Moona (03-09-2016)
اسد سلیم شیخ
ہال روڈ سے ذرا پہلے جہاں اب کلاسیک کی دکان ہے کتابوں کی۔اس کے ساتھ شنکر داس اینڈ کمپنی تھی۔یہ بجاج مینشن کہلاتاتھا۔یہ خالی پلاٹ تھا جہاںاب زمان پلازہ ہے۔جنگ عظیم دوم کے دنوں میں سُندرداس نے یہ جگہ لیزپر لے لی اور یہاں عارضی طور پر بجاج مینشن بنائی تھی۔اس نے یہی جگہ لوگوں کو آگے کرائے پر دی۔شنکر داس اینڈ کمپنی فوٹو گڈز کی ڈیلر تھی۔سٹوڈیو کے کیمرے مینو فیکچر کرتے تھے۔پہلے یہ برانڈ رتھ روڈ پر ہوتے تھے۔پھر یہاں مال روڈ پر آگئے۔یہ تین بھائی تھے۔فوٹو گڈز ڈیلر سُندر داس تھا۔یہ ریڈیو کا ڈیلر بھی ہوگیا تھا۔ یہاں وہ ریڈیو بھی بیچتے تھے۔اسی دکان میں جگدیش ڈینٹل گڈز کا ڈیلر تھا۔ہریش کلاتھ مرچنٹ تھا۔شنکر داس ان تینوں کے باپ کا نام تھا جس پر فرم کا نام تھا۔یہ مِنٹ کیمرے بھی بیچتے تھے جو جرمنی سے آتے تھے۔ علاوہ ازیں لکڑی کے کیمرے جن سے کپڑے میں بازو ڈال کر تصویر کھینچتے تھے،شنکر داس اس کا بانی تھا۔پھر پرنس نے یہ کیمرے بنانے شروع کیے۔شنکر داس کا سامان پورے ہندوستان میں جاتا تھا۔لاہور میں سارے فوٹو گرافر ان سے سامان لیتے تھے۔مال روڈ کے مشہور فوٹو گرافر رولو نے شنکر داس کی ایک سال کی ملازمت کی۔پھر اس نے الفنسٹن ہوٹل (موجودہ انڈس) کے ساتھ کرایے پر دکان لے کر سٹوڈیو کھول لیا۔قیام پاکستان کے وقت شنکر داس کمپنی کے مالکان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھارت چلے گئے۔جن کے حوالے دکان آئی انھوں نے سب کچھ بیچ باچ ڈالا۔شنکر داس اینڈ کمپنی سے اگلی دکان یعنی موجودہ کلاسیک کے ساتھ والی جگہ ایڈ سو (Adso)فیبرکس کی دکان تھی۔یہ سوتی کپڑا بیچتے تھے اور اس کا مالک ایک سِکھ تھا۔ اس کے ساتھ ہی جہاں بیڈن روڈ شروع ہوتا ہے ڈنگا سنگھ بلڈنگ ہے،یہاں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے دفاتر،Kشو شاپ،مائرہ موٹرز، الفنسٹن ہوٹل،جین اینڈ الرٹن اور وائٹ وے لیڈلا کی دکانیں تھیں۔مشہور فرم وائٹ وے لیڈلا کی دکان اس جگہ تھی جہاں آج کل فیروز سنز کتابوں کی دکان ہے۔جو غلام رسول بلڈنگ میں واقع ہے اس دکان میں آرایش اور سنگھار نیز خانہ داری کی ہر چیز مل جایا کرتی تھی۔تقسیمِ ہند سے پچیس تیس سال پیشتر مال روڈ کی شان دار دکانوں میں یورپین اور امریکن منڈیوں کا مال بہ کثرت بِکا کرتا تھا۔چیئرنگ کراس پر تقریباً سب دکانوں کے مالک یا منیجر انگریز ہوتے تھے۔جو اپنی ذہانت اور خوش اخلاقی سے گاہکوں کا دل فوراًہاتھ میں لے کر ان کی جیبوں سے روپیا اگلوانے میں یدِ طولا رکھتے تھے۔پھر رینکن کی دکان کے مینیجر مسٹر’’رچی‘‘ کو لوگ گورنر کہا کرتے تھے۔وہ راجائوں اور نوابوں کو پھانسنے کے بے شمار گُر جانتے تھے۔وہ بجا طور پر لاہور کا ’’بانڈسٹریٹ‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ ۲۶ اسی علاقے میں جس جگہ اب پینوراما شاپنگ سنٹر واقع ہے اس کے نیچے سول اینڈ ملٹری گزٹ،پاکستان ٹائمز اور امروز جیسے عظیم اخبارات کا ملبہ دبا پڑا ہے۔سِول اینڈ ملٹری گزٹ اپنے دورمیں برصغیر کا معروف ترین اخبار تھا۔یہ سب سے پہلے ۱۸۴۵ء میں آگرہ سے سن لائٹ کے نام سے جاری ہوا۔ پھر لاہور کرانیکل میں جوکہ ۱۸۴۹ء میں لاہور سے شایع ہوا،مدغم کردیا گیا۔انڈین پبلک اوپینین (INDIAN PUBLIC OPINION)بھی جو ۱۸۶۶ء میں لاہور سے نکلا،اس میں ضم ہوا۔بعد ازاں اس انتظامیہ نے 1872ء میں شملہ سے سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نام سے اخبار جاری کیا جو ۱۸۷۶ء میں لاہور منتقل ہوگیا۔اخبار کا انتظام ۱۹۳۳ء تک پائنیر کمپنی الہ آباد کے ہاتھ میں رہا،پھر ڈالمیا نے اس کے بیشتر حصص خریدلیے۔کچھ عرصہ نکلتا رہا مگر کامیاب نہ ہوسکا۔سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹروں میں رڈیارڈ کپلنگ،کلاڈسکاٹ،شیخ عبدالمجید اور ظہیر صدیقی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔تقسیم ملک کے بعد خواجہ نذیر احمد نے یہ اخبار خریدلیا مگر اشاعت گرتی گئی۔آخر میں یہ مشہور صنعت کار نصیر اے شیخ کی ملکیت بن گیا۔بالآخر یہ اخبار مالی حالات کے باعث ۱۰؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو بند کردیا گیا۔ سوم آنند نے اپنی یادداشتوں ’’باتیں لاہور کی ‘‘ میں اس دور کے اس اخبار کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے۔ ’’ان وقتوںکا لاہور صرف پنجاب کی راج دھانی نہیں تھا۔علم وادب کے مرکز کی حیثیت سے بھی اس کی بڑی شہرت ہوگئی تھی۔مگر مصنفوں کا ذکر ہوتا سب سے پہلے انگریز کا نام ہی زبان پر آتا ہے۔یہ تھا رڈیارڈ کپلنگ جس نے ناول نگار کے طور پر اپنے وقت میں بڑی شہرت حاصل کر لی تھی۔اس نے ہندستان کو،یہاں کے لوگوں کو اور رسم و رواج کو اپنے تعلقات کے جھروکے میں دیکھا اور کہا کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے۔یہ دونوں کبھی نہیں مل سکتے۔کپلنگ نے اپنی ادبی اور صحافتی زندگی کا آغاز لاہور ہی سے کیا تھا۔شروع میں اس نے یہاں کے مشہور انگریز ی روزنامے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں رپورٹر کے طور پر ملازمت کی اور میدانِ صحافت میں اپنے انداز ِتحریر اور جزئیات نگاری کی وجہ سے جلد ہی مشہور ہوگیا۔دُنیا کے اس خطے میں چھپنے والے جن دو چار جریدوں سے بیرونی دنیا آشنا تھی، سول اینڈ ملٹری گزٹ ان میں سے ایک تھا۔ اس کی پرانی فائلوں میں برطانوی ہند کی قرنوں کی تاریخ ہی نہیں بل کہ اس کے شب و روز محفوظ ہیں۔ وائسرائوں کی آمد سے لے کر لاہور میں بارش کی دھوم تک نومبر میں پنکھے اترنے سے لے کر میم صاحبہ اور باوا لوگوں کے مشاغل تک سبھی محفوظ ہیں۔ اس کو بچانے اور سنبھالنے کی کوششیں آخر دم تک ہوئیں۔ جب اِس کے بند ہونے کی خبریں پھیلیں تو انبالے انڈیا کے ٹریبیون میں خبر چھپی کہ کوئی ہندوستانی صاحب ِ ثروت سول خرید کے انبالے لے آئے تاکہ انھیں گزرے ہوئے دنوں کا اعادہ ہو سکے۔ ( کتاب’’ٹھنڈی سڑک:مال روڈ لاہور کا تاریخی ، ثقافتی اور ادبی منظر نامہ‘‘ سے مقتبس)
Similar Threads:
Moona (03-09-2016)
بہت ہی پیاری شئیرنگ کی ہے
آپکی مزید اچھی اچھی شئیرنگ کا انتظار رہے گا
بہت بہت شکریہ۔
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
is ko pyara pakistan main move kar lain
@intelligent086 Thanks 4 informative sharing
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
intelligent086 (03-09-2016)
Moona (03-10-2016)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks