SUbhan ALlah
حضرت مسلم بن عقیل ؓ کی شہادت
شبیر حسین
تحریک عاشورا دو مرحلوں پر مشتمل ہے : پہلا مرحلہ ، خون ، شہادت اور انقلاب کا مرحلہ تھا ، دوسرامرحلہ پیغام رسانی ، امّتِ مسلمہ کی بیداری اور اس واقعہ کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھنے کا مرحلہ تھا۔ تحریک کے پہلے مرحلہ کی ذمہ داری حسین ؓ اور ان کے جان نثار اصحابؓ کی تھی اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ ظلم و ستم اور انحراف کے سامنے ثابت قدم رہے اور اس راہ میں جامِ شہادت نوش کیا۔ امام حسین ؓ اور آپ ؓکے خاندان اور اصحاب و انصار نے ظلم و جور کی حکمرانی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا اور غاصب و ظالم یزیدی ملوکیت کی بیعت سے انکار کیا تو یزیدیوں نے خاندان نواسہ رسولﷺ کا پانی بند کردیا اور امام حسین ؓاوران کے آل و اصحاب تشنہ لب ہوتے ہوئے مظلومانہ طریقے سے شہید ہوئے ۔مگر ان کی شجاعت و دلیری اور جوانمردی و جانفشانی تاریخ کے ماتھے پر نقش ہوگئی۔ ظلمت و شقاوت کی فوجیںبیبیوں ، بچوں اور بڑوں کو جو کربلا میں شہید نہیں ہوئے تھے ، اسیر بنا کر کوفہ و شام کی جانب لے گئیں تا کہ اہل کوفہ و شام کو اپنی فتح مندی جتائیں مگر یہی عمل یزیدی حکمرانوں کی شکست و بدنامی کی اساس ثابت ہوا۔ حضرت سیدنا امام حسینؓ نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیلؓ کوبلوایا اور حکم خداوندی کی تعمیل اصلاح دین اور رہنمائی کیلئے کوفے کے لوگوں کے پرعقیدت اسرار پر کوفے کی طرف روانگی کا حکم دیا سیدنا امام حسینؓ کا حکم ملتے ہی جناب حضرت مسلم بن عقیلؓ نے کوفے کی طرف روانگی کا ارادہ کرلیا لیکن ان کے ساتھ ان دونوآموز پھولوں کی تیاری بھی قابل دید تھی ۔مسلم ابن عقیل کو صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا گیا تھا۔ وہاں پہنچ کر انہیں صورتحال مناسب لگی اور انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط بھیج دیا کہ کوفہ آنے میں کوئی قباحت نہیں۔ کوفہ میں مسلم بن عقیلؓ نے جناب مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے گھر پر قیام کیا۔ کوفہ والوں نے ان کی بیعت شروع کی جن کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ گئی۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا۔ جب یہ خبر یزید تک پہنچی تو اس نے بصرہ کے حاکم عبید اللہ ابن زیاد کو پیغام بھیجا کہ وہ جلد کوفہ پہنچ کر نعمان بن بشیر کی جگہ حکمران مقرر ہوں اور مسلم بن عقیل کا سر کاٹ کر یزید کے پاس بھیجیں۔ ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر گورنری سنبھالی تو حضرت مسلم بن عقیلؓ امیر مختار کے گھر سے صحابیِ رسولﷺ درود حضرت ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے۔ ابن زیاد نے فوج کو انہیں پکڑنے کے لیے بھیجا تو حضرت ہانی بن عروہ جن کی عمر اس وقت 90 سال تھی، نے اپنے مہمان کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت ہانی بن عروہ کو قید کر لیا گیا۔ اس پر بھی انہوں نے انکار کیا تو انہیں باندھ کر پانچ سو کوڑوں کی سزا دی گئی جس کے دوران جب وہ بے ہوش ہو گئے تو ان کا سر تن سے کاٹ کر لٹکا دیا گیا۔حضرت ہانی بن عروہ کی گرفتاری کے بعد آہستہ آہستہ سب کوفیوں نے حضرت مسلم بن عقیلؓ کا ساتھ چھوڑ دیا حتیٰ کہ صرف تیس افراد ان کے ساتھ رہ گئے۔ مغرب کی نماز تک وہ بھی باقی نہ رہے۔ حضرت مسلم بن عقیل ؓ نماز مغرب کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو تنے تنہا کوفہ کی انجان گلیوں میں سر گرداں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں تھے۔ پیاس کی شدت بجھانے کے لیے آپ نے ایک طوعہ نام کی بوڑھیا سے پانی مانگا جو اپنے بیٹے کے انتظار میں دروازے پر کھڑی تھی۔ جب انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق خاندانِ رسالت ﷺسے ہے تو اس عورت نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی۔ مگر اس عورت کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں مخبری کر دی۔ ابن زیاد نے سحر کے وقت تین ہزار فوج بھیجی اور طوعہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو حضرت مسلم بن عقیل ؓگھر سے باہر آ کر لڑنے لگے اور بنو ہاشم کی تلوار بازی کے جوہر دکھائے۔ جب سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے تو ابن زیاد کے سالار ابن اشعش نے مزید فوج کا پیغام بھیجا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے کہلا بھیجا کہ کیا ایک شخص کے لیے تین ہزار کی فوج بھی ناکافی ہے؟ تو ابن اشعش نے جواب بھجوایا کہ یہ کوئی بقال یا جولاہا نہیں بنو ہاشم کا چشم و چراغ ہے۔ بعد میں پناہ کا وعدہ دے کر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔جب حضرت مسلم ؓکو ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے انہیں سزا دی کہ کوفہ کے دار الامارۃ کی چھت سے گرا دیا جائے۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ نے شہادت سے پہلے چند وصیتیں کیں جس کے بعد ان کو چھت سے گرا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 9 ذوالحج 60ھ کا ہے۔ شہید ہونے کے بعد ان کا سر کاٹ دیا گیا اور اسے یزید کو دمشق بھجوا دیا گیا اور جسم کو کوفہ کے قصابوں کے بازار میں دار پر لٹکا دیا گیا تاکہ کوفہ کے لوگ اب بنو ہاشم کی حمایت نہ کریں۔ ان کی شہادت کے بعد ابن زیاد کے حکم سے ان کے دونوں کم سن بچوں کو جو قاضی شریح کے گھر میں چھپے ہوئے تھے، شہید کر دیا گیا۔ قاضی شریح نے کوشش کی کہ بچوں کو خفیہ طور پر مدینہ پہنچا دیا جائے مگر کامیابی نہ ہو سکی کیونکہ شہر کے تمام دروازے بند کر کے راستوں پر پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔
Similar Threads:
SUbhan ALlah
JazakAllah
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks