پورٹ ہیورون، ریاست مشیگن کا ایک چھوٹا سا شہر تھا جو ڈٹرائٹ سے تقریباً پچاس میل شمال مشرق میں واقع تھا۔ 1854ء میں بھی وہاں صاف ستھری اور سیدھی سڑکیں تھیں جن پر دونوں طرف درخت لگے ہوئے تھے۔ شہر سے ایک میل شمال میں جھیل ہیورون کا نیلا پانی دور تک پھیلا ہوا تھا۔ پورٹ ہیورون کے مشرق میں دریائے سینٹ کلیر بہتا تھا جس کے ایک طرف مشیگن کے جنگل اور دوسری طرف کینیڈا کے کھیت تھے۔ پورٹ ہیورون کے بالکل ساتھ ہی گریٹیوٹ کا پرانا فوجی قلعہ اور چھائونی کے سرے پر ایک سفید دو منزلہ مکان تھا جو لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس کی پہلی منزل پر صد ر دروازے سے عمارت کے پچھلے حصّے تک ایک بہت بڑا ہال تھا۔ دوسری منزل پر چھ کمرے تھے۔ مسٹر ایڈیسن نے یہ مکان اپنے رہنے کے لیے خرید لیا۔ انہوں نے خاص پورٹ ہیورون میں غلہ اور چارے کا کاروبار شروع کر دیا۔ قلعہ کے سامنے نئے مکان میں رہنے کے بعد جب انہیں کچھ اطمینان ہوا تو مسز ایڈیسن نے فیصلہ کیا کہ اب ال کو لکھنے پڑھنے میں لگا دینے کا وقت آگیا ہے۔ ایک دن مسٹر ایڈیسن بگھی میں بیٹھ کر سات سالہ ال کو قریب کے ایک سکول میں لے گئے جس میں صرف ایک کمرہ تھا۔ اس میں سات سے بیس سال تک کی عمر کے لڑکے پڑھتے تھے۔ اسی ایک کمرے میں آٹھ مختلف جماعتوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ استاد صرف ایک تھا اس لیے وہ بہت زیادہ مصروف رہتا تھا۔ کام کی زیادتی نے اسے ایک حد تک چڑ چڑا بنا دیا تھا۔ کند ذہن لڑکے ہمیشہ اگلی قطاروں میں بیٹھتے تاکہ ان پر ہر وقت استاد کی نظر پڑتی رہے۔ زیادہ عمر کے لڑکے اور لکھنے پڑھنے میں تیز طالب علم بالکل پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ ایک جماعت بلند آواز سے اپنا سبق پڑھتی اور دوسری جماعتوں کے لڑکے اور لڑکیاں اپنی اپنی کتابیں پڑھنے یا سوال حل کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ ال کو سکول بہت غیر دلچسپ معلوم ہوا۔ اس کے پاس صرف پہلا قاعدہ اور ہجے سکھانے کی کتاب تھی، اسی سے وہ ہجے بھی سیکھتا اور سبق بھی لیتا۔ وہ بہت جلد وہ تمام چھوٹی چھوٹی کہانیاں زبانی یاد کر لیں جو اسے پڑھنا پڑتی تھیں یا جن کے مشکل الفاظ کے معنی یاد کرنا پڑتے۔ اسے اپنی کتابوں سے ان اہم سوالات کا کوئی جواب نہیں ملتا تھا جو اس کے ہمیشہ مصروف رہنے والے دماغ میں ہر وقت ابلتے رہتے تھے۔ اس کی پہلی کتاب میں صرف اتنا لکھا تھا کہ ’’اے‘‘ سے ’’ایپل‘‘ (سیب) ہوتا ہے اور ال نے یہ بہت جلد یاد کر لیا مگر کوئی سرخ کیوں ہوتا ہے اور کوئی سبز کیوں؟ اس کے بیج چھوٹی چھوٹی تھیلیوں کے اندر بیج دان میں کیوں بند ہوتے ہیں؟ اس کی کتاب میں ان اہم سوالات میں سے ایک کا بھی جواب نہیں تھا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ اپنا وقت گھر سے باہر گزارا کرتا تھا مگر سکول میں اسے لگاتار کئی گھنٹے تک جماعت میں بیٹھنا پڑتا۔ یہ اسے بالکل پسند نہیں تھا۔ یہ چھوٹا سا لڑکا شروع ہی سے مسلسل اور انتھک سوالات کرنے کا عادی تھا۔ اسے یہ معلوم کرنے کا شوق تھا کہ پانی پہاڑی سے نیچے کیوں بہتا ہے؟ برف صرف سردیوں میں کیوں گرتی ہے اور قوس قزح میں اتنے خوبصورت رنگ کہاں سے پیدا ہو جاتے ہیں؟ ہر وقت اور ہر شخص سے سوالات کرنے کی وجہ سے ال کا نام ہی ’’کیوں‘‘ پڑ گیا تھا۔ اس کے گھر والے اس کے سوال سن کر مسکراتے تو ضرور تھے مگر جواب دینے کی بھی کوشش کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ مان لیتے تھے کہ انہیں اس کے سوال کا جواب معلوم نہیں ہے۔ کبھی وہ اس سے کہتے کہ وہ اس وقت تک انتظار کرے جب تک وہ خود پڑھنے اور اپنے سوال کے جواب خود معلوم کرنے کے قابل نہ ہو جائے۔ سکول میں ال کا استاد کبھی اس کے سوال کا جواب نہیں دیتا تھا۔ وہ بہت چڑ چڑا تھا اور اسے بات بات پر غصّہ آجاتا تھا۔ ال اس سے کوئی سوال پوچھتا تو وہ اسے جھڑک دیتا اور اپنی کتاب پڑھنے کا حکم دیتا۔ کبھی کبھی وہ اسے ڈانٹ کر کہتا: ’’لڑکے گستاخ کیوں بنتے ہو؟ اگر تم خیال کرتے ہو کہ تم مجھ سے زیادہ جانتے ہو تو میاں عقل مند میری جگہ آ جائو اور جماعت کو پڑھانا شروع کر دو۔‘‘ ایسی باتیں سن کر تمام طالب علم ہنس دیتے اور ال اداس ہو جاتا تھا۔ 1855ء میں ایک دن ال اپنے گھر واپس گیا۔ سکول میں نام لکھائے ہوئے اسے صرف تین مہینے ہوئے تھے۔ اس کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے جیسے وہ کوئی بہت بڑی گھتی سلجھانا چاہتا ہو۔ اس نے اپنی سلیٹ اور کتاب کھانے کی میز پر رکھ دی اور باورچی خانے میں چلا گیا جہاں اس کی ماں نے کھانا پکانا شروع ہی کیا تھا۔ ’’امّی! پراگندہ ذہن کسے کہتے ہیں ‘‘؟ ال نے سوال کیا۔ مسز ایڈیسن نے چولھے سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا:’’کسی شخص کا دماغ ٹھیک نہ ہو اور وہ اول جلول باتیں کرے تو اس کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔‘‘ (جی- گلینوڈ-کلارک کی تصنیف ’’ایڈیسن:عظیم موجد کی داستانِ زندگی‘‘ سے مقتبس) -: