ثاقب ملک
مصباح اپنا گروپ بنانے میں پیچھے کیوں… یا پھر انہوں نے اپنی ٹیم میں نااہلوں کو جگہ دی ہے ***** طلحہ،عمران اورراحت علی کے پاس نادر موقع ہے کہ وہ بہتر کارکردگی سے اپنی جگہ مستقل کر لیں ***** ٹھک سے فون بند ہوا ۔ڈینس ایمس کے کانوں میں ابھی تک جیفری بائیکاٹ کی والدہ کے جملے گھوم رہے تھے ۔وہ کھسیانا بھی تھا ،حیران بھی ،کچھ مزاحیہ بھی محسوس کررہا تھا ۔خیر ٹیسٹ میچ کے دوران نیو زی لینڈ کے کمزور بولنگ اٹیک کے خلاف ایمس نے بائیکاٹ کو رن آوٹ کرا دیا ۔بائیکاٹ شدید غصے میں تھا ۔مزید جلتی پر تیل ڈینس ایمس کی سینچری نے ڈالا ۔بائیکاٹ تو آگ بگولہ ہو چکا تھا ۔اسکے خیال میں یہ اسکے رنز تھے جو یہ نا ہنجار ایمس بنا رہا تھا ۔ڈینس ایمس نے اس غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے بائیکاٹ کے گھر فون کیا تو اسکی والدہ نے اٹھایا ۔ایمس نے بائیکاٹ کا پوچھا تو انہوں نے کہا میں ابھی بلاتی ہوں ،جونہی ایمس نے اپنا نام بتایا وہ فورا بولیں وہ گھر پر ہی نہیں ہے۔بعد میں بائیکاٹ اور ڈینس ایمس کے تعلقات میں مزید بگاڑ آیا جب ایمس کو انگلش ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا جو کہ بائیکاٹ کے خیال میں اب اسکا حق تھا ۔یوں بائیکاٹ نے کرکٹ سے تین سال کی دوری لی کیونکہ اس نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ ایمس کی کپتانی میں نہیں کھیلے گا ۔اب بائیکاٹ اپنے اس فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتا ہے ۔اسکے خیال میں اس نے اپنے پرائم میں تین سال کرکٹ چھوڑ کر اپنا نقصان کیا ۔خیر بائیکاٹ تین سال بعد شان سے واپس آیا اور آتے ہی سینچری جڑی ۔یہ کہانی تھوڑی بہت محمد یوسف سے ملتی ہے جنہوں نے کپتانی کے چکر میں اپنا شاندار ٹیسٹ کیریئر تقریباً تباہ ہی کر دیا ۔وہ با آسانی تیس سے پینتیس ٹیسٹ سینچریاں سکور کر سکتے تھے ۔ابھی آفریدی بھی کپتانی کے چکر میں اپنی حدود کو کراس کر چکے ہیں ۔ایک تو یہ خبریں بھی عام ہیں کہ کپتانی حاصل کرنے کے لئے وہ سیاسی پریشر کا بھی استعمال کر رہے ہیں دوسرا میڈیا میں اپنے 'پالے ' ہوے دوستوں کی بھی مدد لیتے ہیں ۔آفریدی نے آخری میچ میں آسٹریلیا کے خلاف شکست پر پریس کانفرنس میں بلا وجہ ہی اپنے آپ کو مصباح کے بعد واحد امیدوار سمجھ کر بورڈ کو مشورہ دے مارا کہ وہ جلد از جلد کپتان کے بارے میں فیصلہ کرے ۔حالانکہ مصباح اچھے ہیں یا برے ٹیم کے کپتان ہیں اور اگر انہوں نے ایک میچ سے دستبرداری اختیار کر لی تو اچک کر انکی کرسی کے لئے زور آزمائی کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔حیرت ہے آفریدی پر کوئی جرمانہ بھی نہ ہوا ۔دوسری جانب شہریار خان نے خود آفریدی کے جذبہ کپتانی کو آواز دی جب انہوں نے کپتانی کا فیصلہ مصباح پر چھوڑ دیا جیسا بیان دیا ۔ ۔یہ آفریدی نے لوز بال سمجھ کر کھیلنا چاہی مگر شہریار نے عمدہ ریٹرن کیچ پکڑ کر فی الحال معاملہ ٹھنڈا کر دیا ہے ۔ آفریدی کو بائیکاٹ ،یوسف سمیت دیگر کئی ایسے سابق،اپنے تئیں صرف کپتانی کے لئے ہی پیدا ہونے والے کرکٹرز کی داستانوں کو سن لیں تو شاید انکی عقل ٹھکانے میں آ جائے ۔اگر کپتانی انہیں ملنا ہو گی تو مل جائے گی ،اسکے لئے مختلف دروازے استعمال کرنا ،ٹیم اتحاد کے لئے تو تباہ کن ہے ہی یہ ایک غلط ٹرینڈ کی پرورش بھی کر رہا ہے ۔اب جس کھلاڑی کے دو چار فین ہوں گے وہ کسی نہ کسی بڑے سیاسی لیڈر کے کندھوں پر سوار ہو کر سرکاری فوائد بھی اٹھائے گا اور میڈیا کے توسط سے پریشر بھی بلڈ کرے گا ۔دوسری طرف مصباح جس طرح کپتانی میں اکثر و بیشتر اوقات اللہ میاں کی گائے کی طرح بے دست و پا نظر آتے ہیں ،میڈیا اور سیاست کے میدان میں بھی وہ سادہ ہی ہیں ۔کپتانی کا فیصلہ ان پر ہی چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہے ۔لیکن پاکستان کی تاریخ میں کسی نے بھی ہنسی خوشی کپتانی نہیں چھوڑی ۔یوں لگتا ہے مصباح کا ٹیم منیجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی کے سربراہ معین خان سے کوئی خاص ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہے ۔وقار یونس کی اپنی تاریخ بھی اس حوالے سے کوئی تابناک نہیں ہے ۔جب بھی وہ کوچ کا عہدہ سنبھالتے ہیں ٹیم میں کچھ نہ کچھ فساد کی خبریں ضرور گردش کرنے لگ جاتی ہیں ۔ پاک آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز میں آسٹریلیا کا پلہ بھاری تو ہے مگر ،کلارک اگر مکمل فٹ نہیں ہوتے اور جانسن بھی ان سلو پچز پر کامیاب نہیں ہو پاتے تو ریان ہیرس کی غیر موجودگی میں آسٹریلیا کے لئے یہ ٹیسٹ سیریز بچانا آسان نہ ہو گی ۔دوسری جانب پاکستان کی ٹیم دیکھ کر اور حالات دیکھ کر کوئی ذی شعور بھی پاکستان کی ٹیسٹ سیریز میں فتح کا دعوی نہیں کر سکتا لیکن بارہا دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی مشکل حالات میں جب آف فیلڈ معاملات پر زیادہ توجہ ہو تی ہے زیادہ عمدہ کھیل پیش کر جاتے ہیں ۔یہ بھی ایک طرح کی ذہنی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ایک ذہنی کمزوری کی نشانی ہے کہ اکثر کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ اب سب پریشر اورسب توجہ کسی بیرونی مسئلے پر ہے تو وہ زیادہ فری ہو کر کھیلتے ہیں ۔ ذہنی مضبوطی اس لئے کہ دوسری ٹیمیں ایسے حالات میں گھبرا جاتی ہیں مگر ہمارے ہاں تو ہر وقت ہی کوئی نہ کوئی مسلہ در پیش ہوتا ہے اس لئے کھلاڑی زیادہ پریشر نہیں لیتے ۔ممکن ہے اس بار بھی ایسا ہو جائے ۔وگرنہ اگر آسٹریلیا اپنے مکمل پوٹینشل کے مطابق کھیلی تو ان سے میچ جیتنا بے حد مشکل ہو گا ۔اگر پاکستان مینجمنٹ 'ڈسٹی ' یعنی گرد و غبار والی انتہائی سپین فرینڈلی پچز بنا دیتی ہے تو میچز میں پاکستان کا چانس بڑھ جائے گا ۔دوسری صورت میں آسٹریلیا کی بیٹنگ اور بولنگ پاکستان سے مضبوط ہے ۔ بیٹنگ میں وارنر ،کلارک اور سٹیو سمتھ پاکستان کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہوں گے ۔بولنگ میں جانسن آسٹریلیا کا سب سے اہم ہتھیار ہوں گے ۔انکی مدد کے لئے سڈل ،لائن اور شاید او کیف کو چانس ملے ۔پاکستان کی بیٹنگ کا دارومدار کپتان مصباح ،بغیر کوئی ڈومیسٹک میں پرفارمنس دئے اور اپنی فٹنس ثابت کئے حفیظ ،اور بہت ٹیلنٹڈ مگر غیر ضروری ہیرو پن اور نقالی کے مرض میں مبتلا احمد شہزاد پر ہو گا ۔ ساتھ ساتھ اظہر علی اور اسد شفیق کو زیادہ ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی ۔لیکن سب کی نظریں یونس خان پر مرکوز ہوں گئی ۔اگر تو یونس نے عمدہ پرفارم کر دیا تو سلیکٹرز پر بیحد پریشر پڑ جائے گا کہ وہ یونس کو ایک روزہ ٹیم میں بھی منتخب کریں ۔اب آخر حفیظ کی میچ فٹنس کا کیسے اندازہ لگایا گیا ہے ؟؟لگتا ہے مصباح نے اس معاملے میں ذاتی کوشش سے حفیظ کو جلدی جلدی ڈلوایا ہے ۔یونس خان کو بھی شاید یہی گلہ ہے کہ مصباح اپنی بات نبھا نہیں سکے اور یونس کو ٹیم سے باہر کی راہ دیکھنی پڑی اور مصباح کچھ نہ کر سکے ۔بہر حال بلے بازی کے لئے ساز گار پپچز پر حفیظ کے پاس چانس ہے کہ وہ اپنی جگہ ٹیسٹ ٹیم میں بھی پکی کر لیں ۔ون ڈے ٹیم میں تو وہ تھری ان ون ہیں ۔انکی غیر موجودگی میں ٹیم تناسب متاثر ہو جاتا ہے ۔بولنگ میں اجمل کی غیر موجودگی میں ذولفقار بابر ،رحمان یا نوجوان یاسر شاہ کو ہی کچھ کرنا پڑے گا ۔پاکستانی بولنگ کمزور لگ رہی ہے ۔طلحہ،عمران،راحت علی وغیرہ کے پاس نادر موقع ہے کہ وہ اپنی جگہ مستقل کر لیں ۔۔۔
Similar Threads:
Thanks for gread sharing
اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
پڑھنے میں سیکنڈ
سوچنے میں منٹ
سمجھنے میں دِن
مگر
ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks