڑی۔ آپ نے اپنی گاڑی رُکوائی،لڑکے کوقریب لانے کے لیے کہا۔جب وہ قریب آیاتوآپ نے کہا،’’تم پاکستان کامطلب سمجھتے ہو؟‘‘ لڑکا گھبرایا۔کہا، ’’گھبرائو نہیں،بتائو۔‘‘ آپ نے اسے شاباش دی اس کاحوصلہ بڑھا۔ لڑکے نے کہاکہ پاکستان کامطلب آپ بہترجانتے ہیں۔ہم تواتناجانتے ہیںجہاں مسلمانوںکی حکومت وہ پاکستان، جہاں ہندوئوںکی حکومت وہ ہندوستان۔ قائدِاعظمؒ کے ساتھ صحافی تھے۔ آپ نے ان سے مخاطب ہوکرکہاکہ مدراس کا8سال کابچّہ پاکستان کا مطلب سمجھتاہے،لیکن گاندھی جی نہیںسمجھ سکتے۔دوسرے دن سارے اخبارات میںیہ خبر چھپی توگاندھی جی اپناسامنہ لے کررہ گئے۔ قائدِاعظمؒنہ صِرف لوگوں کے لیے قانون دان تھے بلکہ اپنی ذات کی بھی حفاظت کرنے کی جرأتِ جلیلہ رکھتے تھے۔اُن کے نزدیک قانون کامفہوم حفاظت تھا۔جولائی1942ء کے آخِری عشرہ میں بمبئی میںایک خاکسار رفیق صابرنے قائدِاعظمؒ پر اپناناپاک حملہ تیزچاقوسے کِیا۔جب وہ قائدِاعظمؒ پر لپکا تو سامنے نحیف بدن تھا، نہ پہلوان،نہ کوئی زورکرنے والے۔عقل کی جنگ ساری زندگی لڑی۔خُدا نے حاضرجوابی دی تھی۔ فوراًقانون کے محافظ نے ہاتھ آگے بڑھایااورقاتل کے بازوکی کلائی کومضبوطی سے پکڑلیااوراپنی پوری طاقت سے چاقو کا سرانیچے کردیا۔ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری کو آوازدی وہ جوساتھ والے کمرے میں تھے، دوڑکرآئے،مجرم کوپکڑلیااورپولیس کے حوالے کردیا۔عدالت نے اسے سزا دی۔اندازہ لگائیںکہ قانون کے محافظ نے کیسے سکون واطمینان کامظاہرہ کِیا۔ ایم۔ایم اصفہانی ایک اوردلچسپ واقعہ تحریرکرتے ہیں۔’’یہ واقعہ1946ء کاہے کہ جنگ کے بعد بنگال کی مجلسِ قانون سازکے انتخابات ہورہے تھے اور مَیں کلکتہ میںمسلم چیمبرآف کامرس کا اُمیدوار تھا۔جنوبی حلقہ کلکتہ کی نمائندگی اوروںنے چھوڑدی۔مگرایک اوراُمیدوارنے درخواست دے دی۔ بزرگوں نے بُرامانا۔مگروہ چھوڑنے پر تیار نہ ہُوا۔کئی دنوں بعد قائدِاعظمؒ کلکتہ ہمارے ہاںآئے اورہمارے ایک دیرینہ دوست صدیقی نے اس کومنا لیاکہ وہ (نور الدین)درخواست واپس لے لے گااگراس کی ضمانت کی رقم250/-روپے جواس نے بطور ضمانت الیکشن جمع کروائی ہے،واپس کردی جائے۔ قائدِاعظم ؒنے اِس بات کوسنااور یوں فرمایا جیسے تیرکمان سے باہر آجاتاہے۔ ’’روپیہ دے دیں؟کسی اُمیدوارکونام واپس لے لینے کے لیے بالواسطہ رشوت دی جائے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اس سے کہہ دوکہ وہ الیکشن لڑے۔اس کی یہ پیشکش ردکی جاتی ہے۔‘‘عبدالرحمن صدیقی بڑے گھبرائے۔آپ نے کہا،’’بیٹا!سیاست میں اخلاقی استواری نجی زندگی سے زیادہ اہم ہے۔اگرتم عوام کی زندگی میں کسی غلطی کے مرتکب ہوگئے توتم سب ایسے انسانوں کونقصان پہنچائوگے جوتم پرانحصاررکھتے ہیں۔‘‘انتخاب کاوقت آیا۔مدِمقابل کوایک ووٹ بھی نہ مِلا۔’’اسی طرح قائدِاعظمؒاپنی سیاسی زندگی میںبھی اُصولوں پرکاربندتھے۔1926ء میںبمبئی کے مسلمان حلقے سے مجلسِ قانون سازکی رُکنیت کے اُمیدوار تھے۔ کامیابی کابھی اعتمادتھا۔کوئی شورشرابہ یامہم نہ چلائی۔ ہندودوستوں نے گاڑیاں بھجوائیںلیکن اُنہوںنے قبول نہ کیں۔تین اُمیدوارتھے۔مسٹرمحمد علی جناحؒ،مسٹرصالح بھائی بڑودہ،مسٹرحسین بھائی لال جی۔باقی دونوں اُمیدواروں کے مقابلے میں مسٹرمحمدعلی جناح کو ووٹ زیادہ پڑرہے تھے۔چناںچہ دونوںاُمیدواروںنے محمد علی جناحؒ سے کہاکہ آپ ہمیں کہیںکہ ہم اپنانام واپس لے لیںتوآسانی ہوجائے گی۔اس پرقائدنے کہا، ’’آپ مقابلہ جاری رکھیں۔‘‘ وہ یہ پسندنہیں کرتے تھے کہ اُن کے کہنے پرکوئی الیکشن سے اپنانام واپس لے۔ مسٹر جناح کو شاندار اکثریت حاصل ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں،’’سیاستدان اپنے معاملات میں کھرااوربے عیب ہو،اگروہ ایسا نہیں تووہ مصنوعی ہے۔‘‘1937ء کازمانہ مسلم لیگ کے لیے بڑاکٹھن تھاکہ کوئی اچھامقررنہ تھا۔کانگریس کے ایک مسلمان مقرر کو ترغیب دی گئی کہ وہ مسلم لیگ میںشمولیت کرے اورمسلم لیگ کے حق میں تقریریں کرے۔وہ راضی ہوگیاکہ کچھ خرچہ میرے بچّے کومِل جائے تومَیں مسلم لیگ کے جلسوںکی رونق بڑھائوںگا۔قائدِاعظمؒسے کہا گیا کہ 150/-روپے ماہانہ اس کودیا جائے تو ہمارا کام چل جائے گا۔قائدِاعظم نے فرمایا،’’اس سے کہومسلم لیگ میں شمولیت کرنی ہے توغیرمشروط کرو۔ بھوکے رہو گے ہمارے ساتھ،روٹی کھائوگے ہمارے ساتھ،یہ پیسے کامعاملہ نہیںچلے گا۔‘‘ (پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی کی تصنیف ’’سوانح ِحیات رہبر ملت: قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ‘‘ سے مقتبس) ٭…٭…٭
Similar Threads:
Moona (02-16-2016)
Buhat pyari sharing hai bro
main samjti hun ye pakistan section main honi chaiye thi
dosra is main and pe link show ho raha hai
@intelligent086
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
Moona (02-16-2016)
@Rania
ایسی کوئی بھی غلطی نظر آئے تو تصیح کر نے کے بعد متعلقہ سیکشن میں موو کردیا کریں
Moona (02-16-2016)
@intelligent086 Thanks for Informative Sharing
intelligent086 (02-16-2016)
Moona (02-16-2016)
...
intelligent086 (02-17-2016)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Bht khoob
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks