AOA,

kuch din pehle mukhtasir post ''Baqa'' ko mazeed agay barhatay hoye mazeed chand tootaty hoye khyalat aap sab k nazr. shukria


بقا
زرد پتہ ہوا کے دوش پر اِدھر سے اُدھر اُڑا جارہا تھا ۔ منزل کا کوئی ٹھکانہ نہیں ، کچھ لمحے پہلے ، نہیں نہیں کچھ دن پہلے ، یا شاید ۔۔کچھ ہفتے پہلے کسی خوبصورت پیڑ کی ڈَال کی زینت ہوگا۔ ہری بھری خوشنما ڈَال جس کے ارد گرد ہوائیں گھومتی ہونگیں ۔ طائر اُس ڈَال پر بیٹھ کر خدا کی حمد و ثناء کرتے ہونگے۔ راہ سے گزرنے والے قدرت کے حسین شاہکار کو کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسرور گزر جاتے ہونگے۔ مگر کبھی کسی نے بھی یہ نہ سوچا ہوگا ( یا شاید سوچا ہو)کہ جب موسم بدلتا ہے خزاں رُت آتی ہے۔ تو پیڑ کے تمام ساتھی جو اس سے جڑے ہوتے ہیں ، اُس سے جدا ہوجاتے ہیں۔اور ایک دن فنا ۔حتیٰ کہ خود فنا ہونے والا بھی اِس احساس کو اپنے اندر کہیںُ سلائے ہوئے ہوتا ہے، کہ ایک روز اپنی ذات کے زُعم میں مبتلا اِسی خاک کا حصہ بن جانا ہے۔
کیا میں بھی زرد پتہ ہو؟ یا میں خوبصورت پیڑ ہوں؟ یا ڈَال ڈَال بیٹھنے والا طائر؟ یا راہ سے گزرنے والا مسافر؟ کوئی بھی ہوں ،اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر پڑتا بھی ہے تو مجھے کیا۔۔۔۔۔خاک تو مجھے بھی ہونا ہے۔ ہاں اگر احساس ہوجائے کہ فنا ہونا ہے۔ اور یقین آجائے کہ جدا ہونا ہے۔ تو فرق پڑتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ احساس کیسے ہوگا ؟ کب ہوگا؟ اور کیوں کر ہوگا؟
یقینااُس کے بعددل یقین کی منزل کی طرف گامزن ہوجائے گا۔ شاید یہ احساس کی پہلی رمق ہی ہے جو میرے دل میں اُس زرد پتے کو دیکھ کر اِدراک ہونا شروع ہوا۔ اور دل میں سوال آیا کہ میں کون ہوں،اور مجھے بھی فنا ہونا ہے۔
بات فقط یہیں ختم نہیں ہوجاتی کہ فنا ہونا ہے۔۔بات تو یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے بعد منزل کیا ہے۔تو احساس بھی اُسی منزل کا ،ادراک بھی اُسی منزل کا ،اور یقین بھی اُسی منزل کا چاہئے ۔ جو اُس کے بعد کی ابتداء ہے ۔ یعنی فنا ہونے میں ہی بقا ہے۔ دائمی بقا۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
آہ دائمی بقا۔۔۔۔ خزرانہ بی بی اپنی خیالی دنیا سے باہر آ جائیے ۔۔۔میں نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے خود کلامی کی۔۔۔
آج کتنے مہینوں بعد اس فلسفیانہ سوچ نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔
مگر ہائے ری مجبوری۔۔۔وقت کی بے رحم لہریں ہوا کے دوش پر اڑی جارہی تھیں ۔اور مجھ کو زرد پتہ چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ آج باہر جاؤں گی تو اس زرد پتے کو ضرور ہمراہ لے آؤں گی۔ یہی سوچتی جلدی جلدی کام مکمل کر کے باہر کی راہ لی۔
باہر کی سرد ہوا نے خون کی گرمی کو لمحوں میں سرد کردیا۔ کوٹ کی جیب سے دستانے نکال کر پہنے اور تیز قدموں سے پارک کی جانب بڑھتی گئی۔ تیز ہوا سے تمام پیڑوں کی شاخیں ٹنڈ منڈ ہوچکی تھیں ایک آدھ ہی پتہ ڈال پر نظر آرہا تھا۔ زمین زرد پتوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں ٹھٹک کے رُک گئی ۔۔اُس پتے کو اتنے ساراے پتوں میں تلاش کرنا ناممکن تھا ۔ افسوس کل ہی اُسے سنبھال لیا ہوتا۔۔۔۔ سر پکڑ کر زمین پر بیٹھ گئی اور تیزی سے دوسرے ہاتھ سے پتوں کو ادھر سے ادھر کرنے لگی۔ اس عمل میں ہوا بھی میرے ساتھ تھی۔۔جتنی تیزی سے میں پتے اکٹھا کرتی ہوا اُس سے زیادہ تیزی سے بکھیر دیتی۔۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔یا شاید ہوا کی سرد مہری مجھے رلا رہی تھی، نہیں شاید ٹھنڈک کی وجہ رہی ہو۔۔دماغ سُن ہو رہا تھا۔۔۔اور کچھ سجھنے سے قاصر تھا۔۔آہ وہ زرد پتہ کہاں گیا؟؟ میں تھک گئی تھی ۔اور اچانک میرا ذہن جاگ اٹھا ۔۔کیا فقط وہی پتہ میری توجہ کا طالب ہے؟؟ یہ اتنے سارے پتے۔۔۔۔۔ان کا ٹھکانہ کہاں ہے۔۔؟اُسے اگر میں ڈھونڈ بھی لوں اور سنبھال کر اپنی ڈائری میں رکھ لوں گی ۔تو اِن باقی بکھرے ہوئے پتوں کا کیا ہوگا۔۔اور اتنے سارے پتے ۔۔تو میں گھر لے جا نہیں سکتی۔۔۔۔کتنا عجیب احساس تھا۔۔
یہ کائنات بھی تو ہے۔۔۔اِس میں مجھ سمیت رہنے والے۔۔ہزاروں ۔۔نہیں کڑوڑوں۔۔بلکہ انگننت۔۔۔افراد۔۔سب ہی مجھے اس لمحے زرد پتے لگ رہے تھے۔۔یہ سب ۔۔کیا ہورہا ہے؟ میں کیا سوچے جارہی ہوں۔ احساس کی اگلی رمق۔۔؟؟ بارش کی تیز بوندوں نے میرے چہرے کو بگھو نا شروع کردیا۔۔میں۔۔جلدی سے اٹھی۔ اوہ! چھتری۔۔لانا بھول گئی تھی۔ جلدی سے پارک کے کونے میں بنے ہوئے چوکیدار کے گھر کے باہر کے دالان میں کھڑی ہوگئی۔ پورا پارک ہُوہق ہو رہا تھا بس تیز بوندیں زرد پتوں پر تڑا تڑ پڑ رہی تھیں ۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ پیڑ رو رہے ہوں ۔زرد پتوں کی بے بسی پر۔۔پتوں کو درد ہو رہا ہوگا۔دل میں اس خیال کا آنا تھا کہ ایک ٹیس نے میرے دل کو کچوکے لگانا شروع کردئیے۔ اور بارش کے ساتھ میری آنکھیں برسنے لگیں ۔۔۔کتنی دیر برستیں۔۔تھک گئیں۔۔انسان کی آنکھیں تھیں نا۔۔۔بارش بھی کچھ دیر میں تھم گئی۔۔زرد پتے پانی سے شرابور تھے۔اور زمین کی گود میں سکون سے سورہے تھے۔کیوں کہ ہوا دور دیس کی جانب لوٹ گئی تھی۔پتوں کو کچھ وقت آرام کا مل گیا تھا۔ مگرابھی ان کا سفر تمام نہیں ہوا تھا۔۔۔ مگر میں بہت تھک گئی تھی اور بری طرح بھیگ چکی تھی۔گھرلوٹ آئی۔
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔کسمسا کر بہت مشکل سے کمبل سے ہاتھ باہر نکال کا ریسور اٹھایا۔ ہیلو! دوسری جانب طویل خاموشی تھی۔کچھ دیر ہیلو ہیلو کر کے میں نے فون رکھ دیا۔ منہ باہر نکال کا گھڑی کی جانب دیکھا ۔اوہ آٹھ بج گئے۔جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔کھڑکی سے باہر ہلکی دھوپ اور بادلوں کی آنکھ مچولی چل رہی تھی۔ آج بھی شاید بارش ہو۔یہی سوچتے ہوئے یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنے لگی۔ آج پہلا لیکچر انگلش کا تھا اور وقت پر پہنچنا ضروری ورنہ مسز ادریس نے کلاس میں داخل نہیں ہونے دینا تھا۔ تیار ہو کر تیزی سے گھر سے باہر جانے لگی ۔
ناشتہ تو کرتی جاؤ خزرانہ ۔۔امی کی آواز نے قدموں کو بریک لگا دئیے۔ جی امی دیر ہو رہی ہے ناشتہ کیمپس میں کرلوں گی۔اور تیز قدموں سے باہر نکل گئی۔ کیمپس پہنچتے پہنچتے بارش شروع ہوگئی تھی۔ بس سے اتر کر جلدی سے کلاس کی جانب جانے والی راہداری سے گزرتے گزرتے زرد پتوں کو دیکھنے لگی۔اور کل پارک میں گزرے لمحے ذہن میں فلم کی طرح چلنے لگے۔خزرانہ ! خزرانہ۔۔جلدی چلو ورنہ بھیگ جاؤ گی پیچھے سے آتی ہوئی سیما کی آواز نے مجھے احساس دلایا کہ واقعی بارش کی رفتا رتیز ہورہی ہے اور میں بھیگ جاؤنگی۔ جلدی سے کلاس میں داخل ہوگئی۔ یہ یونیورسٹی کا آخری سال تھا۔ اس کے بعد زندگی کی طویل سڑک پر انتظار ۔۔۔
آج کل خزاں رُت تھی تو ہر جانب زرد پتوں کا ڈھیڑ ہی نظر آرہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ اچانک شروع ہوجانے والی بارشیں۔۔یہ تو ہر سال اسی طرح سے ہوتا آرہاتھا۔مگر اس بار مجھے احساس کچھ زیادہ ہورہا تھا۔ یاشاید احساس کی گھنٹی دل و دماغ میں ایک ساتھ بجنا شروع ہوگئی تھی۔
اب تک کی زندگی میں کوئی ایک کام بھی ایسا کیا ہے میں نے؟ جس پر مجھے ناز ہو۔۔۔سوچ کا ایک نیا دروازہ پھر کھل گیا۔اور میں بے چین ہو کر شام کو پارک کی جانب چل پڑی۔ گزشتہ روز ہونے والی طوفانی بارش کا نام و نشان نہیں تھا۔ پارک کے رکھوالوں نے تمام زرد پتوں کو اکٹھا کر کے کہیں ڈرم میں جمع کردیا تھا۔ آج پارک میں سکون تھا۔ ہوا نہیں تھی۔شاید وہ زرد پتہ مجھے مل جائے۔۔۔۔
کہیں کہیں زرد پتے گرے ہوئے تھے مگر ساکت تھے۔ جیسے ان میں جان نہ ہو۔ میں نے ایک پتے کے قریب بیٹھ کر اسے دھیرے سے چھوا مجھے اس کے کھردرے وجود میں ہلکی سی حرارت کا احساس ہوا شاید یہ میرے ہاتھوں کی گرمی تھی۔ اسے ہتھیلی پر رکھ کر بہت غور سے دیکھنے لگی زرد پتہ کہیں کہیں سے کتھئی ہورہا تھا اس کی زردی مزید کھنڈر ہورہی تھی۔اس کی بے بسی مجھے ہتھیلی سے پھیلتی ہوئی دل کے کسی کونے میں محسوس ہونے لگی۔ میں بے چین ہوگئی۔ اور اٹھ کر کھڑی ہوگئی پتہ میری ہتھیلی پر پرسکون تھا۔شاید اسے لگا ہو اب وہ محفوظ ہاتھ میں ہے۔
میں اسے گھر لے آئی۔اور اپنی ڈائری کے اس صفحے کو کھولا جس پر لکھا تھا زرد پتہ اور پورا صفحہ سادہ تھا۔ میں نے بہت احتیاط سے اس پتے کو سادہ صفحے کے بیچ میں رکھ دیا۔ اور ڈائری بند کردی۔ ذہن میں مچلنے والا احساس بھی غائب ہوگیا۔ اور دل پرسکون۔۔
کیا میں نے فنا کے عمل سے پہلے اسے فنا کی منزل تک پہنچا دیا؟ رات سونے سے پہلے سارا دن کی مصروفیت کو دھراتے ہوئے میں سوچا۔ نہیں میں نے تو اس کو محفوظ کیا ہے۔جلدی سے اٹھ کر ڈائری کھولی پتہ بے جان لگ رہا تھا چند گھنٹوں میں اس کی شکل تبدیل ہوچکی تھی۔ شاید ہو ا کے دوش پر ادھر سے ادھر بھٹکنا اس کی زندگی کو کچھ وقت مزید دے جاتا۔آہ یہ میں نے کیا کردیا۔
کیا میں نے کچھ غلط کردیا؟ اپنے آپ سے بار بار یہ سوال کرتے ہوئے میں الجھ سی گئی۔پتے کو ہتھیلی پہ رکھا تو وہ سانس لینے لگا۔ عجیب سی بات ہے۔ مگر مجھے ایسا ہی محسوس ہوا۔ شاید میری ہتھیلی سانس لے رہی تھی۔ چند لمحے خاموشی سے گزرگئے۔ میں نے اچھانک آگے بڑھ کر کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ تیز ہوا کے جھونکے سے یک لخت پتہ ہوا کے دوش پر کسی لہراتی ہوئی پتنگ کی مانند اڑنے لگا۔ اس کی مسکراہٹ مجھے اپنے دل میں گدگداہٹ کرتی محسوس ہونے لگی۔ شاید اسے آزاد رہنا پسند تھا۔میرے دل میں سکون کی لہر اترتی چلی گئی۔بہت دیر تک پتے کو بقا کی منزل کی جانب ہوا کے سنگ اڑتا دیکھتی رہی۔جب نظروں سے اوجھل ہو گیا تو کمرے کی کھڑکی کو آہستہ سے بند کردیا۔
ختم شد


Similar Threads: