SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 3 of 3

    Thread: وہ دن جس نے میری زندگی بدل دی

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      وہ دن جس نے میری زندگی بدل دی






      میگزین رپورٹ
      9اکتوبر2012 ء کے دن سورج حسب معمول طلوع ہوا۔ میرے امتحان جاری تھے۔گو کتابی کیڑا ہونے کے ناتے مجھے خاص پریشانی نہ تھی،مگر میری کچھ سہیلیوں کی نیندیں اُڑی ہوئی تھیں۔اس روز بھی چمکیلے رنگوں والے رکشائوں کا جلوس دھوئیں کے مرغولے چھوڑتا حاجی بابا روڈ پہنچا۔یہ خاک آلود چھوٹی سی سڑک ہے۔ہر رکشے میں پانچ چھ لڑکیاں ٹھنسی ہوئی تھیں۔ہماری منزل سکول تھا، جس کا بورڈ شدت پسندوں کے نمودار ہوتے ہی ہٹا دیا گیا تھا۔سفید دیوار میں لگا پیتل کا منقش دروازہ قطعاً یہ نہ دکھاتا کہ اس کے پار کیسی دنیا آباد ہے۔ لیکن لڑکیوں کے لیے وہ دروازہ جادوئی گذرگاہ تھا جس سے گذر کر ہم اپنی نرالی دنیا میں داخل ہو جاتیں۔ہم جیسے اندر پہنچیں،سر سے چادریں اتارکر گپ شپ لگاتیں،چہکتیں اپنی جماعتوں کی سمت چل پڑیں۔ہماراسکول بلندی پہ واقع تھا۔سیڑھیاں ختم ہوتے ہی کھلا صحن آ جاتا۔تمام جماعتوں کے دروازے وہیں کھلتے۔ہم نے بستے کلاسوںمیں چھوڑے اور دعا پڑھنے صحن میں آ گئیں۔اوپر نیلا آسمان تھا اور پشت پہ بلند وبالاپہاڑ! اس سکول کی نیو میری پیدائش سے قبل میرے والد نے رکھی تھی۔اندر ایک بڑی سی دیوار پر سرخ و سفید رنگ سے سے لکھا خوشحال اسکولاس کانام آشکارا کرتا۔تب میںنویں جماعت میں زیرتعلیم تھی۔ہم کبھی کیمیائی مساواتیں پڑھتیں یا اردو گرائمر کی گردان کرتیں۔ میری بیشتر ہم جولیاں ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں۔ہمارے وہم وگمان میں نہ تھا کہ یہ اسکول کسی کو خطرہدکھائی دیتا ہے۔مگر باہر مینگورہ کاشوروغل ہی واقع نہ تھا بکہ وہ شدت پسند بھی بستے تھے جن کا خیال ہے ، لڑکیوں کو اسکول نہیں جانا چاہیے۔ امتحانات کی وجہ سے اسکول آٹھ کے بجائے نو بجے لگ رہا تھا۔یہ اچھی بات تھی کیونکہ مجھے صبح سویرے اٹھنا پسند نہیں۔میری نیند اتنی گہری ہے کہ مرغوں کی ککڑوں کوں اور کوئووں کی کائیں کائیں بھی مجھے اٹھا نہیں پاتی۔ میرا کمرا گھر کے اگلے حصّے میںواقع تھا۔ایک بستر اور ایک الماری اس کی کُل کائنات تھی۔یہ فرنیچر میں نے انعام کی رقم سے خریدا۔وادی میں امن و تعلیم نسواں کی مہم چلانے پہ مجھے یہ نقد انعام ملا۔الماری میں طلائی کپ اور ٹرافیاں استادہ نظر آتیں۔یہ جماعتوں میں اول آنے پر مجھے ملی تھیں۔گو میں چند بار اول نہ آ سکی۔اور ہر بار میری ہم جماعت،ملکہ نور بازی لے گئی۔مگر اب میں نے اول آنے کا مصمّم ارادہ کر رکھا تھا۔ اسکول گھر کے قریب ہی تھا،میں پیدل چلتی وہاں پہنچ جاتی۔لیکن آغاز ِسال سے میں صبح رکشے میں جانے اور بس میں آنے لگی۔پانچ چھ منٹ کاسفر بدبودار چشمے کے کنارے طے ہوتا۔دوران راہ ایک ہیر ٹرانسپلانٹ سینٹر بھی آتا۔ایک بار ہم لڑکیوں نے اس بات سے خوب لطف اٹھایا کہ اسکول کے ایک گنجے استاد ضرور یہاں آنے لگے ہیں ،تبھی اچانک ان کی چندیا پہ بال نمودار ہو گئے۔ مجھے بس میں سفر کرتے مزہ آتا کہ پیدل چلتے ہوئے پسینے میں شرابور ہو جاتی تھی۔پھر مجھے سہیلیوں سے گپیں لڑانے کاسنہراموقع ملتا۔ہم بس ڈرائیور،عثمان علی کی احمقانہ باتوں پر بھی خوب ہنستیں جسے ہم بھائی جان کہتی تھیں۔ بس اس لیے لگوائی گئی کہ والدہ نہیں چاہتی تھیں،میں پیدل گھر آئوں۔انھیں میری سلامتی کی فکر تھی۔دراصل گذشتہ کئی ماہ سے ہمیں دھمکیاں مل رہی تھیں۔مجھے یہ خوف تھا کہ شدت پسند والد کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔وہ ان کے خلاف بولتے تھے۔ماہ اگست میں ان کے ساتھی،زاہد خان مسجد جا رہے تھے کہ انھیں چہرے پر گولی مار دی گئی۔ ہماری گلی میںگاڑی نہیں آ سکتی تھی۔چناں چہ میں بس سے سڑک پہ اترتی،گلی میں نصب فولادی دروازے سے گذرتی،سیڑھیاں چڑھتی اور گھر پہنچ جاتی۔کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ سیڑھیوں میں چھپا کوئی مسلح شخص مجھے گولی مار سکتا ہے۔ تب میں سوچتی،اس وقت کیا کروں گی؟کیا اپنی جوتی اتار دے ماروں گی؟لیکن پھر خیال آتا،اگر میں نے بھی تشدد کو اپنا لیا ،تو میرے اور شدت پسندوں کے مابین کیافرق نہ رہا؟لہذا ایسی صورت حال میں اس سے فریاد کروں گی:ٹھیک ہے بھائی،مجھے گولی مار دو۔لیکن پہلے میری بات تو سن لو۔تم جو کچھ کر رہے ہو،وہ غلط ہے۔میں تمھاری دشمن تو نہیں،میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہر لڑکی کو اسکول جانے کا حق ملنا چاہیے۔ میں خوفزدہ نہیں تھی،لیکن روزانہ رات کو یہ ضرور دیکھ آتی کہ گلی کا فولادی دروازہ اچھی طرح بند ہے نا!سوتے وقت اکثر اللہ تعالی سے دریافت کرتی کہ مرتے سمّے انسان کے کیسے محسوسات ہوتے ہیں؟ میں اپنے دل کی باتیں اپنی ہم راز سہیلی،منیبہ سے کرتی۔ہم ایک ہی گلی میں رہتی تھیں۔ساتھ پلی بڑھیں اور تعلیم پائی۔ہم انگریزی گانوں سے لے کر رنگ گورا کرنے والی کریموں تک دنیا جہاں کی باتیں کرتیں۔کوئی آفت آنی ہوتی تو منیبہ عموماً پہلے ہی اس کے متعلق جان جاتی۔وہ مجھے تسلی دیتی:ارے مت گھبرائو!،شدت پسند ایک چھوٹی سی لڑکی کے پیچھے نہیں آئیں گے۔ ٭٭٭٭ جب ہماری بس آئی تو ہم سب لڑکیاں سیڑھیاں اترتیں نیچے آ پہنچیں۔وہ بس دراصل سفید ٹیوٹا کی بڑی پک اپ تھی۔اس کے پچھواڑے تین بنچیں نصب تھیں۔ان پہ پچیس چھبیس لڑکیاں اور تین استانیاں سمٹ سمٹا کر بیٹھ جاتیں۔اس دن میں منیبہ اور اپنی دوسری سہیلی،شازیہ رمضان کے درمیان بیٹھی۔سبھی طالبات کے ہاتھوں میں امتحانی گتّے تھے۔ بس کے اندر خاصا حبس تھا۔پسینے کے باعث کپڑے چپک رہے تھے۔اس کی پشت پر،کھلے حصّے میں ایک دبیز پلاسٹک لٹک رہا تھا تاکہ پردہ ہو سکے۔اس کے آرپار بمشکل نظر آتا۔ہمارا تصّور ہی بتاتا کہ باہر سورج پوری آب وتاب سے چمک ریا ہے ۔ اچانک بس رک گئی۔ڈاڑھی والا ایک نوجوان سامنے آ گیا تھا۔اس نے ڈرائیورسے پوچھا:یہ خوشحال اسکول کی بس ہے؟بھائی جان کو یہ سوال احمقانہ لگا کیونکہ اسکول کا نام بس پہ درج تھا۔انھوں نے جواب دیاہاں۔ نوجوان بولامجھے کچھ بچوں کی معلومات درکار ہیں۔ بھائی جان نے کہاآپ اسکول کے دفتر سے رجوع کیجیے۔ یہ بات چیت جاری تھی کہ ایک اورنوجوان بس کی پشت پہ آ پہنچا۔اس کا سایہ دیکھ کر منیبہ چہکی:لو،ایک اور صحافی ملالہ کاانٹرویو کرنے آ گیا۔دراصل کچھ عرصے سے صحافی ہمارے گھر آ جا رہے تھے۔مگر سڑک پہ اس اندازمیں کبھی کسی صحافی سے ٹاکرانہیں ہوا تھا۔ وہ نوجوان فوجیوں کی ٹوپی(Peaked cap)پہنے ہوا تھا۔منہ اور ناک رومال سے چھپا رکھی تھی۔وہ بس کے پائیدان پہ چڑھا،منہ اندر کیا اور پوچھا:ملالہ کون ہے؟ سبھی لڑکیاں خاموش رہیں،مگر تقریباً سب بے ساختہ مجھے دیکھنے لگیں۔میں بس میں واحد لڑکی تھی جس کا چہرہ کھلا تھا۔ اسی وقت نوجوان نے سیاہ پستول بلند کر لیا۔ہتھیار دیکھتے ہی کچھ لڑکیاں چیخنے لگیں۔منیبہ نے بعد ازاں بتایا کہ تب میں نے بڑی سختی سے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ مجھے سہیلیوں سے معلوم ہوا کہ اس نے تین فائر کیے۔پہلی گولی میری آنکھ کے ڈھیلے میں لگی اور دماغ کو متاثر کیا۔میں فوراً منیبہ پرڈھے گئی۔میرے بائیں کان سے شرا شر خون نکل رہا تھا۔ڈھے جانے کی وجہ سے بقیہ دونوں گولیاں میرے قریب بیٹھی لڑکیوں کو لگیں۔دوسری گولی نے شازیہ کے بائیں ہاتھ کو تاکا۔تیسری گولی شازیہ کا بائیں کاندھا چیرتی کائنات کے دائیں بازو میں جا گھسی۔ کئی دن بعد جب میں صحت یاب ہوئی،توسہیلیوں سے پتا چلا کہ جب حملہ آور نے گولیاں چلائیں تو اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ ٭٭٭٭




      Similar Threads:

    2. #2
      Respectable www.urdutehzeb.com/public_html KhUsHi's Avatar
      Join Date
      Sep 2014
      Posts
      6,467
      Threads
      1838
      Thanks
      273
      Thanked 587 Times in 428 Posts
      Mentioned
      233 Post(s)
      Tagged
      4861 Thread(s)
      Rep Power
      198

      Re: وہ دن جس نے میری زندگی بدل دی

      pflagpflag






      اعتماد " ایک چھوٹا سا لفظ ھے ، جسے
      پڑھنے میں سیکنڈ
      سوچنے میں منٹ
      سمجھنے میں دِن
      مگر

      ثابت کرنے میں زندگی لگتی ھے





    3. #3
      Moderator www.urdutehzeb.com/public_htmlClick image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982
      BDunc's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Posts
      8,431
      Threads
      678
      Thanks
      300
      Thanked 249 Times in 213 Posts
      Mentioned
      694 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      119

      Re: وہ دن جس نے میری زندگی بدل دی

      Hmm


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •