کہاں آکے رُکے تھے راستے ، کہاں موڑ تھا اُسے بھول جا
وہ جو مِل گیا اُسے یاد رکھ ، جو نہں مِلا اُسے بھول جا
وہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر میری بات سُن اُسے بھول جا اُسے بھول جا
کیوں عطاء ہوئی غمِ زندگی غمِ یار تیرے واسطے
وہ جو درج تھا تیرے بخت میں ، سَو وہ ہو گیا اُسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی نہ وہ خواب ہی تیرا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے تیرا جاگنا اُسے بھول جا
یہ جو رات دن کا کھیل ہے اُسے دیکھ اُس پہ یقیں نہ کر
نہیں عکس کو بھی مستقل سَرِ آئینہ اُسے بھول جا
جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا ، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اُسے روکنے کا حُصول کیا اُسے مت بھُلا اُسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو تیرے ساحلوں پہ ملا تھا جو
وہ تھا اک دریا وصال کا سو اُتر گیا اُسے بھول جا
سمیع الرحمٰن
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks