نۓ مضمون سُجھاتی ہے صبا
کیا ادھر سے وہ سمن بو نکلا
پاؤں چلنے لگی جلتی ہوئ ریتدشت سے جب کوئ آہو نکلاکئ دن رات سفر میں گزرےآج تو چاند لبِ جو نکلاطاقِ میخانہ میں چاہی تھی اماںوہ بھی تیرا خمِ ابرو نکلااہلِ دل سیرِ چمن سے بھی گۓعکسِ گل سایۂ گیسو نکلاواقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوۓبات اتنی تھی کہ آنسو نکلا
Similar Threads:
Bookmarks