یہ اور بات کہ آسودگی بہت کم ہے
ذہین شہر میں اب مفلسی بہت کم ہے
عجیب دور ہے یہ شہرِ میرؔ و غالبؔ کا
سخن سرا ہیں بہت، شاعری بہت کم ہے
خصوصیات کچھ اُس میں فرشتوں جیسی ہیں
یہ اور بات ہے، وہ آدمی بہت کم ہے
مزاج رکھتے ہیں سب لوگ اب سمندر کا
نئے شعور میں دریا دلی بہت کم ہے
چلو مرے ہوئے لوگو ں کو ہی صدائیں دیں
کہ زندہ لوگوں میں اب زندگی بہت کم ہے
عجیب شہرہے یہ چھانو بھی ہے کم لیکن
ضرورتوں کی یہاں دھوپ بھی بہت کم ہے
ڈاکٹر فریاد آزر
Similar Threads:
Bookmarks