ﺳﻨﻮ ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﺳﻔﺎﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﻓﺮﻗﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﮐﯿﺴﺎ
ﺗﮍﭘﺘﯽ ﺁﻧﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﺎ
ﺷﻌﻠﮧ ﺑﮭﮍﮐﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮐﮯ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﻮ
ﺗﻤﺪﻥ ﮐﯽ ﺳﺒﮭﯽ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﻮﮞ ﮐﻮ
ﺟﻼ ﮐﺮ ﺭﺍﮐﮫ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻧﻈﺮ ﺑﮭﻮﮐﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ
ﭼﻮﺩﮬﻮﯾﮟ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ
ﺑﮭﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺳﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﺩﯼ ﮐﺎ ﻓﻠﺴﻔﮧ..
ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺩﻟﯿﻠﯿﮟ ﺳﺐ ﺷﺮﺍﻓﺖ ﮐﯽ
ﻣﺤﺾ ﺑﮑﻮﺍﺱ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ
ﺑﮍﺍ ﺳﭻ ﮨﮯﮐﮧ ﯾﮧ
ﺟﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ..
ﺑﮍﯼ ﺑﺪﺫﺍﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
Last edited by ayesha; 10-15-2014 at 08:49 AM.
ﺟﻮ ﮐﮭﻮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﺎ ﺗﻮ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ...
ﺟﻮ ﺟﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﻻﺋﮯ....
ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺎرﯾﮕﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ..!!
ﺁﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﺳﮯ
ﻟﻔﻆ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺍﻭﺭﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ..!!
ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺎ ﮨﻨﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ..!!
ﻏﻢ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺍﻭﺭ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﮭﯿﺘﯿﺎﮞ ﺍُﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ..
ﮐﯿﺴﮯ ﭼﺎﺭﮦ ﮔﺮ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ...!!
ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ
ﮐﺸﺘﯿﺎﮞ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮈﻭﺏ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑُﺠﮭﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﮮ ﯾﮧ ﮐﻮﺷﺶ ﺑﮩﺖ ﮨَﻮﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣﮕﺮ، ﭼﺮﺍﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﻣِﺮﯼ ﺷِﮑﺴﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﮯ ﻣُﻀﻤَﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﭘُﻮﭼﮫ
ﻋﺪُﻭ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻝ ﺁﺷﻨﺎ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩُﮬﻮﺍﮞ ﺩﮬﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﻣﺎﺣﻮﻝ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺳﺎﻧﺲ ﮨﯽ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺍِﺑﺘﺪﺍ ﮐﯽ تهی
ہر موج کے دامن میں بیدار جو دریا ہے
اک ریت کے ذرے میں آباد جو صحرا ہے
کیا اُس کی وضاحت ہے کیا اس کا تقاضا ہے
جو سامنے آتا ہے منظر ہے کہ پردہ ہے
بے انت سوالوں کی زنجیر ہے یہ دنیا
اُس عکس کے سایوں کی تصویر ہے یہ دنیا
جس عکس کے جلوے کو ہر آنکھ ترستی ہے
ہے ایک گھٹا ایسی ، کُھلتی نہ برستی ہے
...
کیوں رنگ نہیں رُکتے ، کیوں بات نہیں چلتی
کیوں چاند نہیں بھُجتا کیوں رات نہیں جلتی
موسم کی صدا سن کر کیوں شاخ لرزتی ہے
کیوں اوس کف ِ گُل پر پل بھر کو ٹھہرتی ہے
کیوں خواب بھٹکتے ہیں کیوں آس بکھرتی ہے
اس ایک تسلسل سے کیوں وقت نہیں تھکتا
بس ایک تحیر میں کیوں عمر گزرتی ہے
ترکِ محبت کر بیٹھے ہم، ضبط محبت اور بھی ہے
ایک قیامت بیت چکی ہے، ایک قیامت اور بھی ہے
ہم نے اُسی کے درد سے اپنے سانس کا رشتہ جوڑ لیا
ورنہ شہر میں زندہ رہنے کی اِک صورت اور بھی ہے
ڈوبتا سوُرج دیکھ کے خوش ہو رہنا کس کو راس آیا
دن کا دکھ سہہ جانے والو، رات کی وحشت اور بھی ہے
صرف رتوں کے ساتھ بدلتے رہنے پر موقوف نہیں...
اُس میں بچوں جیسی ضِد کرنے کی عادت اور بھی ہے
صدیوں بعد اُسے پھر دیکھا، دل نے پھر محسوس کیا
اور بھی گہری چوٹ لگی ہے، درد میں شدّت اور بھی ہے
میری بھیگتی پلکوں پر جب اُس نے دونوں ہاتھ رکھے
پھر یہ بھید کھُلا اِن اشکوں کی کچھ قیمت اور بھی ہے
اُس کو گنوا کر محسنؔ اُس کے درد کا قرض چکانا ہے
ایک اذّیت ماند پڑی ہے ایک اذّیت اور بھی ہے
کسی کے دکه پر ملال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا..
وفاوں کو لازوال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
جو فاصلے تهے انہیں مٹانا اگرچہ دونوں ہی چاہتے تهے..
مگر تعلق بحال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
کسی بهی دکه پر صدائیں سن کر نہ وہ ہی رویا نہ میں ہی تڑپا..
کہ روح کو مالامال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا...
دعا کے روشن چراغ اپنی ہتهیلی پہ جلائے ہم نے....
خدا سے لیکن سوال کرنا نہ اس کو آیا نہ مجه کو آیا....
وہی تو فیصلہ کرتا ہے پتهر کے مقدر کا....
کسے ٹهوکر میں رکهنا ہے...کسے اسود بنانا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks