SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: امن خلق- ٢٠

    1. #1
      The thing women have yet to learn is nobody gives you power. You just take it. Admin CaLmInG MeLoDy's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,213
      Threads
      2245
      Thanks
      931
      Thanked 1,367 Times in 868 Posts
      Mentioned
      1038 Post(s)
      Tagged
      7966 Thread(s)
      Rep Power
      10

      امن خلق- ٢٠

      بیسو یں پا ر ے کے اہم مضامین



      توحید باری تعالیٰ پر ”تقریری اسلوب“ سے دلائل پیش کرتے ہوئے بیسویں پارہ کی ابتداءہوتی ہے کہ تم جتنی بھی کوشش کرلو، غور و خوض کرلو، اس سوال کا جواب یہی ہوسکتا ہے، قرآن کریم کہتا ہے آسمان و زمین کو پیدا کرکے بارش برسا کر پُر رونق سرسبز و شاداب باغ اور باغیچے کس نے پیدا کئے؟ کیا تم ایسے درخت بنا سکتے تھے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے معبودوں کے پیچھے بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ کس نے زمین کو ہچکولے کھانے سے روک کر جانداروں کے لئے قرار گاہ بنایا۔ اس میں نہریں اور پہاڑ بنائے اور دو دریاﺅں کو آپس میں مخلوط ہونے سے بچانے کے لئے درمیان میں حد فاصل بنائی، کیا ایسے اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود شریک کار ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ مشرک لوگ علم کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ پریشان حال جب پکارتا ہے تو اس کی تکلیف دور کرنے اور تمہیں زمین پر اختیارات سونپنے والا کون ہے؟ خشکی اور تری کے اندھیروں میں ہدایت دینے والا اور بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلانے والا کون ہے۔ تمہاری پہلی تخلیق کے بعد دوبارہ پیدا کرنے اور آسمان و زمین سے تمہیں روزی بہم پہنچانے والا کون ہے؟ آسمان و زمین کے چھپے ہوئے بھید جاننے والا کون ہے؟ ان مشرکین کے پاس شرک کے لئے کوئی دلیل نہیں جس سے اپنی سچائی ثابت کرسکیں۔ یہ بے سوچے سمجھے بہکے چلے جارہے ہیں۔ دراصل آخرت کے بارے میں ان کا ”علم“ ان سے کھو گیا ہے بلکہ یہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوکر بینائی کے تقاضوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ پھر مشرکین کے گھسے پٹے اعتراض کی بازگشت سنائی گئی ہے کہ بوسیدہ ہڈیوں اور پیوند زمین ہوجانے کے بعد ہمیں دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا ایسے مجرموں کا انجام سب کے سامنے ہے۔ جس عذاب کے لئے جلدی مچارہے ہیں وہ اگر اچانک آگیا تو انہیں کون بچا سکے گا؟ ہر قسم کے اختلافات کا حل قرآن کریم میں ہے۔ اس میں ہدایت بھی ہے رحمت بھی ہے، کافر سماعت کے تقاضے پورے نہیں کرتے اس لئے انہیں بہرے بلکہ مردے قرار دیا گیا ہے۔ پھر قرب قیامت کی بڑی نشانی ”دابة الارض“ کے ظہور کا بتایا گیا ہے۔ پھر صور پھونکا جانا، پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑتے پھرنا اور لوگوں کا ٹولیوں کی شکل میں احتساب کے لئے پیش ہونا اور نیکی سر انجام دینے والوں کا گھبراہٹ سے محفوظ رہنا اور ”بدی“ کے مرتکبین کا قیامت کے دن اوندھے منہ جہنم میں ڈالا جانا بیان ہوا ہے۔ مسلمان بن کر رب کعبہ کی عبادت کی تلقین اور قرآن کریم کی تلاوت کا حکم ہے۔ ہدایت یافتہ انسان اپنا فائدہ کرتے ہیں جبکہ گمراہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ اللہ اپنی قدرت کے دلائل کا مشاہدہ کراتے رہیں گے جنہیں تم اچھی طرح پہچان لوگے تمہارے اعمال سے تمہارا رب غافل نہیں۔

      سورة القصص


      مکی سورت ہے۔ اٹھائیس آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے۔ پوری سورت ہی قصہ موسیٰ و فرعون کے مختلف پہلوﺅں کو اجاگر کررہی ہے۔ اس لئے اس کا مرکزی مضمون ”اثبات رسالت“ ہے۔ باطل کا انداز کہ وہ حق کے ماننے والوں کو فرقوں اور دھڑوں میں تقسیم کرکے ان کی طاقت توڑتا ہے اور پھر ان پر بلا روک ٹوک مشقِ ستم کرتا ہے۔ فرعون اپنی فسادی ذہنیت کے پیش نظر اپنی ماتحت رعایا کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے ان کے لڑکوں کو قتل کرادیتا اور لڑکیوں کو زندہ رکھ کر ان سے خدمت لیتا۔ اللہ نے کمزوروں اور ضعیفوں پر احسان کرکے انہیں دنیا کی قیادت پر فائز کرنے اور فرعون کو اس کی غلطیوں اور مظالم کی سزا دینے کا فیصلہ کرکے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں پیدا کیا۔ فرعون کے گھر میں سرکاری خرچہ پر ان کی پرورش کرائی۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کا ایک فرعونی فوجی پر حملہ اور اسے جان سے ماردینے کا واقعہ شہر مدین میں روپوشی کا زمانہ گزارنے اور حضرت شعیب علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور ان کی خدمت کرنے کا تذکرہ پھر ان کی صاحبزادی سے عقد نکاح اور وطن واپسی کے وقت راستے میںنبوت سے سرفرازی اور فرعون کے دربار میں حق و صداقت کا ڈنکا بجانے کی ذمہ داری کو ذکر کرنے کے بعد بتایا ہے کہ فرعون کے مطلوب ترین ملزم کو اس کے دربار میں برملا چیلنج کرنے کا حوصلہ عطاءفرما کر اسے مرعوب کرکے موسیٰ علیہ السلام کی حفاظت کی۔ فرعون کی بچکانہ حرکت کہ اونچی عمارت کی چھت سے آسمانی معبود پر تیر اندازی کرکے اپنی بڑائی کے جذبہ کی تسکین اور پھر خدائی پکڑ کا عبرتناک منظر کہ جن دریاﺅں اور محلات و قصور پر اسے فخر تھا انہیں میں رہتے ہوئے اسے غرق کرکے اس کی جائیداد و حکومت بنی اسرائیل جیسی ضعیف قوم کے حوالہ کرکے بتایا کہ اقتدار و دولت آنی جانی ہے۔ اور اللہ اس کے ذریعہ بندوں کی آزمائش کیا کرتے ہیں، امم ماضیہ کے واقعات کا ایک نبی امی کی زبان سے تذکرہ یہ اس کے نبی برحق ہونے کی واضح دلیل ہے۔پھر اہل حق اور اہل باطل کی ذہنیت اور ان کی عملی استعداد کو بیان کرکے واضح کیا کہ قوموں کی ہلاکت و بربادی ان کے آسمانی نظام سے بغاوت و سرکشی کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ ہدایت کا اختیار اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ان کافروں کا کہنا کہ اگر ہم حق پر عمل پیرا ہوئے تو دنیا کی کافر قومیں ہمیں اچک کر لے جائیں گی بالکل بے وزن بات ہے۔ یہ لوگ حرم محترم کے باشندے ہیں جو امن کے لئے مثالی خطہ ہے اور ہر قسم کے پھل اور مصنوعات دنیا کے کونے کونے سے انہیں مہیا کی جاتی ہیں پھر یہ اس قسم کی بے سروپا باتیں یہ کیوں کرتے ہیں؟ پھر قیامت کا دن اور معبودان باطل کی بے بسی اور بے رحم محاسبہ کا تذکرہ اور اس حقیقت کا بیان کہ اس دن ایمان اور اعمال صالحہ والے ہی کامیاب و کامران ہوسکیں گے۔ پھر مخلوقات کی تخلیق و تربیت کے تمام اختیارات اللہ کے پاس ہونے اور سینوں میں چھپے اور خفیہ بھیدوں سے واقف ہونے کا اعلان ہے۔ پھر اس کی حکیمانہ تربیت کے مظہر کو واضح کیا گیا کہ رات کا اندھیرا سکون و آرام کے لئے، دن کا اجالا کام کاج اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے۔ اگر اللہ رات لمبی کرکے اجالے کی آمد کو روک دے یا دن لمبا کرکے اندھیرے کا راستہ بند کردے تو کون ہے جو تمہارے آرام اور نقل و حرکت کی ضروریات کا انتظام کرسکے۔
      حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دور نبوت میں ہر محاذ پر باطل کے خلاف سرگرم رہے اور منکرین آخرت کے ساتھ ”چو مُکھی“ لڑائی لڑتے رہے۔ ان کا یہ کردار فرعون و ہامان کے مقابلہ اور ”الملائ“ کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے، سرمایہ داری کے نمائندہ قارون کی سرزنش و فہمائش اور قوم کی بے اعتدالیوں پر صبر و تحمل کی شکل میں سامنے آتا ہے، قارون سے موسیٰ علیہ السلام کی گفتگو کو قرآن کریم نے نہایت حسین پیرائے میں یہاں بیان فرمایا ہے۔ قارون، موسیٰ علیہ السلام کا رشتہ دار اور ایک غریب انسان تھا۔ کاروبار میں ایسی برکت اور ترقی ہوئی کہ وہ بے بہا خزانوں کا مالک بن گیا۔ اس کی چابیاں سنبھالنے کے لئے پہلوانوں کی ایک جماعت کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔ اس سے یہ کہا گیا کہ تکبر و اتراہٹ کوئی اچھی صفات نہیں ہیںجس طرح اللہ نے مال و دولت کی فراوانی عطاءفرماکر تم پر احسان کیا ہے تم غریبوں، مسکینوں کے ساتھ تعاون کرکے مخلوق خدا پر احسان کا مظاہرہ کرو اور اپنے مال و دولت کی بنیاد پر فتنہ و فساد پھیلانے سے باز رہو، مگر اس نے اللہ کی عطاءو احسان کو تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ سب مال ودولت میرے تجربہ اور کاروباری سوجھ بوجھ کا نتیجہ ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے جب اسے فہمائش کی تو اس نے انتقامی کارروائی کے طور پر ایک فاحشہ بدکار عورت کو پیسے دے کر موسیٰ علیہ السلام کی کردارکشی کرنے کے لئے بدکاری کا الزام لگوانے کی کوشش کی، جس پر موسیٰ علیہ السلام نے بد دعا دی جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قارون کو سوچنا چاہئے کہ اس سے پہلے کتنے بدکردار افراد اور قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں وہ طاقت و قوت میں اس سے بھی زیادہ تھے۔ ایک مرتبہ قارون غرور و نخوت کا پیکر بن کر خوب بن سنور کر نکلا لوگ اس کے وسائل کی فراوانی اور شان شوکت کو دیکھ کر بہت متا ثر ہونے لگے۔ اللہ نے اس حالت میں اس پر اپنا عذاب مسلط کرکے زمین کو حکم دیا کہ اس بدبخت کو نگل جائے اور اس طرح اسے اس کے مال ودولت اور محلات سمیت زمین دھنسادیا گیا۔ اس کے حشم و خدم اور حمایتی اسے اللہ کی پکڑ سے نہ بچاسکے اور دنیا پر یہ واضح ہوگیا کہ مالی وسعت و آسائش بھی اللہ کے حکم سے ملتی ہے اور رزق میں تنگی اور کمی بھی اللہ کے حکم سے آیا کرتی ہے۔
      آخرت کی زندگی میں کامیابی کے لئے تکبر اور فساد جیسے رذائل سے پاک ہونا ضروری ہے، کیونکہ بہتر انجام متقیوں کے لئے مخصوص ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے ہجرت کے وقت آپ اپنے وطن مو لوف کے چھوٹ جانے پر رنجیدہ خاطر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم کی وجہ سے آپ پر یہ پریشانی آرہی ہے، آپ تسلی رکھیں، ہم آپ کو اپنے وطن میں باعزت واپس لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم آپ کی تمناﺅں اور کوششوں سے آپ کو نہیں ملا بلکہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی رحمت سے یہ نعمت غیر مترقبہ آپ کو عطا فرمائی ہے لہٰذا آپ منکرین کے ساتھی اور مددگار نہ بنیں۔
      اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ کیجئے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، ہر چیز فانی ہے، اسی اللہ کے فیصلے کائنات میں نافذ ہوتے ہیں اور تم سب لوٹ کر اسی کے پاس جاﺅگے۔


      سورة العنکوت


      مکی سورت ہے، انہتر آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ عنکبوت مکڑی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں عنکبوت کا تذکرہ ہے۔ ابتداءسورت میں حق کے راستہ میں مشکلات و مصائب جھیلنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کا دعویٰ کرنے سے ان پر کسی قسم کی آزمائش نہیں آئے گی۔ پہلی قوموں پر بھی ابتلاءو آزمائش کے دور آتے رہے ہیں۔ سچوں اور جھوٹوں میں فرق کرنے کے لئے ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ بدکردار لوگ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہم سے سبقت لے جائیں گے۔ اللہ سے ملاقات کا وقت مقرر ہے۔ اگر کوئی دین کے لئے تکلیف اٹھائے گا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی فرمانبرداری کی حدود بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کفر و شرک میں والدین کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ایمان کو چھوڑ کر ہمارے طریقہ پر چلنے لگ جاﺅ، تمہارے گناہوں کے ہم ذمہ دار ہیں۔ یہ لوگ ان کے گناہ تو کیا اٹھائیں گے اپنے ہی گناہوں کے بوجھ تلے دب کر قیامت کے بے رحم احتساب میں الجھ کر رہ جائیں گے۔ پھر نوح علیہ السلام کی ساڑھے نو سو سالہ طویل جدوجہد کے نتیجہ میں ان کے ساتھیوں کی طوفان سے کشتی کی مدد سے نجات اور قوم کی ہلاکت کا تذکرہ پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی دعوت توحید کا تذکرہ اور قوم کی ہٹ دھرمی اور بے اختیار معبودان باطل کی عبادت پر کاربند رہنے کا بیان اور اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر دور میں مفاد پرست، اللہ کے سچے رسولوں کا انکار کرتے آئے ہیں اور دنیا میں چل پھر کر منکرین کے انجام کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ پھر لوط علیہ السلام اور ان کی بدکردار ملعون قوم کی ہلاکت کا بیان ہے اور قوم مدین و عاد و ثمود اور فرعون و ہامان کی ہلاکت کو بیان کرکے قوموں کی تباہی کا ضابطہ بیان کیا ہے کہ وسائل سے محرومی انبیاءکی دعوت کا انکار اور گناہوں کی زندگی کو اختیار کرنے پر قوموں کو مختلف انداز میں ہلاکت کیا گیا ہے۔ کبھی پانی کے سیلاب اور آندھی کے طوفان سے، کبھی زور دھماکہ اور زلزلہ سے، کبھی زمین دھنساکر یا دریا میں غرق کرکے، حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کا ظلم ہی ان کی ہلاکت کا باعث بنا کرتا ہے۔ اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتے۔
      اللہ کے علاوہ معبودان باطل کی طاقت و قوت ایک مکڑی اور اس کے جالے کے برابر بھی نہیں ہے۔ یہ تمام مثالیں لوگوں کو سمجھانے کے لئے دی جاتی ہیں اور علم رکھنے والے ہی انہیں سمجھتے ہیں۔ آسمان و زمین کی بہترین تخلیق اہل ایمان کے لئے اللہ کی قدرت کی عظیم الشان دلیل ہے۔



      Similar Threads:





    2. #2
      Moderator www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      BDunc's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      8,431
      Threads
      678
      Thanks
      300
      Thanked 249 Times in 213 Posts
      Mentioned
      694 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      119

      Re: امن خلق- ٢٠

      Excellent work


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •