عبدالستار ہاشمی
بائولرزکے یکشن پر اٹھائے گئے اعتراضات نے ہماری ڈومیسٹک کر کٹ کی کمزرویوں کو واضح کر دیا ***** پہلی بار پاکستانی ٹیم مین رائونڈ میں پہنچی، ایمپائرنگ ناقص نہ ہوتی تو لاہور لائینز کی سیمی فائنل تک رسائی یقینی تھی ***** ویسٹ انڈیز کے کرس گیل نے کھیل کے آغاز میں جارحانہ انداز اختیار کرنے کے طریقہ کار کو بدل لیا تو بہت سوں کو حیرت ہوئی ،لیکن ان باؤلرزکے لیے یہ بہت بڑی اور بری خبرتھی کہ کرس نے بڑے شارٹس کو بعد میں کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ آخری لمحات میں تباہی مچا سکیں۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ویسٹ اینڈیز ایک خطرناک کھلاڑی کو قابو کرنے کا جوا کھیل رہی ہے یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو ان کے لیے اپنے ٹائٹل کے دفاع میں مددگار ثابت ہو گی یا تباہ کن۔ ایک سال بعد ان کی بیٹنگ کا فلسفہ تبدیل ہو گیا ہے۔ انھوں نے کھیل کے آغاز کے بجائے کھیل کے آخر میں دھواں دار بلے بازی کرنے کے طریق کار کو اپنانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں ان کی یہ چال نہ چل سکی ۔کرس گیل نے بھارت کے خلاف ٹیم کی شکست اور بنگلہ دیش کے خلاف میچوں میں بال کو سنگلز اورڈبلز کی مدد سے 34 اور 48 رنز بنائے۔بھارت کے خلاف میچ میں ان کے دو کیچ ڈراپ ہوئے، ان میںسے ایک کیچ اس وقت ڈراپ ہوا جب انھوں نے کوئی رن نہیں بنایا تھا۔اس مثال سے ثابت ہو ا کہ ٹیلنٹ قدرتی ہوتا ہے اسے فطری انداز میں ہی باہر آنا چاہیے لیکن جب ہم چیزوں کو غیر فطری کرنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں تو نقصان ہوتا ہے۔ کرس گیل کو آپ سبق نہیں پڑھا سکتے لیکن اس کی حوصلہ افزائی کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔یہی کچھ ہماری کرکٹ کے ساتھ ہو رہا ہے جہاں سب کے سب غیر فطری انداز اختیار کرکے فطری نتائج حاصل کرنے کے خواہاںہیں۔ فطرت یہ کہتی ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔لیکن افسوس کہ ہمارا بھیس تو مقامی بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ہم بین الا اقوامی سطح کی تیاریوں سے بہت دور ہیں۔ کر کٹ میں سری لنکا سے شکست کھانے کے بعد اب یواے ای میں آسٹریلیا نے پاکستان کو ناکوں چنے چبوائے۔انٹرنیشنل کرکٹ میں تو اب جیت مقدروں سے ہی ملے گی۔ڈومیسٹک کرکٹ میںہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ چیمپیئنز لیگ میں لاہور لائنز تین میں سے دو میچ ہار کر وطن لوٹ آئی۔جیت کا جذبہ لیکر8 ستمبر 2014 ء کو پاکستانی ڈومیسٹک ٹیم لاہور لائنز منگل کو علی الصبح لاہور سے براستہ دبئی دہلی روانہ ہو ئی تھی۔لاہور لائنز نے اپنا پہلا کوالیفائنگ میچ 13 ستمبر کوممبئی انڈینز کے خلاف اور 14 ستمبر کو نیوزی لینڈ کی ٹیم ناردرن ڈسٹرکٹس کے خلاف کھیلا۔اس کے بعد 16 ستمبر کو آخری کوالیفائنگ میچ میں وہ سری لنکا کی ٹیم سدرن ایکسپریس کے مقابل ہوئے۔ چیمپیئنز لیگ کے کوالیفائنگ مرحلے میں لاہور لائنز نے ممبئی انڈینز کو چھ وکٹوں سے شکست دے دی ۔اس کے بعدٹی ٹوئنٹی چیمپیئنز لیگ کے کوالیفائنگ مرحلے میں نیوزی لینڈ کی ٹیم نادرن نائٹس نے پاکستان کی ٹیم لاہور لائنز کو 72 رنزسے شکست دی۔یوں اس ٹورنا منٹ میں لاہور لائنز کا سفر تمام ہوا اور وہ اپنا سا منہ لے کر واپس گھروں کو لوٹ آئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چاربرس قبل لاہور لائنز کی ٹیم نے سیالکوٹ سٹالنز کو شکست دیکر ڈومیسٹک گیم کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ حالانکہ اس ٹورنامنٹ میں فیصل آباد کی ٹیم نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی تھی۔ تاہم جیت لاہور لائنز کی ہوئی تھی۔ اس وقت اس ٹیم میں عبدالرزاق، کامران اکمل اورمحمد یوسف جیسے بہترین کھلاڑی شامل تھے اور اب اگر آج کی لاہور کی ٹیم پر نظر دوڑائیں تو سب سے پہلے تو اس میں لاہوری روایات کی کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ اعزاز چیمہ اور وہاب ریاض اگرچہ اچھے فاسٹ بائولرز ہیں لیکن ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی مشکل یا اہم موقع پر ٹیم کو جتوانے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ سپنر بائولرز میں عدنان رسول کی انٹری خوش آئند ہے لیکن ان کے ایکشن پر اٹھائے گئے اعتراض نے ایک بار پھر ہماری ڈومیسٹک کر کٹ کی کمزوریوں کو واضح کر دیا۔یہاں پر ہی محمد حفیظ کے بائولنگ ایکشن پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔عدنان رسول لاہور لائنز کا حصہ تو ضرور ہیںلیکن ان کا تعلق لاہور سے نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کپتان محمد حفیظ کو بھی آپ لاہوری نہیں کہہ سکتے لیکن انہوں نے لاہوریوں کی نمائندگی خوب کی لاہوری رنگ صرف بلے بازی میںنظر آیا ، جہاں عمر اکمل ،احمد شہزاد اور عمر اکمل نے مہارت دکھائی۔ مزے کی بات ہے کہ کھیل کوئی بھی ہو کبڈی کی ٹیم ہو یا ہاکی ٹیم کانام لاہوریوں نے نام تو لائنز ہی رکھنا ہے۔یہاں کی زمین ذرخیز ہے ۔ لاہور نے بہت سے روایتی سپن بائولرز اور وکٹ کیپرز بھی پیدا کیے ۔ ان سب میں سے 1962ء میں پہلی مرتبہ لاہور کے امتیازاحمد بطور وکٹ کیپر منظر عام پر آئے اور پھراب عمر اکمل جو 2004ء میں بطور وکٹ کیپر پسند کرلئے گئے تھے۔ یہ شہر فاسٹ بائولرز کا شہر ہے خان محمد اور فضل محمود جیسے شہرہ آفاق بائولرز نے یہاں ہی جنم لیا تھا۔ 70ء اور80ء کی دہائی میں سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم جیسے بائولرز بھی یہاں ہی پروان چڑھے ۔ عبدالقادر کا ٹرمپ کارڈ لاہور کے کھاتے میں ہی لکھا جاتا ہے۔ کپتانوں میں کاردار، عمران خان اور وسیم اکرم کا تعلق اسی شہر سے ہے ۔ لاہوری کھلاڑیوں کے لیے لائنز، ٹائیگرز اور یہاں تک کہ چیتا سب کے سب تعریفی کلمات کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور لاہوری ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ اگر بائولرز، وکٹ کیپرز اور کپتانوں کا ذکر ہوا ہے تو پھر بلے بازوں کو کیوں نظرانداز کیا جائے۔ لاہور سے ماجد خان جیسا پروقار بیٹسمین اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے علاوہ مرحوم وسیم حسن راجہ بھی لاہور سے ہی اپنی منفردترنگ کے بے مثال بلے باز تھے۔ مدثر نذر کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہوگی۔ ٹیسٹ کرکٹ کو جس باریک بینی سے وہ سمجھتے تھے کم ہی کرکٹرز کو یہ سمجھ بوجھ عطا ہوئی ہوگی۔90ء کی دہائی میں لاہور نے محمد یوسف اور سلیم ملک جیسا ہیرا دیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ وہ کھلاڑی جو لاہور میں پیدا نہیں ہوا لاہوری نہیں ہوسکتا۔ وہ بھلے کہیں بھی پیدا ہوا ہو لیکن پلا بڑا تو لاہور میں ہی ہوگا۔ اس میں لاہور رنگ نمایاں ہی ہوگا۔ اب شاہد آفریدی پیدا تو خیبرایجنسی میں ہوئے لیکن ان کی پرورش کراچی میں ہوئی تو انہیں تمام فائدے کراچی کا ہی کھلاڑی سمجھ کر دئیے جاتے ہیں۔ اس موازنہ کے بعد اس بات کو یوںسمٹتے ہیں کہ کھلاڑی ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں جب قومی ٹیم میں ہوگا تو وہ پاکستانی ہوگا۔ اس کا فخر اس کا ملک ہوگا۔اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ محمد حفیظ لاہوری فخر کو برقرار کیوں نہ رکھ سکے؟اس مرتبہ پہلی بار پاکستانی ٹیم مین رائونڈ میں پہنچی۔اگر ایمپائرنگ ناقص نہ ہوتی تو لاہور لائنزنے سیمی فائنل تک تو جانا ہی تھا۔لاہور لائنز میں ویسے تو پاکستان کے قومی کرکٹرز شامل تھے جن میں کپتان محمد حفیظ سے لیکر احمد شہزاد، عمر اکمل، ناصر جمشید ،وہاب ریاض اور اعزاز چیمہ جیسے کھلاڑی شامل ہیں لیکن باقی کھلاڑی نئے تھے اور ان کا بین الاقوامی کرکٹ کا کوئی خاص تجربہ بھی نہ تھا۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے سعد نسیم اس سے قبل کوئی بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے تجربے سے محروم تھے جبکہ مقابل ٹیموں کا معیار بین الاقوامی ٹیموں کا ہم پلہ تھا۔ چیمپئن لیگ جیتنے والی ٹیم پرتھ سکارچرز میں مچل مارشل کے ساتھ دیگر آسٹریلوی پیشہ ور کھلاڑی تھے اوران کا کوچ بھی پیشہ ور ہی تھا۔ ادھر بھارت کی آئی پی ایل کھیلنے والی ٹیموںکا مقابلہ کیونکر کیا جا سکتا ہے۔ چنائی اور دیگر ٹیموں کی معاونت کیلئے کئی انٹرنیشنل شہرت کی حامل کے کھلاڑی موجود تھے۔ وہاں ہر ٹیم میں چار سے چھ تو سپرسٹار کھلاڑی ہیں۔ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کا کمزور ڈھانچہ کھل کر سامنے آیا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارے یہاںریجنل ٹیموں کا کوئی کوچ ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتاہے تو وہ مقامی کلب کی سطح کا ہے جو بین الاقوامی مقابلوں کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ لاہور لائنز کی ناکامی پر کرکٹ بورڈ کو ایک بار سوچنا تو چاہیے کہ اگلے برس اگر پشاور پینتھر اس ٹورنامنٹ میں شرکت کیلئے جاتی ہے تو کیا اسے بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا ۔ پشاور پینتھر تو خالص مقامی کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم ہے جس کی گرومنگ کی ضرورت ہے اور یہ گرومنگ تب ہی ممکن ہوسکتی ہے اگر اس کی سرپرستی سرکاری سطح پر ہو اور انہیں سب سے پہلے کوئی پروفیشنل کوچ دے دیا جائے اس کے بعد انہیں اے ٹیم کی صورت میں بین الاقوامی دورے کروانے چاہیے تاکہ دبائو میں کھیلنے کا تجربہ حاصل کرسکیں۔لاہور لائنز کوجس دوسری کمزوری کا سامنا کرنا پڑا وہ تھی کمزور فیلڈنگ۔ یہ وہ شعبہ ہے جس کے کمزور ہونے کا مطلب ہے کہ بلے بازوں اور بائولرز کی ساری کی ساری محنت صفر ہو جاتی ہے اگر آپ میں کیچ کرنے اور مخالف ٹیم کے رنز روکنے کی اہلیت نہیں ہے تو شکست یقینی ہے۔سادہ لفظوں میں کمزور فیلڈنگ آپ کی یقینی فتح کو شکست میں بدل سکتی ہے۔ ٭٭٭
Similar Threads:
Thanks for gread sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks