SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 4 of 4 FirstFirst 1234
    Results 31 to 31 of 31

    Thread: رنگ برنگی دنیا رنگ برنگی سوچ

    1. #1
      The thing women have yet to learn is nobody gives you power. You just take it. Admin CaLmInG MeLoDy's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      6,213
      Threads
      2245
      Thanks
      931
      Thanked 1,367 Times in 868 Posts
      Mentioned
      1038 Post(s)
      Tagged
      7966 Thread(s)
      Rep Power
      10

      رنگ برنگی دنیا رنگ برنگی سوچ




      بڑی مشکل سے میری آنکھ دوپہر میں لگتی ہے. آج اچھی خاصی سو گئی تھی. مگر میرا کمرہ چونکہ درمیان والا ہے. اس لئے اس گھر میں ہونے والی تمام سرگوشیاں ، حالات، واقعیات میرے کانوں میں نہ چاہتے ہوئے بھی گونجنے لگتے ہیں.

      یہ میرے کمرے کے بایئں جانب والے کمرے کی آواز تھی. اس کمرے سے پچھلے ٦ ماہ سے یہ ہی آوازیں میرے کانوں میں پڑتی ، اور کبھی مجھے پریشان کر دیتی، اور کبھی میری ذات کا موازنہ کرنے پر مجھے مجبور کرتی. یہ ایک بزرگ کی آواز ہے. جو ٦ ماہ پہلے اچھے خاصے چلتے پھرتے ، دنیا کی رونقوں میں شامل ہوتے. اور بھر پور دبدبے والے انسان تھے. کہ جن کی بات رد کرنا سمجھو اپنی شامت کو دعوت دینے کے مترادف تھا. .اکثر بات بے بات الجھا کرتے . اور اپنے آگے کسی کی نہ چلنے دینے کے قائل تھے. میرے ساتھ بھی ان کے حالات ایسے ہی گزرے کہ جو میرے ذہن میں کچھ خاص اچھی یادیں نہیں چھوڑتے. .مگر اب مجھے ان سے ہمدردی تھی. شاید رشتے داری ہونے کی وجہ سے. یا شاید میرا ضمیر ان کی بےبسی پر ان کی طرف مائل ہونے اور ان کا خیال کرنےپر مجبور کرتا. مگر ہم ٹھہرے دنیا دار. کبھی خیال کر لیتے. اور کبھی دنیا داری میں مگن ہوتے تو خیال آتے ہوئے بھی ذہن کو جھٹک دیتے. شاید اس ہی کیفیت کو پتھر دلی کہا جاتا ہے. پھر کبھی خود کی ذات کا ان کی ذات سے موازنہ کیا کرتی. .کہ اکیلے یہ بھی ہیں. تو میں کونسا لوگوں میں گھری بیٹھی ہوں. انہوں نے تو اپنی جوانی میں لوگوں کو اپنے ارد گرد پایا. ، مستقبل کی فکر بھی ان کو مصروف رکھتی ہوگی. مگر میرا تو نہ مستقبل ہے. نہ مستقبل کی فکر. اس ہی موازنہ میں خد کو ان سے زیادہ مجبور اور تنہا پاتی. دل سے بس ایک آه ہی تو نکل جاتی. یہ کیفیت بھی مجھے بے سکونی سے ہی نوازا کرتی تھی.

      کمرے کے دوسری جانب والے کمرے سے بھی ایک بہت معصوم آواز . اکثر میرے دل میں بے بسی کے عالم کو بڑھا دیتی. مگر میں پھر بھی اسکی زندگی سے خود کی زندگی کا موازنہ ہی کیا کرتی. حالانکہ کہنے کو میرا اور اسکا کوئی مقابلہ نہیں تھا. مگر میرے دل کی ہوک مجھے کہاں چین دیتی تھی. یہ ایک دس سالہ بچی تھی. پیدائشی معذور. اس کی معصومیت جس طرح پہلے دن تھی اسی طرح آج تک ہے. اس بچی کا کام یا تو رونا. یا صرف ہنسنا تھا. ساری ساری رات نہ جانے فرشتوں کے ساتھ کھیل کر ہنسا کرتی. یا گھر بھر کی خاموشی اسے ذہنی سکون دے کر ہنسایا کرتی. اور دن بھر بھوک، کبھی گھر بھر کے شور سے بے چیں ہوتی تو رویا کرتی. مگر نہ بیٹھ پاتی کہ تھوڑا وقت دل کو بہلا لے بچوں کی طرح کھیلنے میں. اور نہ ہی کچھ که پاتی. کہ یہ بھی بتا سکے کہ پیٹ بھر کھایا بھی ہے یا صرف لوگوں کے رحم و کرم پر جو مل گیا اس پہ اکتفا کیا.

      یعنی میرے کمرہ کے دایئں بایئں دونوں اطراف جو کمرے تھے. وہ مجبوری کی منہ بولتی داستان
      تھی. میں اپنا موازنہ اس معصوم روح سے بھی کیا کرتی. کہنے کو تو یہ معذور ہے. مگر پھر بھی مجھ سے لاکھ درجے بہتر ہے. کم از کم آج تک معصوم تو ہے. نہ کسی کی برائی میں شامل نہ اچھائی میں. میرا کیا. کبھی اس کی بات بری لگ گئی تو کبھی اس کی. جو منہ میں آیا کہتی بنی. اور اس کو تو پھر بھی پوچھنے والے ابھی ہیں. ماں باپ اور بہن بھائی کے روپ میں. میں تو ان رشتوں سے بھی بہت دور ہوں. اور یہاں ان رشتوں سے منسلک ہوں. ان ہی خیالوں میں شام ہو گئی. بلکہ آج کیا. اس طرح تو اکثر ہی شام ہو جایا کرتی تھی. اور میں اس ہی بیچارگی ، خاموشی ، اور تنہائ کے عالم میں دن سے رات. اور رات سے پھر صبح کا انتظار کیا کرتی.

      آه بھرتے میں نے کروٹ بدلی. باورچی خانے سے ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھیں. جیسے کوئی مصالحہ پیس رہا ہے. یہ اور اس قسم کی دوسری چہل پہل اس گھر کی رونق میں اضافہ بھی کیا کرتی تھی. میں بھی اکثر اس رونق کا حصہ ہوا کرتی. برابر کا کام کیا کرتی. مگر دل پھر بھی بے آباد ہی رہتا. اور یہ بے آبادی بڑھ ہی رہی تھی. مگر میرے بس کی تو کوئی بات نہیں تھی. زندگی کے بڑے روپ ہیں. کہیں شوخ چنچل. کہیں پھیکی ، بے رونق. کہیں لوگ دوسرے لوگوں کے خون کے پیاسے. تو کہیں بے بس لا چار.

      اس ہی گھر میں. ایک طرف بیماری تھی. ایک طرف معذوری. ایک طرف بے بس خاموشی. اور ایک طرف زندگی کی بھر پور چہل پہل. دنیا کے سارے رنگ ہی تو تھے اس ایک گھر میں. مگر بات صرف گھر کی نہیں. بلکہ یہ گھر گھر کی کہانی ہے. کہیں رشتوں میں لا چارگی، تو کہیں رشتوں میں مطلب پرستی. کہیں ایک دوسرے کی موجودگی دل میں نفرت کا شگاف ڈالتی. تو کہیں ایک دوسرے سے حسد ، بغض ، جلن کا زہر پھوٹتا . مجھے تو لوگوں سے. حالات سے. واقعیات سے نفرت سی ہونے لگی تھی. مگر پھر کبھی میں اپنی ذات کا موازنہ دوسروں کی ذات سے کرتی. تو اپنا آپ کبھی خود غرض، تو کبھی لا چار پاتی. کبھی خد میں معصومیت تلاش کرتی. اس ہی شش و پنج میں ، دن گزر جاتا.

      یہ کیفیت کسی کی بھی ہو سکتی ہے. کسی ایسی بیٹی کی. جو اپنے سسرال سے میکے آ بیٹھی ہے. اور اپنے ہی ارد گرد کے سگے رشتے ، اس سے قریب ہو کر بھی دور ہیں. یہ کیفیت اس عورت کی بھی ہو سکتی ہے. کہ جس کی زندگی صرف ایک شوہر کے نہ ہونے سے بے رونق ہو. یہ کیفیت اس عورت کی بھی ہو سکتی ہے. کہ جس کے گھر میں اولاد کی نعمت نہیں ہے. یا اس عورت کی بھی ہو سکتی ہے .کہ جو خد کو سب سے صرف اپنی انا کے لئے دور کر لیتی ہے. اور پھر اپنی حسد کی آگ میں، جلن میں. کڑھ کڑھ کر اکیلی جیتی ہے. یہ کہانی شاید بے ربط ہو. مگر ....زندگی کے مختلف رنگ. جذبات ، لاچاری کو اپنے اندر سموے ہوئے ہے. دنیا کی بڑی اذیتوں میں سے ہیں ، لا چاری، معذوری، بے اولادی، تنہائ ، اور انا پرستی.

      مرد کا معاشرہ ہے یہ. مرد آزاد ہے. کبھی یہاں، کبھی وہاں. کھل کے جینے والا. مگر زندگی کی ان تمام باریکیوں اور تاریکیوں سے بے نیاز. کیوں کے قدرت نے اسکو آزادی
      ?جیسی نعمت سے نوازا. کیا کوئی مرد ایک عورت کی اس کیفیت کو سمجھ سکتا ہے

      شام ہونے کا مجھے انتظار بھی ہوا کرتا تھا. اور شام کی فکر بھی. مجھے اٹھنا ہے اب. اپنے شوہر کے لئے، تازہ روٹی پکا کر دی ہے میں نے ہمیشہ دوپہر کے پکے ہوئے کھانے کے ساتھ. الحمدللہ بڑا ذائقہ دیا ہے قدرت نے میرے ہاتھوں میں . جناب کی واپسی ہو گئی. میں نے مخاطب ہوتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا

      .اسلام و علیکم !

      ہمیشہ کی طرح پر رونق مسکراہٹ جواباً مجھے موصول ہوئی. میں نے بھی ہنس کے اگلا سوال کھانے کا کر ڈالا. عجیب سوچ کی مالک تھی. کبھی سوچا کرتی .ہاے آج تو میاں صاحب کھانا کھا کے آ جاتے تو اچھا تھا. تھوڑا آرام ہی مل جاتا. اور جب میاں صاحب کھانا کھا کے آ جاتے ..تو دل میں سو وسوسے جنم لیتے. کہاں کھانا کھا لیا .ا کس کے ساتھ کھایا ہوگا. پھر اپنی سوچ کو جھٹک دیتی .نہیں میاں صاحب ایسے نہیں ہیں.

      ابھی کھانا وانا گرم ہی کر رہی تھی تو ، لرزتی ہوئی ایک آواز کان میں پڑی. یہ محترمہ میری ساس صاحبہ ہیں. میرے گھر کا ایک المیہ یہ بھی ہیں. مجھے سمجھ نہیں آتا تھا . ان کو المیہ کہوں کہ حادثہ ...اپنی اس سوچ پر مجھے ہنسی بھی آیا کرتی. عجیب شخصیت کی مالک ہیں یہ بھی . جو جتنا زیادہ ان کی قدر کرتا ہے. خدمت کرتا ہے. اس کے ساتھ اتنا ہی برا سلوک، شک ، اور بے اعتباری کیا کرتی ہیں یہ.

      سچ بولوں تو میری دیورانی ، ہے تو بری چالاکو ماسی، پر ان کے لئے دنیا بھر کے کام کرتی ہے. مجھے تو زہر لگتی ہے. مٹھی میں لے رکھا ہے ساس جی کو. پر محترمہ ساس بھی ان کی ایک نہیں رکھتی. منٹ نہیں لگتا انکو ذلیل کر مارتی ہیں. بری کھسیانی سی ہنسی آتی مجھے اپنی اس سوچ پر..شاید اندر سے میرا دل ٹھنڈا ہوتا ..کے چالاکو ماسی کو فٹ کر کے رکھا ہے. ورنہ اس کے پیر تو گھر میں ٹکتے ہی نہیں ہیں. لگائی بجھایی ، جھوٹ بولنا، دوسروں کے لئے سب کے دلوں میں سوال اور وسوسے پیدا کرنا وہ بھی ایسے کہ ، برائی پیدا ہو جائے دل میں. یہ چالاکو ماسی کا شیوا تھا.

      میں اس کا موازنہ بھی خود کے ساتھ کیا کرتی. جو بھی ہوں. جیسی بھی ہوں. کم سے کم اس جیسی نہیں. نہ جھوٹ بولنا پسند ہے. نہ ہی کسی کے لئے کسی کے دل میں برائی پیدا کرتی ہوں. ہاں بدلہ لینے کو..بلکے بدلہ کیا..کسی کے منہ سے چالاکو ماسی کی بات جو چالاکو ماسی نے میرے لئے جھوٹ کی ہو..اس کو رد کرنے کو ، میں بھی کوئی کمی نہ چھوڑتی. اور چالاکو ماسی کو جھوٹا ثابت کرنے کو اپنے دل کی پوری بھڑاس نکالا کرتی. دل سے خوش نہیں تھی میں اس چالاکو ماسی کے ساتھ. پر لڑنا جھگڑنا ، تو تو ، میں میں، کرنا میرا شیوا نہیں تھا. ویسے بھی چالاکو ماسی سے زیادہ پڑھی لکھی تھی. تو سلجھا ہوا انداز تھا میرا.

      میں بھی بات کو کہاں سے کہاں لے گئی.بات ہو رہی تھی لرزتی آواز کی. اکثر ایسے وقت پہ ، کہ جب میاں صاحب کا کام کرنا مجھ پر فرض ہوتا. کھانا دینا ہوتا، چاے بنا کے دینی ہوتی، یا کپڑے استری کرنے ہوتے..تو ان محترمہ کو بھی اپنے کام یاد آ جاتے. میرا تو دل جلتا تھا اس بات پر. اے بوا سارا دن ہو گیا تمھارے ہی کام کرتے. اب تو مزاجی خدا کو پوچھ لینے دو. مگر مرتی کیا نہ کرتی. ساتھ ساتھ ان کے بھی ایک دو غیر ضروری کام کیا کرتی.

      لو بھلا. ذرا سوچو تو، تمہارے ہی بیٹے کی تو خدمت کر رہے تھے. ذرا صبر کر لیا کرو. وقت تو دو سانس لینے کا. مگر نہ تمہیں یہ احساس ہے کے ہم بھی انسان ہیں، نہ ہی تمھارے بیٹے کو. چل کام کرنے والی مشین ، لگ جا کام میں. تیرا تو نصیب ہی یہ ہے. ،مجھے یہ بھی خیال آتا. میں یہ کام بھی نہ کروں تو پھر کروں کیا. پر تھکاوٹ تو جائز ہے. مجھے بھی ہو جاتی تھی. تھوڑا کوئی احساس کر لے تو یہ تھکاوٹ ختم بھی ہو جایا کرتی ہے. پر کوئی احساس تو کرے.

      میں اپنا جائزہ لیتی ہی رہتی. اور کل کیسی تھی اور آج کیا ہو گئی ہوں. یہ بات مجھے کافی تکلیف دیتی. انسان جوں جوں عمر کی سیڑھیاں چڑھتا ہے. انسان کی سوچ بدلتی جاتی ہے. رویے بدلتے جاتے ہیں. فطرت تو کبھی نہیں بدلتی. مگر حالات کے ساتھ اخلاق اور طور طریقے بدل لیتا ہے انسان. میں بڑی نیک طبیعت خیال کیا کرتی تھی کسی زمانے میں خد کو ، یہ کچھ غلط بھی نہ تھا. دوسروں کے لئے خدمت کا جزبہ، ہمدردی ، خوش اخلاقی، نیک نیتی ، سچ بولنا، ڈر ڈر کر جینا، خوف خدا ، انسانیت سے پیار، اس بات کا خیال دل میں رکھنا کہ کوئی میرے بارے میں برا نہ سوچے بس اسلئے اچھا کرتی رہوں، کوئی مجھ سے ناراض نہ ہو جائے، سب کو کیسےراضی رکھوں. ہنستے رہنا، مسکراتے رہنا، باتوں کو خد ہی سمجھ لینا اور انڈر سٹینڈ کر لینا حالات کو، اور خود کو حالات کے حساب سے ڈھال لینا. یہ سب باتیں میرا خاصہ تھیں.

      بہت قربانی دی ہے میں نے ، اپنی، اپنے وقت کی، اپنے رشتوں کی، مگر اب میں بدل رہی ہوں، کافی کچھ بدل لیا ہے میں نے اپنے آپ میں. افسوس ہوتا ہے مجھے کہ میں پہلے جیسی نہیں رہی. مگر کیا کروں . حالات ہی ایسے بنا دیتے ہیں لوگ کے انسان پہلے جیسا چاہ کر بھی نہیں رہتا.

      سب سے پہلے تو میں نے یہ ہی سیکھ لیا کہ میرے لئے سب سے ضروری چیز میں ہوں. اور میں خوش تو سب خوش. میں اچھی تو سب اچھے. بھلا میں کیسے اور کب تک ہر وقت سب کو راضی رکھ سکتی ہوں. ویسے بھی یہ انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ ایک وقت میں سب کو راضی رکھ سکے. تو اب میں نے یہ سیکھ لیا ، کہ کوئی مجھ سے خوش رہتا ہے تو رہے، ورنہ ایسی کی تیسی. جیسے کو تیسا ہی رکھو. مجھ میں ویسے یہ بدلاؤ اچھا ہی تھا. کب تک بھلا میں ہر ایک کو خوش رکھنے کی فکر میں جیتی. نہ فکر ہے اب، نہ کسی کی ناراضگی کا خوف.

      پھر مجھ میں ایک بہت بری عادت تھی. پتا نہیں بری تھی یا بھلی. کہ کسی کو پلٹ کر جواب نہیں دینا. بس یہ خیال کرتی کہ کوئی کب تک میرے ساتھ برا کرے گا. آخر میری سوچ اور عادت کو سمجھ ہی جائے گا. پر اس سوچ کا مجھے فائدے کی بجاے نقصان ہوا. لوگ مجھ پہ حاوی ہوتے گئے. لوگ کون، یہ ہی میرے اپنے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے سمجھنے کی بجاے ، الٹا میری سچائی اور شرافت کا فائدہ اٹھانے لگے. کے شاید یہ بھولی ہے، ہماری چالاکی سمجھتی نہیں. خاص کر یہ میری چالاکو ماسی اور یہ لرزتی آواز. میری اس شرافت کا سب سے زیادہ فائدہ انہوں نے ہی اٹھایا ، جب ان کے جی میں آتا مجھ سے پیار کے بہانے خوب خدمت لیتیں، جب مجھ سے دل بھر جاتا تو اس چالاکو ماسی کو وصول کرتیں.

      یہ چالاکو ماسی بھی اس وقت سے خوب فائدہ اٹھاتی. رج کر میرے لئے ساس جی کے دل میں زہر گھولتی. آخر کوئی کب تک بہکاوے میں نہ آتا. بلآخر بدل ہی لیا رخ مجھ سے میری ساس جی نے. میں نے بھی پھر یہ سیکھا کہ ، چل تو بھی اس ہی بہانے آرام کر. بے فکر ہو جا سب سے. یہ دونوں ایک دوسرے میں مگن ہیں. میں انکو سب سے زیادہ چبھتی ہوں، مجھے کیا دے رہی ہیں دونوں .یہ اپنے خوش میں اپنے خوش.

      ..مگر میں اپنے کمرے کی قیدی ہو گئی. نہ میرا ان میں بیٹھنے کو جی چاہتا. نہ ہی ان کے کسی معاملے میں مجھے دلچسپی تھی. بلکہ اندر ہی اندر میں خود کو ان سے بالا تر محسوس کرتی. کہ کیا جاہل عورتیں ہیں. ہر وقت پہننے اوڑھنے کی، دوسروں کی برایوں کی، اور پارٹی بازی کی باتیں کرتی ہیں،. ان سے تو بہتر میں ہوں. کم از کم کسی کا برا تو نہیں سوچتی.

      ایک مزے کی بات اور بھی تھی. یہ ساس نما خاتون، یا خاتون نما ساس. پتا نہیں کیا. ....وقت کے حساب سے چلنے میں بڑی ماہر تھیں.شروع کے سالوں میں تو انہوں نے اپنے شوہر کا خوب نہ جائز استعمال کیا. بہووں سے لڑانا، رشتے داروں کی برائیاں کرنا، اور شوہر کو ان سب کے خلاف استعمال کرنا. مگر جب سے شوہر نے بستر پکڑا بیماری کے ہاتھوں ، انہوں نے دیورانی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا. اور میں ان کو بس گھر کی ضرورت کا سامان نظر آنے لگی. جب ان کے شوہر.یعنی کے وہ انسان کہ ، جن کے دبدبے اور کسی نہ کسی سے الجھے رہنے کی عادت نے ، انھیں ہمیشہ کے لئے بستر کا کر دیا تھا. یعنی میرے کمرے کے بایئں جانب والے کمرے سے جو آوازیں آتی ہیں وہ انسان،

      انہوں نے کم از کم میرے سامنے کا جو وقت تھا. وہ اپنی بیوی یعنی ساس جی کی جی حضوری میں ہی گزارا . کتنی دفعہ مجھے اپنی بیوی کے لئے ذلیل کیا. اچھے برے جو بھی حالات ہوتے. وہ ہمیشہ اپنی بیوی کا ساتھ ہی دیتے... ہم تو جیسے دشمن تھے انکے. پر اب کیا...اب نہ بیوی کے اچھے میں نہ برے میں. مگر انکی مجبوری پر ترس آتا ہے مجھے.

      ایک بات نہیں بدلی مجھ میں تو وہ میرا ضمیر ہے. اب بھی ، کسی کو تکلیف میں دیکھ کر ، دل پریشان ہو جاتا ہے. اور ہمدردی کا جزبہ پھر سے جاگ اٹھتا ہے. مجھے اپنی یہ عادت پسند ہے. مگر ڈر ہے، وقت کے ساتھ ساتھ، میری یہ عادت ، یہ ضمیر بھی مردہ نہ ہو جائے، انسان ہوں ،،شیطان کے ورغلاے میں آ سکتی ہوں، میری یہ سوچ مجھے جھنجھوڑتی رہتی. پر ضمیر کو زندہ رکھنے کے لئے ..میں نے یہ مناسب سمجھا کے خد کو اپنے کمرے میں ہی محدود رکھا جائے. نہ زیادہ آمنا سامنا ہوگا، نہ بد اخلاقیوں کا مظاھرے کا تبادلہ ہوگا. پر میرے اس فیصلے نے مجھے اکیلا کر دیا. سب کے ہوتے اکیلا.

      اور میری ساس جی، وقت کے حساب سے خود کو اب شوہر کے سانچے سے نکال کر چالاکو ماسی کے سانچے میں ڈھال چکی ہیں. انکا وقت گزر ہی رہا ہے.
      چالاکو ماسی کے شوہر سے تو شروع سے ہی نہیں بنی میری. میرے یہاں آتے ساتھ ہی اس کی اولین کوشش تھی کہ ، کس طرح میری حیثیت کو اس گھر میں نیست و نابود کیا جائے. بہت ہتھ کنڈے استعمال کیے اس نے میرے ساتھ....مریض بنا کے رکھ دیا. جب کوئی مجھ سے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتا. یا سسرالی ہونے کا ثبوت دیتا. یہ اسکا ساتھ ہر حال میں دیتا. چاہے اس کی ضرورت کسی کو ہوتی یا نہ ہوتی..یہ کوئی کمی نہ چھوڑتا سب کو مجھ سے بد زن کرنے میں. اس کو سیٹ کرنا آسان تھا. پر دبا نہیں سکتی تھی اس کو. کیوں کے اسکو ہمیشہ معصوم ہی سمجھا جاتا تھا. گھر کی بگڑی نسل کب کسی کو بگڑی نظر آتی ہے.

      ایک ہی بات میرے ذہن میں آتی تھی تب. خبیث انسان تیری بیوی کے ساتھ جب ایسا ہوگا نہ. تب پتا چلے گا تجھے. پھر میں نے سیکھا ..کیسے رشتوں کو رشتوں سے کاٹا جاتا ہے. ہر وقت میری یہ ہی کوشش ہوتی ، کے اس کے لئے میاں جی کے دل میں برائی پیدا ہو جائے. یا اس کی اصلیت کھل جائے ..مگر میں ناکام ہی رہتی. یہ میسنا ہمیشہ سر پر سوار ہی رہا. بس اسی وجہ سے اس کے لئے دل میں بغاوت بڑھتی گئی. .اس کا نتیجہ یہ ہوا ، کہ جب اس کی بیوی کے ساتھ برا سلوک ہوا. میں نے رتی برابر ساتھ نہ دیا اسکا. یہ ہی سوچتی رہی. اسکو پتا لگے کیسی ازیت سے وقت گزارا تھا میں نے. پتا بھی لگا اس کو. پر بہت دیر ہو چکی تھی.

      اب میرا دل ان لوگوں سے بغاوت ہی کرتا تھا. مگر خاموش بغاوت . کیوں کے ان لوگوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی، مگر میں بھی ان دونوں پارٹیوں سے بنانا نہیں چاہتی تھی. کیوں کے دونوں ہی نے میرے ساتھ کون سا اچھا سلوک روا رکھا تھا. میری اس سوچ نے مجھ وقت کے ساتھ ساتھ خد غرض بنا دیا. گھر میں اچھا ہو تو میں بھی شامل. برا ہو ..تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی. پر کم سے کم ..مجھے ذہنی سکون تو تھا....


      ابھی میاں جی کے کام وام سے فارغ ہی ہوئی تھی ..تو پتا لگا جناب...مزید لوگ آنے والے ہیں اس جلتی پہ تیل چھڑکنے کو. لوگ کون..یہیں سے رخصت ہو کر چلی جانے والیاں. یعنی میاں جی کی بہنیں. بڑی ہی کمینگی سے بس یہ ہی خیال دل میں آتا تھا. کچھ وقت پہلے ہی تو ان سے جان چھوٹی ہے الله الله کر کے. اور یہ پھر منہ اٹھا کے چلی آتی ہیں.

      اب ان کی خدمتیں کرو. آگ بھی تو بھر پور لگاتی تھیں یہ ماچس کی تیلیاں. یہ بھابی کام زیادہ کر رہی ہے آج. یہ کم....یہ زیادہ اچھا پکاتی ہے. وہ کم....آج اس نے مرچیں ڈال دی سالن میں. آج اس نے نمک. ان پہ ہی نمک مرچ ڈال کر مولی گاجر کی طرح نہ کھا جاؤں ان کو....اس خیال سے دانت ایسے پیستی تھی میں..جیسے میں نے ان کو چبا ہی ڈالا ہو. پتا نہیں یہ نند کوڑے کا گند (استغفراللہ ) ماچس کی تیلی کا ہی کام کیوں کرتی ہیں. اپنے کام سے کام رکھیں. یہاں تشریف لا ہی چکی ہیں تو ، ہمیں عزت دیں. اپنی عزت کروایئں اور اپنے گھر جایئں . خواہ مخواہ سب کی بری بنتی ہیں.

      ویسے ایک سچی بات تھی. یہ جیسی بھی تھیں. میری ان سے کبھی نہیں بگڑی. اگر بگڑی بھی تو بس اتنی کے ایک آدھ بات بری لگ گئی. ..لیکن جب یہ ماچس کی تیلی کا کام کرتیں تو میرا دل نہ کرتا انکو منہ لگانے کا. یہ ہی سوچتی کے چھوڑو کون ملے انکو جا کر. چالاکو ماسی دیکھ لے گی سب کو. وہ تیز ہے..بھگتنا جانتی ہے. پر اس عادت کا مجھے بڑا نقصان ہوا. وہ یہ کے.مجھ میں اور نندوں میں بلا وجہ کا خلہ آتا گیا. ..کوئی بات نہ ہوتے ہوئے بھی غلط فہمیاں بڑھتی گییں . اور مجھ میں لوگوں سے ملنے جلنے کی عادت ختم ہوتی گئی. غرض یہ کے..میں بد اخلاقوں کے زمرے میں آتی گئی.

      ان سارے کام کاج سے فارغ ہو کر دل کیا ، پل بھر کو میاں جی کے ساتھ بیٹھ کر دو چار باتیں ہی کر لوں. پر میاں جی کا من پسند کام کرنے سے انکو فرصت ہو تو میں انکو نظر آوں نہ.....ٹیوی کی موجودگی میں میری موجودگی سرکار کو کم ہی محسوس ہوا کرتی تھی. میں ٹھہری دن بھر کوفت سے گزری انسان. اور یہ مہا شے ، اپنی مصروفیات میں مگن. انکو کیا ان الجھنوں اور پریشانیوں سے.. آے بڑے دفتری ..دفتر کے علاوہ بھی تو زندگی ہے. ہاں پر ایک بات ہے. یہ بھی تو دن بھر کام کاج کر کے گھر میں آتے ہیں. سوچتے ہونگے دو گھڑی سکون سے اپنے کمرے میں بیٹھ جاؤں. پر یہاں ان کی بیوی ان پہ عذاب کی طرح نازل ہو جاتی ہے..

      عجیب ہی اترانے والی اور کھسیانی ہنسی مل جل کر میرے ذہن میں کھلکھلا اٹھتی. پھر یہ بات بھی سر توڑ کر میرے ذہن میں اچھلنے کودنے لگتی ..کہ ان ہی کے تو ہیں یہ سب.میرا کون ہے ان میں. یہ تو ان کا فرض بنتا تھا کہ مجھے الگ گھر لے کر دیتے. عزت دلواتے ، یہ سوچ میں کبھی منہ پر نہ لاتی. ظاہر ہے، اپنی نیت ظاہر تھوڑی کرنی تھی. لیکن میں خد کو جانتی ہوں. میں کبھی بھی شوقین نہیں رہی علیحدہ گھر کی. مجھے تو گھل مل کر جینا زیادہ پسند تھا. مگر جب ذہنی کوفت ہوتی ہے . مسائل کو سلجھانے میں..تو یہ ہی خیال آتا ہے کے ساتھ رہنے سے تو بہتر تھا کے سب اپنے اپنے الگ گھر کے مالک ہوتے. آزاد ہوتے . اس سوچ نے مجھے پرائیویسی کا شوقین بنا دیا. بھلا اپنوں میں بھی کوئی پرائیویسی ہوتی ہے. مگر وقت کی ضرورت بن جایا کرتی ہے یہ پرائیویسی بھی.

      بیٹھی تو تھی دو چار میٹھی میٹھی باتیں کرنے..پر الجھ گئی دن بھر کی شکایتوں میں . صرف یہ سوچ کر کہ آخر اس گھر میں ان کے علاوہ میرا ہے ہی کون. یہ نہیں سنیں گے میری بات تو اور کون سنے گا. مگر وقت گزرتے گزرتے اس کا نتیجہ یہ نکلا کے میاں جی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ، کہ میری بیوی کو سیاست کرنے اور برائیاں کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا. یہ میرے کان بھرتی رہتی ہے میرے گھر والوں کے خلاف.

      یہ الزام کیسا لگتا تھا دل کو جا کر. جیسے دنیا بھر کی برائی مجھ میں بھری نظر آتی ہے میاں جی کو. یہ سوچ ہم دونوں کوآپس میں الجھا دیتی. بس اسی وجہ سے ہم اکثر لڑا کرتے.

      پر ایک خیال آتا تھا میرے دل میں. وہ یہ کہ. یہ ایرے غیرے لوگ ہی ہمیشہ ہمارے جھگڑے کی وجہ بنے ہیں. ہم آپس کی باتیں بھی تو کر سکتے تھے. کبھی مجھے یہ خیال آتا کہ یہ مردوں کی دنیا ہے. مرد اپنی آدھی سے زیادہ زندگی گھر سے باہر گزار دیتے ہیں . ان کو کیا پڑی ہے عورتوں کے معاملات میں خود کو الجھانے کی. کیوں نہ ذہن کو سکون میں رکھیں ہم سے بے غرض ہو کر.

      مگر سچی بات یہ ہے کہ ، اگر ایک مرد اپنی بیوی کو، یا بہن کو، یا اپنی ماں کو اپنی اپنی جگہ مقام دے، عزت دے، حیثیت دے تو عورت لا چارگی کا شکار ہو کر کبھی ایک دوسرے سے نہ الجھے. مگر ایسا کب ہوتا ہے. یہاں رنگ برنگے لوگ ہیں. رنگ برنگے مسائل ہیں. رنگ برنگی دنیا ہے. کوئی یہ ساری باتیں سمجھ لیتا ہے. اور کوئی اپنی ساری زندگی الجھنوں کا
      شکار رہ کر اور رائی کا پہاڑ بنا کر گزار دیتا







      بس ان ہی قسم کی باتوں کو سوچتے میری زندگی گزر رہی تھی. پتا نہیں میں یہ سب سوچ کر وقت برباد کر رہی تھی یا ذہن کا فالتو استعمال کر رہی تھی. مگر کچھ نہ کچھ سیکھا ضرور تھا میں نے ان ساری سوچوں سے. اور جیسی میں دس سال پہلے تھی ، ویسی پانچ سال بعد نہیں رہی تھی. اور اب ان ہی پانچ سالوں بعد یعنی آج میں ویسی نہیں ہوں جیسی پانچ سال پہلے تھی. میں، میری سوچ، میرے رویے بدل رہے ہیں. مجھے ڈر ہے. میں بلکل بدل نہ جاؤں... (ایک عورت کی کہانی ایک عورت کی زبانی کہ جس میں بدلتے حالات کے ساتھ کیسے سوچ بدل جاتی ہے.وہ ہی عورت جو اپنے ماں باپ کے گھر معصوم بچی کہلاتی تھی. سسرال میں چالاکو ماسی کہلاتی ہے. اسکی دنیا کا رنگ ہی بدل جاتا ہے. )










      Similar Threads:
      Last edited by CaLmInG MeLoDy; 07-13-2014 at 09:35 AM.





    2. The Following 2 Users Say Thank You to CaLmInG MeLoDy For This Useful Post:

      Admin (11-21-2015),IQBAL HASSAN (11-28-2015)

    3. #31
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      Re: رنگ برنگی دنیا رنگ برنگی سوچ

      Quote Originally Posted by IQBAL HASSAN View Post

      بہت ھی عمدہ شیرینگ ھے ۔
      اپ کابہت شکریہ۔ نوازش ۔




      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    4. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      CaLmInG MeLoDy (11-30-2015)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Page 4 of 4 FirstFirst 1234

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •