Bohat Khoob
وائف ہیپی تو لائف ہیپی : تحقیق
ازدواجی زندگی میں خوشحالی کے لیے سائنسی ماہرین نے ایک آسان حل تلاش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیپی وائف سے ہیپی لائفکا گہرا تعلق ہے کیونکہ بیوی کی خوشی میں ہی شوہر کی زندگی کا سکھ چھپا ہے۔سماجی تعلقات پر مبنی رسالے جرنل آف میرج اینڈ فیملی میں شائع ہونے والے مطالعے میں ماہرین نے میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کی خوشیوں کے معیار کو سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرنے کے بعد یہ ثبوت فراہم کیا ہے کہ شادی شدہ زندگی کی گاڑی کو ٹریک پر رکھنے کے لیے شوہر سے زیادہ بیوی کا خوش ہونا ضروری ہے۔روٹگرز یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف مشی گنکے شعبہ سوشیالوجی کے پروفیسردبورا کار کا کہنا ہے کہ خوشحال ازدواجی زندگی کے ساتھ لمبا سفر طے کرنے والے جوڑوں میں انفرادی طور پر بیوی کی خوشیوں کا پلڑا بھاری تھا یعنی ہیپی میرج کے لیے بیوی کی خوشیاں زیادہ اہم تھیں۔ محققین نے اپنے تجزیے میں کہا کہ مطالعہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ ازدواجی زندگی سے اگر بیوی خوش تھی تو اس کا اثر شوہر پر بھی تھا یعنی وہ بھی خوش تھا لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہاں شوہر کی انفرادی خوشی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی کہ وہ اس شادی کے بندھن سے کتنا خوش ہے یا پھر وہ اپنی زندگی سے کتنا مطمئن ہے۔ محقق دبورا کار کا کہنا ہے کہ میری نظر میں اس سچائی کی ایک وجہ یہ ہے کہ جب بیوی اپنی شادی سے مطمئن ہوتی ہے تو وہ اپنے شوہر کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے جس کا اس کی زندگی پر مثبت اثر پڑتا ہے۔اسکول آف آرٹ اینڈ سائنس سے وابستہ محقق دبورا کار نے کہا کہ مرد عام طور پر اپنے ازدواجی دکھ اورتعلقات کے حوالے سے کم ہی گفتگو کرتا ہے شاید یہی وجہ ہوتی ہے کہ بیوی تک اس کے دکھ کی تشہیر نہیں ہوتی ۔تحقیق کے معاون مصنفین وکی فریڈ مین اور دبورا کار نے کہا ہے کہ ہماری تحقیق کا نتیجہ پچھلے مطالعے سے مختلف ہے کیونکہ اس تحقیق میں میاں بیوی کے ذاتی جذبات کا معائنہ کیا گیا ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ کس طرح ازدواجی زندگی کا معیار بڑی عمر کے شادی شدہ جوڑوں کی نفسیاتی بہبود پر اثر انداز ہوتا ہے۔ تحقیق دانوں نے 394 ایسے جوڑوں کی معلومات کا معائنہ کیا جو صحت، آمدنی اور معذوری سے متعلق 2009 ء کے ایک مطالعے کا حصہ تھے ایسے جوڑے شادی شدہ زندگی کے 39 برس مکمل کر چکے تھے جبکہ ان جوڑوں کی اوسطاً عمر 60 برس یا اس سے زائد تھی۔ازدواجی زندگی کے معیار کی جانچ کرنے کے لیے محققین نے شرکاء سے کئی طرح کے سوالات پوچھے مثلا کیا ان کا شریک حیات انھیں سراہتا ہے یا تکرار کرتا ہے ، کیا وہ ان کے جذبات کو سمجھتا ہے یا یہ کہ وہ ان کے اعصاب پر سوار ہے۔ اس کے علاوہ شرکاء سے تفصیلی ڈائری لکھنے کے لیے کہا گیا جس میں انھیں یہ بتانا تھا کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے میں منتخب سرگرمیوں مثلا گھریلو کام کاج ، خریداری اور ٹی وی دیکھنے کے دوران وہ کتنا خوش رہے۔ مطالعے سے منسلک افراد نے اپنی زندگی میں اطمینان کی درجہ بندی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ 6 میں سے 5 نمبر پر دائرہ لگایا یہاں یہ بات نمایاں تھی کہ شوہروں نے بیویوں کے مقابلے میں قدرے مثبت ریٹنگ پر نشان لگایا تھا۔ پروفیسردبورا کار نے بتایا کہ نتائج سے یہ واضح ہو گیا کہ ایسے میاں بیوی جنھوں نے انفرادی طور پر اپنی شادی کے معیارکو بہتر درجے کا قرار دیا تھا ان کی زندگی خوشی اور اطمینان کے ساتھ منسلک تھی۔پروفیسر دبورا کے مطابق، مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کی خوشیاں اس وقت کم ہو جاتی ہیں جب اس کا شوہر بیمار پڑ جائے لیکن شوہر کی خوشی کی سطح میںایسے کسی حالات کی وجہ سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی جب بیوی بیمار پڑتی ہے۔ بقول پروفیسر دبورا کار یہ نتیجہ اس بنیادی صنفی فرق کا اشارہ ہے کہ کس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردانہ رابطہ محسوس کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ شوہر بیمار ہو تو بیوی تیمار داری کرتی ہے اور یہ ایک دباؤ کا تجربہ بھی ہو سکتا ہے لیکن جب ایک عورت بیمار ہوتی ہے تو صرف شوہر پر انحصار نہیں کرتی بلکہ اس کی دیکھ بھال اس کی بیٹی بھی کر سکتی ہے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کا نتیجہ اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ ازدواجی زندگی کا معیا ر بڑی عمر کے شادی شدہ جوڑوں کی صحت اور فلاح وبہبود پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Bohat Khoob
interesting!
Assalam o Alaikum.Pakki baat hai K Khud ko khush rakhna hai to bv ko khush rakha jaey phir ap ko ap ki soch se barh k khushiyan mile gi.
Maktab E Ishq ka Dastoor Nirala Dekha
Os Ko Chutti Na Mili Jis Ne ''Sabaq Yaad'' Kiya
Talaash E khudi
Good msg
Great sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks