حمد اعجاز
ملکی سیاست میںہیجانی کیفیت ،حالات میں بہتری کی بجائے بگاڑ،عوامی تشویش انتہا کوپہنچ چکی ***** تحریک انصاف کس حد تک عوامی قوت کا مظاہرہ کر پائے گی، حکومتی ردعمل کیا ہوسکتا ہے، فریقین کے پاس کیا کیا آپشنز ہیں . کون سے عوامل سیاسی کشیدگی کم نہیں ہونے دے رہے خصوصی اشاعت ***** آخر 30نومبر آ ہی گیا ،آج فیصلہ کن معرکہ ہے یا نئے معرکہ کا آغاز؟ہردو پہلوئوں میں ممکنہ صورتِ حال کیسی ہوگی؟30نومبر14اگست اوربعد کی صورتِ حال سے مختلف ہو گا یا اُس کاتسلسل ٹھہرے گا؟وزیرِاعظم کے استعفے کے مطالبے میںلچک پیدا کرنے والے عمران خان آج حکومتی قالین کولپیٹنے کے لیے کیا جتن کریںگے؟پی ٹی آئی کے سربراہ کے اندر نئے حوصلے اور نئی تیاری نے کیسے جنم لیا؟عمران خان پر منکشف ہو چکا ہے کہ عوامی اُبھار کے سامنے کچھ نہیں ٹھہر سکتا؟جب9نومبر کو رحیم یارخان کے جلسے میں 30نومبر کی تاریخ دی گئی تو اُس وقت سے مختلف سوالات بے چینی سے سیاسی بحثوں میںاُٹھائے جاتے رہے ہیں ۔ 30نومبر اوراس کے بعد کیا ہو گا؟اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد اس سوال کی کھوج میں رہی۔عمران خان آج کامعرکہ اکیلے مارنے جارہے ہیں ،عمران قادری مشترکہ محاذ اب مشترکہ نہیں دونوں کے راستے جُدا ہو چکے ہیں،عمران کا حوصلہ نہیں ٹوٹ رہا ۔پی ٹی آئی کے رہنماکا امتیازی وصف یہ ہے کہ انہوں نے عوام کے اندر جوش و جذبے کو 2013کے عام انتخابات سے اب تک برقرار رکھا ہوا ہے،بلکہ یہ کہنا برحق ہوگا کہ عوام کے جوش و جذبے میں بہت زیادہ شدت آئی ہے۔ اس میں کوئی دُوئی نہیں کہ عمران خان نے عوام کے اندر سیاسی شعور کو بلند سطح پر پہنچا دیا ہے مگر ایک خیال یہ بھی کسی وقت انگڑائی لیتا ہے کہ وہ عوام کو بیدار کررہے ہیں یا اُکسارہے ہیں ؟ جب وہ انتخابی اصلاحات کا معاملہ اٹھاتے ہوئے دھاندلی کو قومی مسئلہ بنادیتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ عوام کے اندر بیداری کی لہر پیدا کی جارہی ہے لیکن جب یہ عندیہ دیا جاتا ہے کہ 30نومبر کے بعد دھرنا پُراَمن نہیں رہے گا تو اُکسائے جانے کی ترغیب کا احساس ہوتا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ 2013کے انتخابات کے بعد اگر پی پی پی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار نہ نبھاتی اور سابق صدر آصف علی زرداری میاں نواز شریف کی مدد کو لاہور نہ پہنچتے تو پی ٹی آئی کی تحریک میں زیادہ ہنگامہ خیزی نہ ہوتی،گویا فرینڈلی اپوزیشن حکومت کے لیے شدید نقصان کی حامل ثابت ہوئی ۔اب حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں مل کر عمران خان کوکامیاب جلسوں سے روکنے کے جتن میں ہیں ۔پی ٹی آئی اور پی اے ٹی نے اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا ،پی اے ٹی کے دھرنا چھوڑنے کے بعد بھی پی ٹی آئی محض دھرنے کی جگہ ہی موجود نہ رہی، شہر شہر جلسوںکا سلسلہ بھی ساتھ شروع کر دیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو دھرنے سے زیادہ جلسے جلوسوں میں پی ٹی آئی کے مطالبات میں وسعت پیداہوئی ہے ۔جلسے جلوسوں میں گونجنے والے مطالبات غیر آئینی بھی نہیں ہیں ۔جن کا خیال تھا کہ عمران قادری لند ن پلان تھا ،وہ پلان اب نہیں رہا ،اس ضمن میںکچھ کا خیال یہ ہے کہ اصل لندن پلان تو میثاقِ جمہوریت تھا جس میں دو پارٹیاںاپنی اپنی باریوں کے اُصول پر کاربندتھیں ،ایسا خیال رکھنے والوں کے موقف میںاُس وقت وزن پیدا ہوجاتا ہے جب انتخابی مہم کے دوران سڑکوںپر گھسیٹیں گےکا نعرہ لگانے والوں نے اپنے تیور ہی بدل لیے ،ورنہ نیب کے کچھ پُرانے کیس تو کھولے جاسکتے تھے ۔ ایک بہت اہم سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان وزیرِ اعظم کے استعفے کی شرط سے پیچھے ہٹے ،مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر رضامند ہوئے ،لیکن اس سب کے باوجود حالات میں سدھار کی بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوا ،ایسا کیوں؟کہیںایسا تو نہیںکہ حکومت آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندگا ن کی شمولیت کو بہانہ بنا کر حالات کشیدہ کر تی رہی ہو۔؟دوسری بات یہ بھی ہے کہ عمران خان نے ایسی خواہش کااظہار کیوں کیا؟کیا وہ عدلیہ اور دیگر اداروں سے مایوس ہو چکے ہیں ؟ ایک بار پھر اُس سوال کی طرف رُجوع کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کے رویے میںلچک پیدا ہونے کے بعد بھی حالات بہتر کیوں نہ ہوئے ؟دونوں طرف سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا۔عمران خان نے اپنے جہلم کے جلسے میں کہا تھاکہ حکومت نے دھرنے کو ناکام بنانے کے لیے آئی بی کو 270کروڑ روپے دیے ،جہلم ہی کے جلسے میں گرمالا میں تحریکِ انصاف کے جلسے میں شرکت کرنے والی ریلی پر فائرنگ کی گئی تھی ،یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا ۔رحیم یارخان کے جلسے کے بعد جہلم کے جلسے میںنہ تو الزامات کا سلسلہ قائم رہتا اور نہ ہی ریلی پرفائرنگ والا واقعہ رُونما ہونا چاہیے تھا ۔اس ضمن میں تحریکِ انصاف اور حکومت دونوں پر سیاسی کشیدگی میںاضافے کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے ۔حکومت کوچاہیے تھاکہ وہ اپنے اندازِ سیاست میں اُس تبدیلی کا مظاہرہ کرتی جس کامظاہرہ اُس وقت دیکھنے میں آیاتھا جب سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیرِ اعظم پر چوٹ کی تھی کہ وہ بادشاہ نہ بنیں ۔آصف علی زرداری کے بیان پر وزیرِ اعظم نے حکومتی عہدے داران کو بیانات سے منع کردیا تھا ۔ایسا اُس وقت بھی دیکھنے میںآیا جب ڈاکٹر قادری نے دھرنا ختم کیا تھا ۔ورنہ حکومتی عہدے داران نے سخت بیانات جس میںتضحیک کاپہلو بھی نمایاںہوتا تھا ،کی سیریز شروع کررکھی تھی ۔رحیم یارخان جلسے کے بعد بھی وزیرِ اعظم کو اپنے حکومتی عہدے داران کو بیان بازی سے گریز کاحکم دینا چاہیے تھا ۔دوسری طرف عمران خا ن کو بھی احتیاط برتنی چاہیے تھی۔انہیںتو رحیم یار خان والے جلسے میں تصدق حسین جیلانی پر تنقید سے بھی گریز برتنا چاہیے تھا۔جب کہ وہ 18مئی کو ایک نجی چینل کو انٹریو دیتے ہوئے تصدق حسین جیلانی پر اپنے اعتماد کا اظہار کر چکے تھے ۔انہوں نے ناصر الملک سمیت تصدق حسین جیلانی کوایسی شخصیت قرار دیا تھا جن پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جاسکتا ہے ۔لیکن جب الیکشن کمیشن کی تقرری کا معاملہ درپیش آیا تو تنقید شروع کردی ۔عمران خان کے اندازِ سیاست پر تنقید کرنے والے کہتے ہیںکہ پی ٹی آئی کے سربراہ قومی مسئلوںکے حوالے سے منفی رائے کا تاثر رکھتے ہیں ،جیسے الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے معاملے پر۔حالانکہ یہ بہت ہی اہم قومی معاملہ ہے ۔واضح رہے کہ چیف الیکشن کمیشن کی تقرر ی کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے حکومت کو تیرہ نومبر تک کی مہلت تھی مگر حکومت اوراپوزیشن یہ تقرر نہ کرسکیں اور سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست پر اس مہلت کوچوبیس نومبر تک کر دیا تھا مگر اب خورشید شاہ کہتے ہیں کہ یکم دسمبر تک الیکشن کمشنر تقرری معاملہ ہو جائے گا۔ہمارے ہاںہر قومی مسئلہ اُلجھ کر رہ جاتا ہے ۔اس کی بنیادی وجہ جہاں بُودا نظام ہے وہاں سیاسی رہنمائوں کی ذاتی اَنا بھی ہے ۔اگر سیاسی رہنما پسند نا پسند کو ایک طرف رکھ کر قومی سوچ کو مدِ نظر رکھتے تو الیکشن کمشنر کا معاملہ کبھی نہ اُلجھتا۔ 30نومبر یعنی آج کا دن پاکستانیوں بالخصوص اسلام آبادکے باسیوںکے لیے بہت کڑا ثابت ہوگا۔اجتماعِ عظیم سے تشدد بھی پھوٹ سکتا ہے ،جس کا عندیہ عمران خان خود دے چکے ہیں ۔وہ کہہ چکے ہیں کہ 30نومبر کے بعد پُراَمن رہنا مشکل ہو جائے گا۔اگرچہ بعدازاں وہ لاڑکانہ کے علاقے علی آباد کے جلسے میں کہہ چکے ہیںکہ 30نومبر کے احتجاج میں آئین اورقانون کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔مگر مجموعی طورپر دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں سے گھیرائو ،جلائو اور مارو کی صدائیں بلند ہوتی رہی ہیں ،اگرچہ صدا کار شیخ رشید ہی ہو ں، پلیٹ فارم تو پی ٹی آئی کا ہوتا ہے۔دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ننکانہ کے جلسے میں شیخ رشید نے جب ان خیالات کا اظہارکیا تو پی ٹی آئی کے چیئرمین کی طرف سے اُس کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔ساہیوال کے جلسے میں بھی شیخ رشید نے کہا تھا کہ گھی اگر سیدھی اُنگلی سے نہ نکلے تو کنستر کو پھاڑنا پڑتا ہے ،مگر پی ٹی آئی نے اُس وقت بھی کوئی مذمت نہیں کی تھی،لوگوں کے ذہنوںمیںیہ سوال بھی پیداہوتا ہے کہ شیخ رشید پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے جب جلائو گھیرائو اور مارو کی بات کرتے ہیں تو اُس کے پیچھے کوئی اور مقصد تو پوشیدہ نہیں ہوتا ۔تاہم شیریں مزاری کے بقول کہ شیخ صاحب پر واضح کر دیا ہے کہ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے ۔دوسری طر ف جب عمران خان یہ کہتے ہیں کہ30نومبر کو فیصلہ کن جنگ ہو گی تو اس کا مطلب تشدد کے سوا کیا لیاجائے ؟ایسے بیانات سے اُن ناقدین کے خیالات کو تقویت ملتی ہے جو کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی ڈیڈ باڈیز کی سیاست کا تصوررکھتی ہے۔لیکن ذرا توقف کریں ،سوچیں ایک ایسا شخص جس نے بقول اُس کے انصاف کے لیے سبھی دروازے کھٹکھٹائے ہوں اورکوئی ایک دروازہ بھی نہ کھولا گیا ہو تو ایسے بیانات دینے کا بھی روادار نہیںٹھہرتا۔؟ دوسری طرف جب حکومتی عہدے داران کے بیانات پر نظر ڈا لیںتو اُن کے ہاں سختی،تلخی اور تضحیک کا عنصر تو ملتا ہے مگر یہ شائبہ نہیں ملتا کہ حکومت طاقت کا مظاہر ہ کرے گی۔اگر حکومت نے اس حوالے سے کسی بڑی سختی کا مظاہر ہ کیا تو یہ اُس وقت ہی ہو سکتا ہے جب مظاہرین قومی اداروں یا عمارتوں پر دھاوا ڈالیں گے۔یہ سختی بھی محض نگرانی کی حدتک محسوس کی جاسکتی ہے ۔آج کے دن کے حوالے سے کاروباری حلقوں میںتشویش کا پایا جانابھی کوئی انوکھا امر نہیں ۔دھرنوں کی سیاست نے جہاں عوام کے سیاسی شعور میں اضافہ کیا وہیں معیشت کا نقصان بھی ہوا۔