ملے ہیں بعد مدت کے، بلا کے سرد ہیں لہجے
کہ جلنا بھی نہیں ممکن، پگھلنا بھی نہیں ممکن
تعلق ٹوٹ جانے سے، امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں
دلوں میں حسرتیں لے کر، بہلنا بھی نہیں ممکن
بہت ناکامیاں لے کر، ہوئے ہیں خاک کے قیدی
چلو اب آج سے گھر سے، نکلنا بھی نہیں ممکن
اسے اتنا نہ سوچا کر، تیری عادت نہ بن جائے
پھر ایسی عادتیں"محسن" بدلنا بھی نہیں ممکن
Last edited by ayesha; 10-11-2014 at 08:11 AM.
کوہساروں کے دل پگلے تو دریا ھوئے جاری
اور لوگ یہ کہتے ھیں کہ پتھر نہیں روتے
خوشبو کی پوشاک پہن کر
کون گلی میں آیا ہے
کیسا یہ پیغام رساں ہے
کیا کیا خبریں لایا ہے
کھڑکی کھول کر باہر دیکھو
موسم میرے دل کی باتیں
تم سے کرنے آیا ہے....!!
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ...
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے
یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں
کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے
جو دیکھو تو ہر اک جانب سمندر
مگر پینے کو اک قطرہ نہیں ہے
خدا کی ہے یہی پہچان شاید
کہ کوئی اور اس جیسا نہیں ہے
حد سے توقعات زیادہ کیے ہُوئے
بیٹھے ہیں دل میں ایک ارادہ کیے ہُوئے
اس دشت بے وفائی میں جائیں کہاں کہ ہم
ہیں اپنے آپ سے کوئی وعدہ کیے ہُوئے
دیکھو تو کتنے چین سے کس درجہ مطمئن!
بیٹھے ہیں ارض پاک کو آدھا کیے ہوئے
پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے ...
اک دشت انتظار کو جادہ کیے ہوئے
آنکھوں میں لے کے جلتے ہوئے موسموں کی راکھ!
گرد سفر کو تن کا لبادہ کیے ہوئے
دیکھو تو کون لوگ ہیں!آئے کہاں سے ہیں !
اور اب ہیں کس سفر کا ارادہ کیے ہوئے
اس سادہ رُوکے بزم میں آتے ہی بجھ گئے
جتنے تھے اہتمام زیادہ کئے ہوئے
اُٹھے ہیں اُس کی بزم سے امجدؔ ہزار بار
ہم ترک آرزو کا ارادہ کیے ہوئے
عمر کی سیڑھیاں
ہاں، سُنو دوستو
جو بھی دُنیا کہے
اُس کو پرکھے بِنا، مان لینا نہیں
ساری دُنیا یہ کہتی ہے
پربت پہ چڑھنے کی نِسبت اُترنا بہت سہل ہے...
کس طرح مان لیں
تم نے دیکھا نہیں
سرفرازی کی دُھن میں کوئی آدمی
جب بلندی کے رستے پہ چلتا ہے تو
سانس تک ٹھیک کرنے کو رُکتا نہیں
اور اُسی شخص کا
عمر کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے
پاؤں اُٹھتا نہیں
اس لیے دوستو، جو بھی دُنیا کہے
اُس کو پرکھے بنا، مان لینا نہیں
ساری دُنیا یہ کہتی ہے
اصل سفر تو مسافر کی آنکھ میں پھیلا ہوا خواب ہے
کس طرح مان لیں
تم نے دیکھا نہیں
عمر کےاس سرابِ اجل خیز میں
خواب تو خواب ہیں
ہم کُھلی آنکھوں سے جو بھی کچھ دیکھتے ہیں
وہ ہوتا نہیں
راستےکے لیے
(راستےکی طرح)
آدمی اپنے خوابوں کو بھی کاٹ دیتے ہیں لیکن
سُلگتا ہوا راستہ
پھر بھی کٹتا نہیں
اس لیے دوستو
جو بھی دُنیا کہے
اس کو پرکھے بنا، مان لینا نہیں
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بےخیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر، انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں
ہر طرف کن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اسطرح کوئی راستہ ہی مل جاٴے
بے نشاں جوابوں کا،کچھ پتا ہی مل جاٴے
مجھ کو دیکھتے ہیں تو...
یوں جواب کاپی پر ،حاشیے لگاتے ہیں
دائرے بناتے ہیں
جیسے انکو پرچے کے سب جواب آتے ہیں
اس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
نقل کرنے والوں کے
نت نئے طریقوں سے
آپ لطف لیتا تھا، دوستوں سے کہتا تھا!
کس طرف سے جانے یہ
آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
سینکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے
وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں، اک سوال نامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے؟
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں سب سوال مشکل ہیں!
بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں
دائرے بناتا ہوں
یا سوال نامے کو
دیکھتا ہی جاتا ہوں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks