آدمی اتنا ہی تنہا ہوتا ہے جتنا محسوس کرتا ہے۔تنہائی آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جدھر نظر اٹھا تا ہے، آئینے کو مد مقابل پاتا ہے۔ اس لیے وہ تنہائی یعنی اپنی ہی صحبت سے گریز کرتا اور ڈرتا ہے۔تنہا آدمی کی سوچ کی انگلی پکڑ کر کشاں کشاں ہر چھوڑی ہوئی شاہراہ،ایک ایک پگ ڈنڈی، گلی کوچے اور چوراہے پر لے جاتی ہے۔جہاں جہاں راستے بدلے تھےاب وہاں کھڑے ہو کر انسان پر منکشف ہوتا ہے کہ درحقیقت راستے نہیں بدلتے، انسان خود بدل جاتا ہے۔سڑک کہیں نہیں جاتی۔وہ تو وہی کی وہی رہتی ہے۔مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔راہ کبھی گم نہیں ہوتی، راہ چلنے والے گم ہو جاتے ہیں۔
مشتاق احمد یوسفی
آبِ گم
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out


Reply With Quote

Bookmarks