نہ پوچھو دل کہاں پہنچا کسی کو کیا کہیں پہنچا
جہاں پہنچا نہ کوئی یہ وہیں پہنچا وہیں پہنچا
کہاں پہنچا ہے دیکھو ہمدموپیک خیال اپنا
کہ اب تک اس جگہ کوئی فرشتہ بھی نہیں پہنچا
زمیں لرزی ترپنے سے ترے بسمل کے یہ قاتل
کہ آخر اس کا اک صدمہ سر گاوز میں پہنچا
نہ پہنچا تو نہ پہنچا طالب دیدار تک اپنے
تری تکتے ہی تکتے راہ وقت واپسیں پہنچا
چھپا خورشید تاباں شرم سے زیر زمیں جا کر
مری جو آہ کا شعلہ سر چرخ بریں پہنچا
مجھے ڈر ہے نہ پہنچے پہچیوں کے بوجھ سے صدمہ
کہ نازک ہے نہایت ہی ترا اے نازنیں پہنچا
ظفر دامان مژگاں سے ٹپکا چاہے تھا آنسو
اگر پہنچا سکے آنکھوں تلک تو آستیں پہنچا
Similar Threads:
Bookmarks