ان دھرنوں سے حکومت پر دبائو میں اضافہ ہوا۔مگر ایک ایسا ملک جہاں اقتصادی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہو وہاں کاروباری طبقو ں میں تشویش جائز ہوتی ہے ۔جب کہ عمران خان کہتے ہیں کہ دھرنوںسے عام آدمی کوبہت ریلیف ملا ۔شایداسی تصور کے تحت وہ آج کے اسلام آباد میں بڑے مظاہرے کے حوالے سے بہت پُراُمید تھے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 2013 کے عام انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔اس اہمیت کے دو زاویے ہیں ۔اول :ملکی تاریخ میںپہلی بار اقتدار ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری منتخب جمہوری جماعت کو منتقل ہوا۔دوم:اس انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف تیسری سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی ۔گویا 2013کے انتخابات میں پہلی بار دو پارٹی تصور ٹوٹتا ہو ا نظر آیا تھا۔چونکہ تیسری قوت سامنے آئی تو عوام کو ایک اور آپشن مل گیا۔اگر دیکھاجائے تو قومی سیاست اس وقت عمران خان اور مسلم لیگ نواز کے گرد گھوم رہی ہے ۔اس سیاسی منظر نامے میںپاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیںاپنی موجودگی کااحساس دلاتی رہتی ہیں مگر مرکزی حیثیت پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نواز کو حاصل ہے ۔عمران خان کے سیاسی رویے میںلچک لاڑکانہ کے جلسے میںبھی محسوس کی گئی ۔لاڑکانہ کے جلسے کے بعد یہ سوال بھی اُٹھائے گئے کہ عمران خان خود کوتبدیل کرنے کی روش پرگامزن ہیں ؟نیز وہ اپنے اندازِ سیاست میںتبدیلی لا چکے ہیں ؟لاڑکانہ کے جلسے میںعمران خان عوام کے جذباتی اُبھار کے سامنے سرنگوںکرتے ہوئے دکھائی دیے تھے۔اُنہوںنے اپنی ضد جس کے حوالے سے وہ بہت شہرت رکھتے ہیں ،کے سامنے ہار مان لی۔عوامی خواہشات اہمیت اختیار کر گئیں اور ضد پستی کاشکا رہوگئی۔انہوںنے سندھیوں کی مرضی اور خواہش کے تابع رہ کر کہا کہ سندھیوںکی مرضی کے بغیر کالاباغ ڈیم بنے گا اور نہ ہی سند ھ کی تقسیم ہو گییہ بیان سندھی قوم کی عین اُمنگوںکے مطابق تھا۔لاڑکانہ کے جلسے سے ایک پہلو یہ بھی نمایاںہوا کہ عمران خان چاروں صوبوں کی علامت بننا چاہتے ہیں۔سندھی قوم کی حالتِ زار چیخ چیخ کر متبادل سیاسی قوت کا نعرہ لگارہی ہے۔عمران خان کے کانوں میںاُن نعروںکی گونج پڑ چکی ہے ۔پی پی پی کا سب سے بڑا مسئلہ گورننس کا ہے۔تھر میںاسی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ۔پی پی پی جو خود کو سندھ کا اکلوتا وارث سمجھتی ہے اس وقت روح عصر سے بے گانہ ہو چکی ہے ۔مسلم لیگ نواز سندھ میںاپنا کوئی اثر رسوخ آج تک حاصل نہیںکرسکی ہے ۔عمران خان کے عزائم سندھ میںپی پی پی کی متبادل سیاسی قوت کا اعلان کر رہے ہیں ۔لاڑکانہ میںجلسے سے قبل عمران خان نے کہا تھا کہ سندھ کے لوگوںکو غلام بنایا جا چکا ہے ۔اس پر سندھ اسمبلی سے اُن کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی ۔ جب کہ عمران خان نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ اسمبلی نے میرے خلاف مذمتی قرارد اد منظور کی ،مجھے اس پر فخر ہے۔ساتھ ہی اُن کاکہنا تھا اور بجا کہنا تھا کہ حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں،غلاموں کے نہیں۔ 9نومبر سے 30نومبر تک ملکی سیاست میں شدید ہیجانی کیفیت محسوس کی جاتی رہی ہے،اُس کی سب سے بڑی وجہ 30نومبر کی تاریخ تھی کیونکہ بقول عمران کے اس دن بادشاہت یا جمہوریت کا فیصلہ ہونا ہے۔ گوجرانوالہ جلسے میں اُنہوں نے کہا تھاکہ 30نومبر تک یہ میرا آخری جلسہ ہے۔اسی دوران عمران خان کی پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن سے اور بعد میں چین کے سفیرسن وی ڈنگ سے ملاقاتیں ہوئیں تھیں۔یہ دونوں ملاقاتیںسیاسی وسماجی حلقوں میں بہت زیرِ بحث رہیں ۔رچرڈ اولسن سے ملاقات اس حوالے زیادہ اہمیت کی حامل سمجھی جارہی تھی کہ اوباما نے نواز شریف کو فون بھی کیا تھا اور جنرل راحیل شریف بھی امریکہ کے دورہ پر تھے۔امریکی سفیر کی تحریک انصاف کے سربراہ سے 14اگست دھرنوں کے بعد پہلی ملاقات تھی ۔ماہِ اگست میں عمران خان نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے رچرڈ اولسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اپنے ملک میں غیر ملکی مداخلت قبول نہیں ہے ۔واضح رہے اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کہہ چکا تھا کہ نواز شریف منتخب وزیرِ اعظم ہیں ۔ عمران خان2015کوجب کہ حکومت 2018کو انتخابات کاسال قراردے چکی ہے ۔کچھ دن قبل وزیراعظم ہائوس سے جاری بیان میں وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں موجودہ جمہوری نظام کی اسٹیک ہولڈر ہیں اور انتخابات 2018میں ہوںگے۔اب دیکھنایہ ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے یا عمران خان کی مساعی رنگ لاتی ہے ۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر انتخابات وقت سے قبل ہوتے ہیںتو تحریکِ انصاف کی تیاری ہے؟30نومبر یعنی آج کے دن کیا ہوگا؟اگر عمران خان لوگوںکی ایک بڑی تعداد کا اکٹھ کرلیتے ہیں تو اُس اکٹھ سے وہ کیا کام لیں گے؟کیا اُن کے کارکنان اداروں اور قومی عمارتوں پر قبضہ جما لیں گے؟یا ایک بڑی سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کرکے اور اجتماعِ عظیم سے خطاب کرکے کارکنان کو چھٹی مل جائی گی؟یا پی ٹی آئی کی طرف سے چند دن کی مہلت کے بعد پہیہ جام ہڑتال کااعلان سامنے آگا ؟ اگر حکومت کسی طرح کے ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کرتی تب؟حکومت سے اُمید بھی یہی ہے کہ وہ کسی بھی انتہائی اقدام سے گریز کرے گی۔حکومت کو البتہ یہ خوف ضرور لاحق ہو سکتا ہے کہ کہیںتحریکِ انصاف پہیہ جام نہ کردے،جس سے نظامِ زندگی مفلوج ہو کر رہ سکتاہے ، بڑے عوامی اُبھار کے سامنے حکومتی مشینری بے بس ہو سکتی ہے ۔ جلائو گھیرائو کی توقع بھی ہے،عمران خان گوجرانوالہ جلسے میںکہہ چکے ہیںکہ اُن کے صبر کاپیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔یہ پیمانہ چھلک بھی سکتا ہے۔نقصان کس کا ہو گا؟حکومت کا یا غریب عوام کا۔۔۔؟ ٭٭٭ اس وقت سیاست سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ آج اسلام آباد میں تحریک انصاف کے شو میں کیا ہوگا؟اس بنیادی سوال کے ساتھ جڑے کئی ضمنی سوالات بھی موجود ہیں۔ تحریک انصاف کس قدر لوگ اکٹھے کر سکے گی،کیا عمران خان اپنے بڑے جلسوں کی طرح اس بار اسلام آباد میں بھی بڑا اجتماع اکٹھا کر سکیں گے، اگرایک لاکھ یا اس سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے تو پھر کیا وہ ریڈ زون میں گھسنے کا ایڈونچر کریں گے؟سوال تو یہ بھی ہے کہ عمران خان اس اجتماع کے بعد کس لائحہ عمل کا اعلان کریں گے؟حکومت کے حوالے سے دو سوالات موجود ہیں ۔ اگر تحریک انصاف کے کارکنوں نے ٹکرائو کی راہ اپنائی تو حکومت کس حد تک سختی کا مظاہر ہ کرے گی اور کیا حکومت عمران خان اور ان کے حامیوں کو سیف ایگزٹ دینے کو تیار ہے،وزیراعظم پاکستان تحریک انصاف کے بنیادی مطالبات میں سے کتنے تسلیم کر کے ان کے لئے باعزت واپسی کی گنجائش باقی رکھیں گے ؟ تحریک انصاف اور عمران خان ایک بڑے مخمصے کا شکار ہیں۔ چودہ اگست کے آزادی مارچ کے بعد سے وہ سیاسی ٹیمپو کو اس قدر تیز کر چکے ہیں، انہوںنے دھرنے سے اپنے مسلسل خطابات میں اتنا سخت موقف اختیار کیاکہ اب کسی بڑی پیش رفت کے بغیر وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ویسے اپنے کارکنوں کا مورال بلند رکھنے کے لئے یہ بلند آہنگی ان کی مجبوری بھی تھی، مگر عمران خان اس حوالے سے کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے۔ انہوںنے اپنے لئے سیف ایگزٹ کی گنجائش باقی نہیں رہنے دی۔ سراج الحق کی قیادت میں سیاسی جرگہ ان کے لئے کوئی راستہ نکال سکتا تھا، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہوسکا۔ تحریک انصاف کے بعض رہنما بعد میں یہ شکوہ کرتے رہے کہ حکومت چھ میں سے پانچ نکات تسلیم کرنے کا تاثر دیتی رہی، مگر تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے مختلف ادوار میں حکومتی ٹیم نے ایسی لچک نہیں دکھائی۔ ممکن ہے ان کا یہ شکوہ درست ہو، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیا پر اور لوگوں کے سامنے تو عمران خان ہی سخت اور بے لچک موقف رکھنے کا تاثر دیتے رہے۔ وہ اپنی ہر تقریرکی تان اس پر توڑتے کہ وزیراعظم کے استعفے سے کم کسی بات پر نہیں مانوں گا۔ عمران خان کے لئے اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ دھرنے کے سلسلے کو اچھے طریقے سے کس طرح ختم کیا جائے؟دھرنا اگرچہ سو سے زیادہ دن نکال چکا ہے ،عمران خان اور تحریک انصاف کے کارکن اپنی استقامت اور کمٹمنٹ کامظاہرہ کر چکے ہیں، مگر ظاہرہے کہ اسے غیر معینہ مدت تک تو نہیں چلایا جاسکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ تھکن بھی بڑھ رہی ہے اور میڈیا کی عدم دلچسپی بھی ظاہر ہونے لگی۔اسلام آباد کا موسم بھی شدید ہو رہا ہے، دسمبر، جنوری اور فروری کی سرد راتوں میں روزانہ اس ایکٹوٹی کو جاری رکھنا بہت مشکل ہوگا۔دوسری طرف یکطرفہ طور پر اگر وہ اپنا دھرنا ختم کر دیں تو ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرح ان کا بھی مذاق اڑایا جائے گا۔ مسلم لیگ ن اپنی سب سے اہم مخالف جماعت کا تمسخر اڑانے کا موقعہ کیوں ضائع کرے گی؟ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان اپنے اسی مخمصے کے باعث فرسٹریشن کا شکار ہوچکے ہیں اور وہ کوئی انتہائی اقدام اٹھا سکتے ہیں۔تاہم عمران خان کے حامیوں کا خیال ہے کہ کپتان نے یکے بعد دیگرے بڑے جلسے کر کے اپنی سیاسی قوت اورمقبولیت کا ثبوت فراہم کر دیا ہے اور وہ اپنی سیاسی جدوجہد کوکسی بھی نئے فیز میں لے جا سکتے ہیں۔آج عمران خان کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ دھرنے والے ایشو کو سلیقے سے سمیٹتے ہیںیا پھر اپنی سیاسی تحریک میں مزید شدت بھرتے ہیں؟دونوں آپشنز ان کے پاس موجود ہیں۔ یہ بہرحال یادرہے کہ ان کی تحریک کا نکتہ عروج گزر چکا ہے، اب حکومت گرنے یا گرانے کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔ حکومت کے پاس دو ہی آپشنز تھیں، تحریک انصاف کے مظاہرے اور دھرنے کو سختی سے کچلے یا پھر برداشت سے کام لیتے ہوئے اس لہر کو گزر جانے دے۔ سیاسی غلطیاں میاں نواز شریف سے بھی سرزد ہوتی رہی ہیں، مگر دھرنے والے معاملے میں انہوں نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا۔ انہوںنے پارلیمنٹ کے اندر تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا کیا اور یوں ایسا منظرنامہ تشکیل دے دیا کہ کہیں کسی جانب سے کوئی اگر کچھ کرنا بھی چاہتا تھا تو اس کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ وہ سیاسی محاذ پر عمران خان کو تنہا کرنے میں کامیاب رہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون مسلم لیگی حکومت کی بھیانک غلطی تھی، مگر اس واقعے سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اسلام آباد میں انتہائی تنائو کے لمحات میں بھی انہوں نے خود پر قابو رکھا اور ٹکرائو سے حتیٰ الامکان بچنے کی کوشش کی۔ حکومت کی پالیسی یہی رہی کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو تھکایا جائے اور دھرنے کو ازخود دم توڑ جانے دیا جائے ۔ اس بار بھی یہی حکمت عملی نظر آ رہی ہے۔ پہلے یہ اشارے دئیے جاتے رہے کہ اس بار کوئی بڑا شو نہیں ہونے دیا جائے گااور پکڑ دھکڑ ہوگی، مگر بعد میں پالیسی بدل دی گئی۔حکومتی حلقے عمران خان کو ایزی تو بالکل نہیں لے رہے ،مگر وہ اس دن کو بھی ٹکرائو کے بغیر گزاردینا چاہتے ہیں۔ حکومتی کیمپ میں موجود ایک لابی یہ چاہتی ہے کہ عمران خان کچھ لئے بغیر واپس جانے پر مجبور ہوجائے تاکہ اس کو سیاسی طور پرختم کیا جاسکے۔ بعض لوگ البتہ چاہتے ہیں کہ خان کو فرسٹریٹ کرنے سے بچا جائے اور درمیان کا راستہ نکل آئے۔ حکومتی کیمپ کے لئے بہتر آپشن یہی ہے کہ وہ ازخود الیکشن ریفارمز کا اعلان کر دے۔ الیکشن کے حوالے سے اصلاحات کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے، اسی طرح چند حلقے کھولنے ہی پڑیں گے۔ تحریک انصاف کی یہ بہرحال کامیابی ہے کہ اس نے مسلم لیگی مینڈیٹ پر سوالات اٹھا دئیے ہیں،وہ حکومت کو مکمل طور پر مفلوج بھی کئے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت پہل کر کے ایسی اصلاحات نافذ کر دے ، جس سے تحریک انصاف کے مطالبات کا زور ٹوٹ جائے تو اسکا تمام تر فائدہ وزیراعظم کو پہنچے گا۔دوسری صورت میں تحریک انصاف اپنی ایجی ٹیشن کو شہر شہر لے جائے گی اوراقتدار میں ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن عملاً کمزور اور مفلوج ہو جائے گی۔دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف اور حکومتی کیمپ دونوں جگہوں پر آج جارحانہ نقطہ نظر رکھنے والے عقاب غالب آتے ہیں یا پھر تدبرسے کام لینے والوں کی سنی جائے گی؟ اسلام آباد میں تحریک انصاف کامظاہرہ آج اسلام آباد میں کیا ہوگا؟ تحریک انصاف کس حد تک عوامی قوت کا مظاہرہ کر پائے گی، حکومتی ردعمل کیا ہوسکتا ہے، فریقین کے پاس کیا کیا آپشنز ہیں کون سے عوامل سیاسی کشیدگی کم نہیں ہونے دے رہے خصوصی اشاعت دونوں طرف کیا آپشنز موجود ہیں؟ عامر خاکوانی دونوں طرف کیا آپشنز موجود ہیں؟ عامر خاکوانی دونوں طرف کیا آپشنز موجود ہیں؟
عامر خاکوانی
Similar Threads:
Bookmarks