63 عمر
جب انسان آرام سے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ریٹائرڈمنٹ کی زندگی گذارتا ہے ۔ اخبار اور کتابیں
پڑھتا ہے ، ٹی وی دیکھتا ہے اور زندگی کے باقی دن زندگی کی تلخیوں اور الجھنوں سے آزاد رہ کر گذارنا چاہتا ہے ،
مگر اس پاگل کو دیکھو، در پہ در خاورے پسر دیوانوں کی طرح گھومتا ہے ، پاگلوں کی طرح پکارتا ہے اور مجنونوں کی طرح کبھی اس شہر اور کبھی اس شہر گھومتا رہتا ہے ۔
اپنی زندگی کے اٹھارہ قیمتی سال وہ اس ملک کے نوجوانوں کو جگانے میں صر...ف کرچکا ہے ،
آخر کس بات نے اسے آمادہ کیا ہے کہ وہ اس طرح کی زندگی گذارے ، اس کے دل میں یہ تڑپ کیوں پیدا ہوئی کہ اپنا سب کچھ قربان کرکے اس ملک کو بچانے کی جنگ لڑرہا ہے ؟
اس عمر میں اسے یہ قوت اور یہ توانائی کہاں سے نصیب ہوئی ہے کہ یہ اپنی محنت مشقت اور جذبے میں نوجوانوں سے بھی زیادہ جوان دکھائی دیتا ہے ؟
یہ جنون ، یہ تڑپ یہ لامحدود اسٹیمنا اور یہ بے پناہ قوت اسے اپنے رب پر کامل یقین نے عطاکیا ہے ،
ایک خواب کی تلاش میں وہ اٹھارہ سال سے دیوانوں کی طرح پھر رہا ہے کہ اس ملک کو آزادی ملے ، یہاں خوشحالی آئے ، یہاں امن ہو چین ہو سکون ہو، یہاں روزگار ہو، عدل ہو انصاف ہو ، کوئی کسی کا غلام نہ ہو ۔
باہر تو وہ بھی جاتے ہیں جو ہمارے حکمران بنے ہوئے ہیں ، باہر کے ملکوں میں تو ان کو بھی پتہ ہے کہ انسان کو کس طرح انسان سمجھا جاتا ہے ، کس طرح ریاست اپنے شہریوں کو حقوق دیتی ہے ، کس طرح ایک وزیراعظم بھی اسی ٹرین میں سفر کرتا ہے جس میں ایک عام آدمی سفر کرتا ہے ، کس طرح عام آدمی کے حق پر کوئی ڈاکہ نہیں ڈال سکتا ،
انہیں بھی پتہ ہے کہ باہر ملاوٹ کا تصور نہیں ، بچوں کو خالص دودھ ملتا ہے ، اور خوشحالی کسی ملک میں کیسے لائی جاتی ہے ، مگر ان کے دلوں میں اس قوم کےلئے کوئی درد نہیں ، کوئی پریشانی نہیں کوئی دکھ نہیں ، انہیں اٹھانے کا کوئی جذبہ نہیں ،کیونکہ یہ طبقہ ظالموں کا طبقہ ہے ۔ یہ طبقہ خونخواروں کا طبقہ ہے ، یہ طبقہ انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والوں کا طبقہ ہے ، ان کے منہ کو انسانی خون لگ چکا ہے ، یہ اس دیس کو سدا غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے وسائل لوٹتے رہیں اور اپنے خزانے بھرتے رہیں ۔
یہ اگر چاہتا تو دنیا کے کسی بھی ملک میں بہترین سے بہترین رہائش گاہ بناکر خوشی سے آرام سے اور عیش و عشرت سے اپنی زندگی بتا سکتا تھا۔ اسے دولت کی لالچ ہوتی تو کرکٹ پر کمنٹری سے ہی اربوں روپے کماسکتا تھا ، یہ تو شہزادہ تھا ، جدھر جاتا تھا لوگ مڑ مڑ کر دیکھتے تھے ۔ مگر آج اس نے اپنی کیا حالت بنادی ہے ، 63 سال کی عمر میں یہ چھلاوے کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے سے تیسرے شہر پھرتا رہتا ہے ، کنٹیروں میں راتیں بسر کرتا ہے اور دن رات سے بے خبر رہتا ہے ۔اس کے کیچڑ آلود کپڑے دیکھو، اس کے بکھرے بال دیکھو اور اس کی یہ بے آرامی دیکھو ،
، اس کی لیلیٰ اس کا وطن ہے اس کی قوم ہے اور یہ اس لیلیٰ کا اس قوم کا اور اس وطن کا مجنون ہے ۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی
ایسا دیوانہ پھر ہمیں شاید ہی مل سکے ، اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ، اٹھو کہ یہ مجنون ہمیں پکار رہا ہے ، آوازیں دے رہا ہے
اپنے لئے نہیں ہمارے لئے، ہمارے بچوں کیلئے ، اس دیس کیلئے اس وطن کیلئے اس قوم کیلئے ۔، اٹھو کہیں دیر نہ ہوجائے
Bookmarks