ہاں فرو سوز دل اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا
اور گریہ سے بڑھا کم نہ ہوا پر نہ ہوا
سن کر احوال جگر سوز غریب عشق کا
ہائے افسوس تجھے غم نہ ہوا پر نہ ہوا
کشتہ از کے افسوس جنازے پہ ذرا
چشم پر آب تو اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا
چارہ گر کی نہیں تقصیر بہت کی تدبیر
کارگر زخم پہ مرہم نہ ہوا پر نہ ہوا
سن کے نالوں کو مرے ہو گئے پتھر پانی
سر مژگاں کبھی ترا نم نہ ہوا پر نہ ہوا
ہے مثل آ گیا دم ناک میں اپنا لیکن
یار اپنا کبھی ہمدم نہ ہوا پر نہ ہوا
میری جانب سے پڑی سخت گرہ دل میں ترے
سست پیماں ترا محکم نہ ہوا پر نہ ہوا
ہوں وہ آزاد کہ جوں سرو کسی کی خاطر
قد تعظیم مرا خم نہ ہوا پر نہ ہوا
رات ہمسایوں نے اٹھ اٹھ کے دعائیں مانگیں
سوز نالہ مرا مدھم نہ ہوا پر نہ ہوا
جہد کی صنع قدرت نے دلے تیرا سا
کسی مخلوق پہ عالم نہ ہوا پر نہ ہوا
اے ظفر دیکھئے عقبے میں ہو کیا حال اپنا
چین دنیا میں تو اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا
Similar Threads:
Bookmarks