سیاسی پارٹی لوگوں کے مجموعہ یا گروہ کا نام ھےجو ایک مشترکہ اور متفقہ پروگرام اور منشور کے تحت ایک پلیٹ فورم پراکٹھے ھوں اور اپنے پروگرام اور منشورپر عمل کرنے کے لئے جمہوری طریقہ سے حکومت بنانے کے لئے جدوجہد کریں سیاسی وجمہوری پارٹی کے لئے ضروری ھے کہ أس میں شامل لوگ اس کے منشور اور پروگرام سے متفق ھوں ۔ اور وہ اسکے نظم و ضبط کے پابند ھوں ۔ ۔ پارٹی میں جتنا نظم اور ڈسپلن ھوگا پارٹی اتنی ھی منظم مضبوط اورکامیاب ھوگی ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت کے لئے اس کے منشور یا پروگرام کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کی مقبولیت کو مُدِنظر رکھا جاتا ھے ۔ سیاست کو خدمت خلق سمجھ کے سیاست کی وادی میں قدم رکھنے والے أنگلیوں پر گنے جاسکتے ھیں ۔ پاکستانی سیاست دانوں کی اکثریت سیاست کو تجارت سمجھ کے اپناتے ھیں اور ان کو اپنی تجارت سے غرض ھوتی ھے وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر اپنی تجارت کے موافق قوانین بنانے میں مشغول رھتے ھیں ۔ پارٹیوں کے کرتا دھرتا بھی کسی کو پارٹی میں لیتے وقت أس کے خیالات اور نظریات اور تعلیم سے کوئی غرض نہیں رکھتے نہ ھی اس سے پارٹی کے منشور یا پروگرام سےمتفق ھونا ضروری سمجھا جاتاھے ۔ ھاں یہ یقین ضرور کرلیتے ھیں کہ موصوف انتخاب میں سیٹ جیتنے کے قابل ھو ۔ جب ایک ممبر اس قابل ھو کہ وہ خود سیٹ جیت سکتا ھوتو وہ پارٹی کی اتنی پرواہ نہیں کرتا بلکہ پارٹی کو اس کے ناز أٹھانا پڑتے ھیں اکثر اقات تووہ پارٹی کو بلیک میل بھی
کرتے ھیں ۔ پاکستان میں ایک دو جماعتوں کو چھوڑ کر تقریبا تمام پارٹیز کے منشور اور پروگرام میں ایک دو شقوں کےعلاوہ کوئی فرق نہیں ھوتا ۔فرق ھے تو پارٹی کے ٹریڈ مارک کا ۔ مثلا ن لیگ ق لیگ ضیا لیگ فنکشنل لیگ مشرف لیگ ان سب کے منشور میں تعلیم ،صحت ، صنعت،داخلہ اور خارجہ پالیسی میں کیا اور کتنا فرق ھے؟۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کا منشور بھی ان لیگوں کے منشور سے مماثلت رکھتا ھے ۔ یہ پارٹیاں چونکہ ایک ایک شخص یا خاندان کی ملکیت ھیں اس لئے ان کے رھنما نواز شریف زرداری چوھدری برادرز اور پیرپگاڑا کا ارکان اور پارٹی کے عہدیداران پر کنٹرول ھے اور وہ اپنے ارکان کی کرپشن وغیرہ کو زیادہ اھمیت نہیں دیتے اس لئے جب تک چل سکیں بادل نخواستہ ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ھیں ۔ ڈسپلن کی کمی اور نظریات کے اختلاف کے باوجود اپنے مفاد کے لئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا انکی مجبوری ھے ۔
تحریک انصاف ایک مقبول اور پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی ھے اسکے رھنما عمران خان کرکٹ میں بہترین منتظم مانے جاتے تھے اور أن کے ڈسپلن کا ڈنکا بجتا تھا مگر اپنی پارٹی میں وہ نظم و نسق اور ڈسپلن نہیں رکھ سکے اور اس وقت یوں محسوس ھوتا ھے کہ جیسے پارٹی پر أنکی گرفت کمزور ھوتی جارھی ھے
تحریکِ انصاف کی قیادت کو اپنے اسمبلی ممبران پر بھی بد اعتمادی ھے اسی لئے اسمبلیوں سے استفعٰی کی تصدیق کے لئے ممبرز کو تنہا تنہا شپیکرز اسمبلیز کے پاس بھیجنے سے احتراز کیا گیا ۔ پاکستان کےمختلف شہروں میں پارٹی میں گروپ بندی ھے لاھور کے
صدر کے خلاف ایک محاذ کھلا ھوا ھے ۔ تحریک انصاف ایک غیر منظم پارٹی ھونے کے باوجود دوسری بڑی پارٹی کا اعزاز بھی رکھتی ھے ۔ مگر انتخابات میں اختلافی گروپوں کی وجہ سے اسے زک بھی پہنچ سکتی ھے ۔ اور پارٹی نقصان أٹھا سکتی ھے ۔ عمران خان انتخابی دھاندھلی کے خلاف احتجاجی سیاست میں مصروف رھے اور پارٹی کی تنظیم کرنے میں کوتاھی کے مرتکب ھو بیٹھے ۔اب وقت سے پہلے پارٹی کے اندر انتخاب کرانے کا عندیہ دیا گیا ھے امید ھے پہلی بارپارٹی کے انتخاب میں جو خامیاں رہ گئی تھیں ان سے احتراز کیا جائیگا ۔ اور پارٹی کارکنوں کوبھی گروپ بندی سے پرھیز کرنا ھوگا ۔ کوشش کریں کہ عام آدمی کو پارٹی کے عہدے ملیں۔آزمائے ھوئے اور دوسری پارٹیوں سے نکلے یا نکالے ھوئے اور جاگیرداروں اور وڈیروں اور کرپٹ اور لینڈ مافیا کے کرتا دھرتا جیسی شہرت رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ اپنے اتحاد سے مخلص اور کُرپشن سے پاک محبِ وطن افراد کو منتخب کریں تاکہ پارٹی میں نظم ونسق پیدا ھو ۔ یقین رکھیں جب تک پارٹی میں نظم ونسق نہیں ھوگا ۔ اور جب تک پارٹی کا عام ممبر اورھر عہدیدار أس کے منشور اور پروگرام کو اپنا ذاتی ایجنڈا نہ سمجھے گا اس وقت تک پارٹی کے
کامیابی کے امکانات معدوم رھیں گے اور اگر پارٹی کو کامیابی مل بھی گئی تو أس سے استفادہ حاصل کرنا یعنی منشور پر عمل کرنا پارٹی کے لئے ناممکن ھو گا۔ جب تک پارٹی میں جیتنے والے گھوڑوں پر تقیہ کیا جاتا رھا اس وقت تک تحریک انصاف ، دوسری پارٹیز ن لیگ ق لیگ اور پیپلز پارٹی کا ھی چربہ رھے گی اس لئے عمران خان کو جاگیر داروں وڈیروں کو نظر انداز کرکے عام لوگوں میں سے تعلیم یافتہ مخلص اور تحریک انصاف کے منشور کے ساتھ متفق عام آدمی کو پارٹی میں لینا ھوگا اور یہی عام آدمی ھی
عمران خان کا ساتھ دے گا ورنہ وڈیرے اور جاگیردار اور جیتنے والے گھوڑے عمران خان جیسے مخلص لیڈر کے لئےمسلسل سرِ درد بنے رھیں گے ۔
ظفر




Similar Threads: