عبدالحفیظ ظفر
پاکستانی فلمی صنعت کی آبیاری میںاگر مرد فنکاروںنے زبردست کردارادا کیا تو اداکارائیں بھی پیچھے نہیں رہیں۔ مرد فنکاروں میں اگر سدھیر، ایم اسماعیل، عنایت حسین بھٹی، سنتوش کمار، درپن، علائوالدین، طالش، ظریف، غلام محمد، اجمل، آصف جاہ، حبیب، نذر، اسلم پرویز اور دیگر کا نام لیا جاتا ہے تو خواتین میں نورجہاں، سورن لتا، مسرت نذیر، نیئر سلطانہ، نیلو، بہار، یاسمین اور آشا پوسلے کا نام کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میڈم نور جہاں تو متحدہ ہندوستان میں ہی اپنے فن کا سکہ جما چکی تھیں۔ انہوں نے اداکارہ اورگلوکارہ کے طور پر بہت شہرت حاصل کی۔ پاکستان آنے کے بعد بھی اداکارہ اور گلوکارہ کی حیثیت سے ان کی شناخت برقرار رہی۔ انہوں نے پاکستان میں بھی یادگار کام کیا۔ ان کی فلمیں اور نغمات آج بھی فلم بینوں کو یاد ہیں اور ان کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا۔ عظیم اداکارائوں میں ایک نام صبیحہ خانم کا بھی ہے جنہوں نے اپنی شاندار اداکاری کی بدولت اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ وہ ایک ایسی اداکارہ تھیں جنہوں نے پہلے ہیروئن اور بعد میں کیریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے اپنی عظمت کے وہ نقوش چھوڑے جن پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔ 16 اکتوبر1936ء کو گجرات میں پیدا ہونے والی صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم ہے۔80ء اور 90ء کی دہائی میں صبیحہ خانم نے ان گنت فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔ ان کے والد کا نام محمد علی ماہیا تھا جن کا تعلق دہلی سے تھا۔ والدہ اقبال بیگم (بالو) امرتسر سے تھیں۔ 1948ء میں سیالکوٹ میں ایک ثقافتی وفد نے ایک سینما کا دورہ کیا۔ اس وفد میں مختار بیگم بھی شامل تھیں۔ انہوں نے وہاں ایک پنجابی گیت گایا ’’کتھے گیا پردیسیاں وے‘‘ یہ فلم ’’سسی پنوں ‘‘کا گیت تھا۔ ان کی اس کارکردگی کو خاصی پذیرائی ملی۔ بس یوں سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت نے ان کیلئے راہیں کھول دیں۔ جلد ہی محمد علی ماہیا نے اپنی بیٹی کا تعارف اس وقت کے معروف سٹیج ڈرامہ رائٹر اور شاعر نفیس خلیلی سے کرایا۔ مختار بیگم کے عزم و ہمت کو دیکھتے ہوئے خلیلی نے انہیں ایک ڈرامے ’’بت شکن‘‘ میں ایک کردار کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول کرلیا۔ یہ نفیس خلیلی ہی تھے جنہوں نے مختار بیگم کا نام صبیحہ خانم رکھا۔ نفیس خلیلی کی درخواست پر مسعود پرویز نے انہیں اپنی فلم ’’بیلی‘‘ میں کاسٹ کرلیا اور یوں ’’بیلی‘‘ صبیحہ خانم کی پہلی فلم ثابت ہوئی جو 1948ء میں ریلیز ہوئی۔ ’’بیلی‘‘ مسعود پرویز کی بطور ہدایتکار پہلی فلم تھی‘ اس کی کاسٹ میںسنتوش کمار، صبیحہ خانم اور شاہینہ شامل تھیں۔ اس کے بعد صبیحہ نے انور کمال پاشا کی سلور جوبلی فلم ’’دو آنسو‘‘ میں نوری کا کردار ادا کیا۔ پھر اگلی فلم ’’آغوش‘‘ میں بھی انہوں نے لاجواب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم کی ہدایات مرتضیٰ جیلانی نے دیں اور فلم کی کاسٹ میں صبیحہ ، سنتوش اور گلشن آراء شامل تھے۔ صبیحہ خانم کی کامیابی کا راز ان کی ہمت، ذہانت اور لچکدار رویہ تھا۔ 50ء کی دہائی میں وہ فلم بینوں کے دلوں کی دھڑکن تھیں۔1953ء میں انور کمال پاشا کی فلم ’’غلام‘‘ میں بھی ان کی اداکاری نے سب کو چونکا کے رکھ دیا۔ ان کی حقیقت پسندانہ اداکاری نے فلم بینوں کو بے حد متاثر کیا۔ ویسے بھی وہ اپنے وقت کی حسین و جمیل اداکارہ تھیں اور ان کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ان کے بعد جس فلم میں صبیحہ خانم کی اداکاری کا نوٹس لیا گیا اس کا نام تھا ’’گمنام‘‘۔ اس فلم کی ہدایات بھی انور کمال پاشا نے دی تھیں اور اس کی کاسٹ میں سیما، سدھیر اور صبیحہ خانم شامل تھے۔ ’’دلا بھٹی‘‘ میں بھی ان کا کردار ناقابل فراموش تھا بلکہ اس کردار کو ان کا امر کردار کہا جاتا ہے۔ صبیحہ خانم کو اپنے زمانے کے تمام مشہور اداکارائوں کے مقابل کاسٹ کیا گیا لیکن سنتوش کمار کے ساتھ ان کی فلموں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی معروف فلموں میں ’’وعدہ، پاسبان، شیخ چلی، سات لاکھ، گمنام، دیوانہ، آس پاس، سسی، سوہنی، چھوٹی بیگم، داتا، حاتم، آج کل، مکھڑا، عشق لیلیٰ، دل میں تو، ایاز، محفل، پرواز، طوفان، موسیقار، سرفروش اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ اب ذرا ان فلموں کا ذکر ہو جائے جن میں صبیحہ خانم نے کیریکٹر ایکٹرس کی حیثیت سے اپنے فن کے جلوے بکھیرے۔ ان فلموں میں ’’کنیز، دیور بھابی، پاک دامن، انجمن، محبت، تہذیب، اک گناہ اور سہی اور دیگر شامل ہیں۔ ’’دیور بھابی‘‘ میں انہوں نے وحید مراد کی بھابی کا کردار ادا کیا اور اتنی اعلیٰ درجے کی اداکاری کی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہدایتکار حسن طارق کی فلم ’’انجمن‘‘ میں بھی وہ وحید مراد کی بھابی کے روپ کے سامنے آئیں اور شاندار اداکاری کی۔ ’’اک گناہ اور سہی‘‘ میں انہوں نے ایک بہت مشکل کردار ادا کیا لیکن انہوں نے اپنی اداکاری میں جس خوبصورتی سے حقیقت کا رنگ بھرا اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔ صبیحہ خانم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستانی سلور سکرین کی پہلی خاتون تھیں جنہیں پرائڈ آف پرفارمنس ملا۔ اس کے علاوہ انہیں بہترین اداکارہ کی حیثیت سے کئی ایوارڈ ملے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس دور میں صبیحہ خانم اپنے عروج پر تھیں تو دوسری طرف مسرت نذیر کی شہرت بھی کچھ کم نہ تھی۔ لیکن شہرت اور معاوضے کے لحاظ سے صبیحہ خانم کو مسرت نذیر پر فوقیت حاصل تھی۔ صبیحہ خانم نے جوا ایوارڈ حاصل کیے ان کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔ سات لاکھ (1957) بہترین اداکارہ، شکوہ (1963)بہترین اداکارہ، دیوربھابی (1967) بہترین اداکارہ، اک گناہ اور سہی (1975) سپیشل ایوارڈ،سپیشل ایوارڈ 30سالہ خدمات (1981)، سنگدل(1982) بہترین معاون اداکارہ صبیحہ خانم نے اپنے دور کے مشہوراداکار موسیٰ رضا المعروف سنتوش کمار سے شادی کی۔ صبیحہ خانم کافی عرصے سے امریکہ میں اپنی چھوٹی بیٹی کے ہاں مقیم ہیں۔ ان کو فلمی دنیا سے علیحدہ ہوئے ایک زمانہ بیت گیا لیکن ان کی فلموںکو آج بھی یاد کیاجاتا ہے۔ انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں یکساں مہارت سے کام کیا۔ ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کسی ایک زبان کی فلموں میں ہی متاثر کن اداکاری کی۔ ایسے لوگ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔




Similar Threads: