راستے کی تھکن
آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے
کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھایل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے
Similar Threads:
KHoob
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks