آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو
N.iqbal Iqbal


اکثر آپ نے یہ دیکھا ہو گا کہ جب کسی کے ہاںبیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو اس وقت ایک ہی جملہ زبان زدِ عام ہوتا ہے کہ آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو۔(در حقیقت بیٹی تو ہوتی ہی نصیبوں والی ہے)یہ دعا آپ کو بیٹی کی پیدائش پر ہی کیوں سننے کو ملتی ہے؟ کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے۔ بیٹی کے بارے میں تو نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ مبارک ہے وہ عورت جس کی پہلی اولادبیٹی ہو۔

یہ دعا اس لئے تواتر کے ساتھ دی جاتی ہے کہ بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں اور انہیں ایک دن اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر پیا گھر سدھرناہوتا ہے اور یہاں سے وہ نصیب شروع ہوتا ہے جس کے لئے اس کی پیدائش پر دعا دی جاتی ہے کہ آپ کی بیٹی نصیبوں والی ہو۔موجودہ دور میں بیٹی کی خوشی کے لئے والدین ہر قسم کا دکھ و تکلیف برداشت کرتے ہیں۔اس کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کرتے ہیں۔ جب بیٹی جوان ہوتی ہے توسب سے پہلے اس کے لئے ایک عدد اچھا رشتہ درکار ہوتا ہے۔ کافی تگ و دو کے بعد اگر اچھا رشتہ مل جائے تو پھر والدین کو جہیز کے نام پر فرمائشوں کی ایک لمبی لسٹ تھما دی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ فرمائش بھی ساتھ لف ہذا ہوتی ہے کہ داماد کو کاروبار بھی کروا کر دیا جائے تاکہ آپ کی بیٹی بہتر زندگی گزار سکے۔ جو والدین اپنے بیٹوں کے لئے (خوشیوں کے نام پر) بھاری بھرکم جہیز کی فرمائش کرتے ہیں انہیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کی شادی پر انہیں کیا جہیز دیا تھا۔
بیٹی خواہ پڑھی لکھی صوم صلوۃ کی پابند اچھے خاندان سے ہو لڑکے والوں کو اس سے کوئی سرو کار نہیں ہوتاانہیں صرف اور صرف جہیز سے غرض ہوتی ہے۔ اگر مطلوبہ جہیز دے دیا جائے تو رشتہ طے پا جاتا ہے ورنہ بیٹی کو اس طرح رد کر دیا جاتا ہے جیسے گاہک دکان پر رکھی ہوئی چیز پسند نہ آنے پر اگلی دکان پر چلا جاتا ہے۔جو والدین صاحب استطاعت ہوتے ہیں وہ تو بیٹی کی خوشی کے لئے جہیز کے نام پر بھاری بھرکم فرمائشیں پوری کر دیتے ہیں لیکن یہ فرمائشیں بیٹی کی شادی کے بعد بھی والدین کا پیچھا نہیں چھوڑتیں اور ان کے ساتھ سائے کی طرح چمٹی رہتی ہیں۔ جب تک والدین لڑکے والوں کی فرمائشیں پوری کرتے رہتے ہیں بیٹی کا گھر آباد رہتا ہے ۔جب پوری کرنے کی سکت نہیں رہتی تو نوبت طلاق تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں40فیصد طلاق کے کیسز جہیز کی کمی کی وجہ سے پیش آرہے ہیں جبکہ ہزاروں بچیوں کی شادی اس وجہ سے نہیں ہو پا رہی کہ ان کے والدین غریب ہیں اور جہیز دینے کے قابل نہیں۔اگر غریب کی بچی بیاہی بھی جائے تو اسے ساری زندگی جہیز کم لانے پر طعنے سننا پڑتے ہیں۔ کئی بچیاں کم جہیز لانے کی پاداش میں سسرالیوں کے ہاتھوں زندہ جلا دی جاتی ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ بیٹیوں کی شادیاں بر وقت ہو ں تو ہمیں شادی کے انتظام و انصرام کو آسان بنانا ہو گا۔والدین توبیٹی کو سسرالیوں کے کہے بغیر ہی اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ بیچارے مقروض بھی ہو جاتے ہیں اس لئے لڑکے والوں کو جہیز کا مطالبہ ہی نہیں کرنا چاہئے۔ جن والدین کو اﷲ تعالیٰ نے سب کچھ عطا کیا ہوا ہےانہیں چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر فضول اخراجات سے اجتناب کریں تاکہ غریب والدین کو اپنی بیٹیوں کی شادی پردقت پیش نہ آئے بلکہ صاحب استطاعت والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد گلی محلے میں نظر دوڑائیں اور دیکھیں جو غریب والدین اپنی بیٹی کی شادی کا انتظام و انصرام نہیں کر سکتے ان کی مالی معاونت کریں تاکہ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ان بیٹیوں کے سروں میں چاندی نہ اترے اور وہ اپنے آپ کو دھرتی کا بوجھ تصور نہ کریں۔
@CaLmInG MeLoDy @Gorgeous Princess @Nimra Rashid; @Arosa Hya @ayesha @intelligent086 @Ainee @maya @BDunc @UmerAmer @Rania @PRINCE SHAAN @Roomi @Special.Girl






Similar Threads: