بابا جی شکرالله



پیر فقیر درویش صوفی لوگ بھی‘ بڑے ہی عجیب اور پراسرار قسم کے ہوتے ہیں۔ انہیں سمجھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ ان کا ہر کام‘ عموم اور مروجہ سماجی رویات سے‘ ہٹ کر یا قطعی برعکس ہوتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ یہ لوگ معاشی غیرآسودگی کو ایک طرف رکھیے‘ یہ کوئی بڑی بات نہیں‘ یہ تو کم زور طبقوں کا مقدر رہی ہے‘ یہ لوگ تو اپنی برعکس کرنی کے سبب‘ کانٹوں پر زندگی کرتے آئے ہیں۔ یہ زندگی سماجی وسیاسی جبر کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے‘ بلکہ ان کی خود سے‘ اختیار کی ہوئی ہوتی ہے۔ گویا یہ ان کی اپنی ذات کے جبر کا‘ ثمرہ ہوتی ہے۔


اب دیکھیے‘ جو بھی اہل ثروت اور اہل جاہ کی بدمعاشیوں اور بدکاریوں کو‘ طاقت کا استحاق سمجھتے ہوئے‘ تحسین کرتے ہوئے ان کے قدم لیتے رہے ہیں‘ ناصرف تمغوں‘ ایواڑوں اور خطابات سے نوازے جاتے رہے ہیں بلکہ ان کی گھتلی‘ منہ تک لبریز رہی ہے۔ سرکار انہیں‘ جائیدیں اور مراعات سے نوازتی رہی ہے۔ معیار زندگی کی سربلندی کے ساتھ ساتھ‘ عوامی سطح پر‘ انہیں عزت و توقیر ملی ہے۔ بےشمار جی حضوریے میسر آئے ہیں۔ سلاموں اور پرناموں کی کوئی تھوڑ نہیں رہی‘ حالاں کہ ان جی حضوریوں کو محض ہڈی پر ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ بعض اوقات‘ یہ ہڈی بھی انہیں ترسا ترسا کر دی جاتی رہی ہے۔ اپنی زبان کے لہو کو ہی‘ انہوں نے سووگی طعام شرین سمجھا ہے۔


اس کے برعکس‘ ان درویشوں کو دیکھیے‘ وہ اہل ثروت کے ہر الٹے چالے پر‘ انگلی رکھتےآئے ہیں۔ پہلوں کے انجام سے‘ انہوں نے کبھی بھی عبرت نہیں پکڑی۔ حالات کی ناگواری اور طاقت کے بگڑے تیور‘ ان کی راہیں بدل نہیں سکے ہیں۔ وہ‘ وہ ہی کرتے رہے ہیں‘ جو ان سے پہلوں نے کیا۔ ہر درویش کو طاقت وارننگ دیتی رہی ہے۔ حرام ہے‘ جو انہوں نے کبھی کسی واننگ کو کوئی حیثیت دی ہو۔ طاقت کی اپنی مجبوری ہوتی ہے‘ آخر وہ کہاں اور کس حد تک‘ برداشت سے کام لے۔ برداشت اور درگزر یا لحاظ اور مروت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایکشن میں نہ آنے کی صورت میں‘ بغاوت رہ پکڑ سکتی ہے۔ لوگ درویشوں کے کہے میں آ کر‘ طاقت کا جینا حرام کرسکتے ہیں۔ ریاستی امن وسکون تباہ ہو سکتا ہے۔
سید غلام حضورالمعروف بابا شکر الله بھی‘ عجیب عادت اور مزاج کے مالک تھے۔ لوگ کسی کو حضرت کا سلام کہہ کر یا سلام کا جواب دے کر‘ اپنی جانب سے‘ عظیم کرم فرمائی سمجھتے ہیں۔ چھوٹی بڑی رقم‘ کوئی استعمال یا خوردنی چیز عنایت کر دینا‘ تو بڑی دور اور مشکل کی بات ہے۔ یہ حاتم کی قبر پر لات مرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ وصول کنندہ‘ گویا ان کا کانا ہو جاتا ہے۔ سلام کہتے رہنا‘ ان کی کوئی ناکوی مشقت اٹھانا‘ گاہے لوگوں میں‘ ان کی دریا دلی کے چرچا کرنا اور وقتا فوقتا احسان مندی کا اظہار کرنا‘ ان کے فرض منصبی میں داخل ہو جاتا ہے۔ بابا شکر الله بڑے عجیب تھے۔ ان کا موقف تھا‘ کسی کو کچھ دے کر‘ یاد رکھنا بھی درست نہیں‘ بلکہ الله اور لینے والے کا‘ شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ الله کا شکر اس لیے کہ اس نے‘ تمہیں حاجت مند کی حاجب پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور سائل کو تمہاری طرف پھیرا۔ حاجت مند کا اس لیے کہ اس نے‘ تمہیں حاجت پوری کرنے کےاہل سمھجا۔
اولاد تو اولاد‘ سائل بھی‘ بابا جی کی ہتھیلی پر سےاٹھاتے اور اسے‘ الله کا شکر ادا کرنے کی تاکید کرتے۔ بابا جی امیر آدمی نہ تھے تاہم سائل کی حاجت پوری کرنے میں‘ کسی عذر بہانے سے کام نہ لیتے تھے۔ ایک بار کسی نے کہا:
بابا جی! دینے والے کا تو ہاتھ اوپر ہوتا ہے‘ اس لیے آپ سائل کی ہتھیلی پر کیوں نہیں رکھتے‘ بلکہ لینے والا‘ آپ کی ہتھیلی پر سے اٹھاتا ہے۔ آپ کے ہاں یہ معاملہ الٹ کیوں ہے۔
بھائی‘ میں دینے والا کون ہوتا ہوں‘ میرا تو ابنی سانسوں پر اختیار نہیں۔ مالک کے دیے میں سے دیتا ہوں‘ کون سا احسان کرتا ہوں۔ سائل کو مالک نے بھیجا ہوتا ہے‘ بھیجنے والا مالک ہے‘ اس لیے سائل کا ہاتھ کیوں نیچے ہو۔ مالک بھیجتا ہے‘ کیا مالک کے بھیجے کا ہاتھ نیچے ہونا چاہیے‘
ایک بار ایک صاحب تشریف لائے‘ کچھ کہنا چاہتے تھے‘ لیکن کہہ نہیں پا رہے تھے۔ بابا شکرالله نے‘ انہیں کہا آپ بیٹھیں‘ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ بابا جی اندر چلے گیے۔ کچھ دیر بعد واپس آ گیے اور انہیں بیٹھک سے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ انہیں باہر ہی سے فارغ کر دیا اور پھر‘ ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیے۔ ذکر تک نہ کیا‘ کہ آنے والا حاجت مند تھا اور انہوں نے اس کی کس طرح مدد کی۔ اس انداز سے‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو‘ بات وہیں سے شروع کر دی‘ جہاں سے چھوڑی تھی۔
ایک مرتبہ ان کے ایک ملنے والےآئے‘ بلا سلام دعا برس ہی پڑے۔ وہ صاحب بولتے رہے‘ ان کے گرجنے برسنے کے دوران‘ بابا جی شرمندہ سی مسکراہٹ کی خوش بو پھیلاتے رہے۔ جب وہ بول چکے‘ تو بابا جی نے فرمایا:
بھائی میں نبی نہیں جو مجھ پر وحی آ جاتی کہ آپ کسی مسلے سے دوچار ہیں۔
اس شخص نے کہا‘ آپ سید پاک ہیں آپ کو لوگوں کے دکھ سکھ سے آگاہی رکھنی چاہیے۔
فرمانے لگے‘ ہاں یہ درست ہے۔ پھر ان کی آنکھوں سے اشکوں کا راوی ہہنے لگا۔ فرمانے لگے بھائی‘ بھائی ان کا تکیہءکلام تھا‘ میں تو سنا سنایا سید ہوں۔ سید تو حسین ابن علی تھے‘ جنہوں نے نانا کی امت کے لیے‘ اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
ایک مرتبہ ایک سائل آیا۔ بابا جی نے اس کی طرف دیکھا اور پھر‘ ایک بچے کے ہاتھ ایک سکہ بھجوا دیا۔ کسی نے پوچھا: بابا جی یہ کیا۔
انہوں نے فرمایا: یہ مالک کا بھیجا ہوا نہیں تھا۔ یہ مالک کا ناشکرا تھا۔ سب کچھ پلے ہوتے ہوئے بھی‘ ہر کسی کے سامنے‘ دست سوال کرکے اپنے ضمیر کا قتل کرتا پھر رہا تھا۔
کسی نے سوال کیا: حضور پھر آپ نے بچے کے ہاتھ سکہ کیوں بجھوایا۔
کہنے لگے: وہ میرے دروازے پر چل کر آیا تھا‘ میں اسے خالی کیسے بھیج سکتا تھا۔ اس کا عمل اس کے ساتھ ہے اور میرا میرے ساتھ ہے۔
ایک بار ایک بڑے معزز سے شخص آئے اور دعا فرمانے کے لیے کہہ دیا۔ بابا جی نے اچھا خاصا لیکچر پلا دیا۔ بابا جی ماسٹر کریم الدین ہی لگ رہے تھے۔ان کے لیکچر میں بلا کی روانی گرمی اور جوش و خروش تھا۔ رومی‘ سعدی‘ حافظ‘ بلھے شاہ‘ شاہ حسین لاہوری وغیرہ ایک ہی نشت میں بیٹھا دیے۔ اس نے بابا جی کے پلے سے کچھ نہ مانگا تھا‘ محض دعا کے لیے ہی تو کہا تھا۔ ضرورت‘ ضروری ہو یا اختیاری ہو‘ ضرورت ہوتی ہے۔ بابا جی کی باتوں سے ایک بات ضرور واضح تھی کہ جس چیز کے بغیر کام چل سکتا ہو یا وہ اضافی نوعیت کی ہو‘ اس کے لیے بےچین ہونا یا دو نمبری رستہ اختیار کرنا‘ درست نہیں۔
ہم سائے میں‘ کوئی نئے ماڈل کی چیز آ گئی ہےاورآپ کے ہاں پرانے ماڈل کی ہے‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کام تو چل رہا ہے۔ کسی عزیز نے گاڑی لے لی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے‘ آپ خواہ مخواہ پریشان ہوتے ہیں۔ ناک کے لیے گاڑی کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرنا‘ کہاں کی دانش مندی ہے۔ اگر کام چل رہا ہے اور کوئی دقت محسوس نہیں ہو رہی‘ تو بس ٹھیک ہے۔ مہندی گانے پر پہنے گیے ملبوسات‘ شادی اور ولیمے میں‘ پہن لینے میں کون سی قباحت ہے۔ مرگ پر آدمی پرسا دینے جاتا‘ وہاں کے لیے بن ٹھن کی‘ آخر کیا ضرورت ہے۔
بابا جی کی تمام باتیں سولہ آنے ٹھیک تھیں مگر کیاکیا جائے‘ زندگی کا چلن یی ایسا ہو گیا ہے‘ کیا کریں۔ زندگی کی موجودہ روش کے مطابق‘ چلنا پڑتا ہے۔ بابا جی درویش تھے‘ ان کا تو گزارہ ہو سکتا تھا‘ ساری دنیا درویش نہیں۔


Similar Threads: