Assalamo-o-Alaikum
General Knowledge Amazing facts Competitionka result late islye raha qk is competition ko start karne wale @FlashPro thread laga kar bhool gaye thay k iska result b lagana tha.ab me baar baar to paaglon ki tarha kisi ki minnaten karne se rahi k plz result thread laga dijiye.lehaza khudi laga rahi hu
Iss month ki winning entry ye rahi
1۔ فوجیوں کے دماغ کنٹرول کرنے والے ہیلمٹ
ڈیفینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی
(DARPA)
کی مالی معاونت سے امریکہ کی ایری زونا سٹیٹ یونی ورسٹی کے ایک محقق ایک ایسا فوجی ہیلمٹ تیار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیںجو فوجیوں کے دماغوں کو کنٹرول کرسکے گا۔ اس ہیلمٹ کی تیاری میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اس کا نام ’’ٹرانس کرینل پلسڈ الٹراساؤنڈ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے آواز کے اونچے تعدد والی امواج دماغ کے مخصوص حصوں میں بھیجی جاتی ہیں۔ ہیلمٹ پہننے والے فوجی کے پاس ایک کنٹرولر ہو گا جس کے ذریعے وہ الٹراساؤنڈ محرک سے دماغ کے مختلف حصوں کو اپنی مرضی سے کنٹرول کر سکے گا۔ مثال کے طور پر اگر فوجی سو کر اٹھا ہے اور وہ زیادہ مستعد ہونا چاہتا ہے تو وہ دماغ کے خاص حصوں کو الٹرا ساؤنڈ محرک سے تحریک دے کر اپنے آپ کو مستعد کر سکے گا یا اگر اسے جنگ کے دوران آنکھ جھپکنے کا موقع میسر آ گیا ہے تو وہ الٹرا ساؤنڈ محرک سے دماغ کے نیند والے حصوں کو فعال کر کے کم وقت میں زیادہ آرام کر سکے گا۔ اسی طرح اس ہیلمٹ سے درد کا احساس بھی کم کیا جا سکے گا جس سے میدانِ جنگ میں مارفین اور دوسری نشہ آور دواؤں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
2۔
رَدّی کاغذوں کو پینسل بنا دینے والا آلہ
امریکہ کی کلین ایئر کونسل کے مطابق امریکہ کے کاروباری ادارے ہر
سال210,000,00 ٹن کاغذ استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح امریکہ میں ردی کو ٹھکانے لگانے کا سنگین مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔ یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے مختلف موجدوں نے کوششیں کی ہیں۔ چین کے تین موجدوں نے ردی کاغذ دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے لیے سب سے دل چسپ ایجاد کی ہے۔ انہوں نے ایک ایسا انوکھا آلہ ایجاد کیا ہے جو ردی کاغذوں کو پینسلوں میں ڈھال دیتا ہے۔ اس آلے کو ’’پینسل پُشر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آلہ اس طرح کام کرتا ہے: آپ اس آلے کے ایک سوراخ کے ذریعے اس میں ردی کاغذ داخل کریں گے۔ آلہ اسے توڑموڑ دے گا۔ اس کے بعد آلے کے اوپری حصے سے سیسے کا ایک ٹکڑا اس مڑے تڑے ردی کاغذ میں داخل ہو جائے گا۔ اس سے پہلے خودکار طریقے سے تھوڑی سی گوند کاغذ پر انڈیلی جائے گی۔ اس کے بعد تیار شدہ پینسل ایک دوسرے سوراخ سے باہر آ جائے گی۔
3
۔ انسانی طاقت سے کام کرنے والا اُڑن لباس
شاید آپ نے بھی بچپن میں تصور کیا ہو کہ آپ فضا میں اڑ سکتے ہیں۔ ایک امریکی موجد نے جنوری 2012ء میں ایک ایسے لباس کا پیٹینٹ حاصل کیا جسے پہننے والا اس لباس میں موجود موٹروں کی مدد سے پرندے کی طرح اڑ سکتا ہے۔ اس لباس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں نصب موٹریں انسان کی اپنی طاقت سے کام کر سکتی ہیں۔ اس لباس میں چمگادڑ کے پروں جیسے پر نصب کیے گئے ہیں۔اس لباس کے پہننے والے کو اڑنے کے لیے پہلے زمین پر تیزی سے دوڑنا ہو گا۔ تب ایک خاص رفتار پر اسے فضا میں جست بھرنا ہو گی۔ اس طرح وہ اڑنا شروع ہو جائے گا۔
4
۔ فلیش کی ضرورت سے بے نیاز کر دینے والے سینسر
فوٹوگرافی کے ماہرین اور اس فنِ لطیف سے دل چسپی رکھنےوالے عام افراد جانتے ہیں کہ آج کل جو کیمرے تصویریں کھینچنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں وہ مدھم روشنی میں اچھی تصویریں نہیں کھینچ سکتے۔ سنگا پور کی نان یانگ ٹیکنولوجیکل یونی ورسٹی کے محققین کی ایک ٹیم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے شب و روز تحقیق کے بعد ایسے حساسیے (سینسرز) ایجاد کر لیے ہیں جن کے ذریعے مدھم روشنی میں بھی عمدہ تصویریں کھینچنا ممکن ہو جائے گا۔ ان سینسروں کے موجد وانگ چِیجائی ہیں، جو این ٹی یو سکول آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرونک انجنیئرنگ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان سینسروں کی مدد سے انفراریڈ روشنی میں بھی تصویریں کھینچی جا سکتی ہیں۔ یقیناً آپ جانتے ہوں گے کہ انفراریڈ روشنی انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی۔ انفراریڈ روشنی فلکیات داں ولیم ہرشل نے 1800ء میں دریافت کی تھی۔ چوں کہ نئے ایجاد کردہ سینسر انفراریڈ روشنی میں بھی تصویریں کھینچ سکتے ہیں اس لیے انہیں عام گھریلو کیمروں کے ساتھ ساتھ جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے والے مخصوص کیمروں اور خلائی کیمروں میں بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ یہ سینسر روشنی کے لیے موجودہ زمانے میں کیمروں میں استعمال کیے جانے والے سینسروں سے 1000 گنا زیادہ حسّاس ہیں۔ یہ سینسر کاربن کے گرافین نامی انتہائی مضبوط مرکب سے بنائے گئے ہیں۔ یاد رہے گرافین کو مستقبل کا تعمیری مادّہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مادّے پر تحقیق کرنے والے دو طبیعیات دانوں آندرے گائیم اور کونسٹینٹین نووسیلوو کو 2010ء میں طبیعیات کا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ ان سینسروں کے موجد وانگ چِیجائی نے بتایا کہ اتنے وسیع سپیکٹرم اور انتہائی فوٹوسینسٹو سینسر پہلی بار گرافین سے بنائے گئے ہیں۔
5
۔ کچرے کی طرف خود بڑھ کر کچرا ’’کَیچ‘‘ کرنے والا کچرادان
ایک جاپانی انجینئر مینورو کُراتا نے ایک ایسا کچرادان ایجاد کیا ہے جو آپ کے پھینکے ہوئے کچرے کی طرف خود بڑھ کر اسے ’’کیچ‘‘ کر لیتا ہے۔اس کچرادان کا حساسیہ (سینسر) دیوار پر نصب ہوتا ہے جو یہ معلوم کرتا ہے کہ کچرا کس سمت سے پھینکا جا رہا ہے۔ یہ جاننے کے بعد حساسیہ ایک کمپیوٹر کو یہ اطلاع بھیجتا ہے جو کچرادان کوکچرے کی جانب روانہ کر دیتا ہے۔ یہ سارا کام اس قدر تیز رفتار سے انجام پاتا ہے کہ کچرے کے زمین پر گرنے سے پہلے ہی کچرادان ٹھیک اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس نے گرنا ہوتا ہے۔ چناں چہ کچرا وہاں موجود اِس انوکھے کچرادان میں گر جاتا ہے۔ جاپان میڈیا آرٹس فیسٹیول میں اس ایجاد کو ایکسیلینس ایوارڈ دیا گیا۔
6
۔ ایک پہیے والی موٹر سائیکل
انّیس سالہ موجد بین جے پوس گولاک نے یہ موٹر سائیکل ایجاد کی ہے۔ انہوں نے اپنی یہ انوکھی ایجاد ٹورنٹو، کینیڈا میں منعقدہ نیشنل موٹرسائیکل شو میں نمائش کے لیے پیش کی تھی۔ اس موٹرسائیکل کو ’’یونو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ موٹرسائیکل چلانے والے کو اس کی رفتار بڑھانے کے لیے آگے کو جھکنا ہو گا جبکہ اس کی رفتار کم کرنے کے لیے اسے پیچھے کو جھکنا ہو گا۔ یہ موٹرسائیکل بیٹری سے چلتی ہے۔ یونو کا وزن تقریباً 58 کلوگرام ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ 40 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے۔ اس موٹرسائیکل کے موجد بین جے پوس گولاک کو ماہنامہ پاپولر سائنس کے انعامی مقابلے ’’اِنوینشن ایوارڈز‘‘ میں پہلا اور انٹیل انٹرنیشنل سائنس اینڈ انجنیئرنگ فیئر میں دوسرا انعام دیا گیا۔ سرمایہ کاروں نے انہیں مزید تحقیق کے لیے 1250000 ڈالر دیے ہیں۔
Or ye entry hai
@intelligent086
Congrats
Similar Threads:
Bookmarks